عرصہ ہوا مئوناتھ بھنجن مدھیہ پردیش سے ایک مولوی صاحب وادی میں ہر سال آیا کرتے تھے۔ یہاں شہراور شہر سے باہر کوئی قصبہ جات میں اُن کے ارادت مند تھے… ہر جگہ پہنچ جاتے تھے۔ امامت کرتے تھے۔ دین سے متعلق کئی باتوں سے آگاہ کرتے تھے۔ وہ سر پر صافہ باندھتے اور ایک لمبا سا کرتہ زیب تن کرتے تھے۔ مفت کی روٹیاں نہیں توڑتے تھے بلکہ معمولی سطح پر عطروخوشبوئوں کا کاروبار کرتے تھے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک بڑا ساڈنڈا ہوا کرتا تھا اور اس عطار کا نام مولوی دیندار خان تھا۔ مولوی صاحب کے بولنے کا اندازہ بڑا منفرد، باوقار اور تحکمانہ ہوتا تھا مگر بات صاف صاف کھری سناتے تھے۔ کسی لاگ لپٹ اور مصلحت کو شی کے بغیر دین کی بات برملا بیان کرتے تھے۔ اُن کو کشمیری پہناوا’’ فرن‘‘ بہت پسند تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اس پہنائوے سے مستورات بھی مستور ہو جاتی ہیں اور مردوں کی ستروں کی جگہ پرپردہ رہتا ہے۔ چونکہ فرن سے مخفی رکھنے والی جگہیں نمایاں نہیں ہو جاتی ہیں، اُس اعتبار سے یہ ایک مرغوب پہناوا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے مرد بڑا ہو یا کم سن نماز میں اس کا ہپ اس قدر نمایاں نہیں ہونا چاہئے کہ پیچھے نماز پڑھنے والے کی توجہ کا باعث بنے۔ لگتا ہے کہ موصوف رحمت حق ہو چکے ہیں کیونکہ کافی عرصہ سے انہیں دیکھنے کا موقع نصیب نہیں ہوسکا۔
مسجد میں نماز ادا کرنے کے بارے میں سورہ الاعراف کی آیت نمبر31کے پہلے حصے میں رب کائنات کا حکم ہے( آیت مبارکہ احتراماً نہ لکھ کر اُس کی جگہ علامہ ابن کسیر کی تفسیر لکھتا ہوں)
ترجمہ :ہر نماز کے وقت اپنی زنیت یعنی لباس پہنے رہو جو تمہارے اجسام کی برہنگی کو چھپالے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نماز کے وقت تجمل یعنی شان و شوکت وقار اور ٹھاٹھ باٹھ سے نماز پڑھنا( حضور صلی ا للہ علیہ وسلم کا پسندیدہ عمل ) اور لائق ثواب( درست عمل نیک کام) ہے۔مندرجہ بالا مختصر تفسیر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر نماز ادا کرتے وقت مکمل لباس سے اپنے جسم کو مستور کرنا لازمی ہے اور جاہلی دور کے لوگوں کی طرح کپڑے اتار کر طواف کرنا یا دُعا و دیگر عبادات سر انجام دینا مطلقاً ناجائز ہے اور دوسری بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر نماز باوقار اور اچھے طریقے سے، صاف اچھے کپڑے پہن کر ادا کی جائے تو وہ حضورصلعم کے ارشاد گرامی کے مطابق درست اور نیک عمل ہے۔
آج سے چند سال پیشتر اگر آپ کو اپنے دفتر میں یا کسی کام کے سلسلہ دفتر کے آفیسر کے پاس جانا پڑتا تو آپ ننگے سر نہیں جاسکتے تھے اور عدالتوں میں جج صاحبان کے روبرو ننگے سر حاضر ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے مقابلے میں دیکھئے کہ آج کل نمازوں کا کیا حال ہے ۔ اول تو نمازوں کی رغبت (Tendency) بہت کم ہے اور ماہ صیام کے دوران جو بہاریں دیکھنے کو ملتی ہیں ، اس سے طبعیت خوش تو ہو جاتی ہے مگر بیشتر نمازیوں کو دیکھ کر بہت ملال ہوتا ہے۔ نمازی غیر مکمل اور ناقص لباس میں نماز کے لئے آتے ہیں۔ اُن کی عدم واقفیت یا لا اُبالی پن دیکھ کر کبھی کبھی خیال گزرتا ہے کہیں یہ نماز کے معاملے میں غیر سنجیدہ تونہیں ہیں کہ فقط خانہ پُری کے واسطے بڑی عجلت میں مسجد میںحاضر ہو تے ہیں۔ مناسب تو یہی تھا کہ نماز کے لئے جانے والا ہر خوش نصیب پہلے یہ سوچ لے کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں اور کس اعلیٰ وبالا رب کائنات کے سامنے کھڑا ہوں۔ ہوسکتا ہے تب جاکر ایسے نمازی کے رگ و ریشے میںاپنی عبادت کے تئیں تقدس یا دوسرے ا لفاظ میں خشوع وخضوع پیدا ہو۔
آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ گرمی کے دنوں میں یا خاص کر صیام کے دنوں میں ہمارے بعض نوجوان انر یا ٹی شرٹ پہن کر اور ننگے سر نماز کے لئے آتے ہیں۔ یہ انر ناف یا کمر تک ہوتی ہے اور ٹانگوں میں بغیر ’’ تعلق‘‘ ( اضافی کپڑا) کے ایزار ہوتا ہے جس کو عرف عام یا موجودہ بھاشا میں ٹراوزر کہا جاتا ہے۔ رکوع میں اور پھر سجدے میں یہ انر اوپر کھسک جاتی ہے مگر اُس کے ساتھ ہی نمازی کے ہپ بھی عیاں اور نمایاں ہو جاتے ہیں۔ پیچھے نماز پڑھنے والوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے کیونکہ اُن کی آنکھوں کے سامنے برملا نمازی کی نیم برہنہ تصویر آتی ہے۔ ٹراوزر چست ہو نہ ہو مگر بہر صورت انگ و اعضاء صاف طور پر جھلکتے ہیں اور اس طرح سے ملکہ صبا کی اس ہیت کذائی پر سے پردہ اُٹھ جاتا ہے جب وہ حضرت سلیمان ؑ کے دربار میں داخل ہوئی جس کو کسی شاعر نے نظم بند کیاتھا ؎
کرتے نہ بھاری پائیچہ ہوتا نہ پردہ فاش
ناحق تم ایزار سے باہر نکل پڑے
بے شک نماز ایک روحانی سفر داخلی کیفیت کانام ہے مگر اس میں ظاہر کے بھی اپنے لوازمات اور آداب ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاناچاہیے ۔ معاف کیجئے ! جب ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ انرپوش نمازی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ غیر دانستہ طور ہی سہی اپنے انروں سے یہود و نصاریٰ یا کمیونسٹ چین کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ چلتے پھرتے اشتہار پٹریوں اور چارپائیوں پر بکنے والے انر عرف عام میں ’’ بنگلہ دیشی‘‘ مال میں خریدے گئے کپڑوں پر کئی طر ح کے ایڈ اور پیغامات ہوتے ہیں جو اکثر یہود و نصاریٰ کی ملکیت والی کمپنیوں کے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ریسلروں اور فٹ بال کے کھلاڑیوں کی تصاویر یا ناموں کی گوشٹیاں بھی ان انروں پر چسپاں ہوتی ہیں اور ہمارے ایسے نوجوان نمازی کو اس بات کا ذرہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ اُس کے لباس پر کیا لکھا ہے اور وہ کہاں کھڑا ہے۔جب کسی نوجوان کو سکول، کالج، یونیورسٹی یا کسی ملازم کو دفتر جانا ہوتا ہے تو وہ بڑی طمطراق سے پریس شدہ کپڑے پہنتا ہے ،جو توں پر پالش کرتا ہے ،بار بار آئینے میں اپنے سراپا کا جائزہ لیتا ہے ،خوشبو لگاتا ہے اور ہونٹوں پر ایک میٹھی مسکراہٹ سجائے روانہ ہو جاتاہے مگر اُسی نوجوان کو جب نماز کے لئے مسجد میں آنا ہوتا ہے تو پائوں میں بیوی یا والدہ کی پھٹی پرانی چپل اور تن پر بوسیدہ اور کمرے سے اوپر انر، کیا اس حضرت نے دین کو یا نماز کو اتنا سستا اور دربار رب کائنات کوالعیاذ باللہ اتنا ہلکا سمجھ لیا ہے کہ وہ جس ڈھنگ سے مسجد میں آئے اُس کی اپنی من مانی ہے؟ کیا دنیاوی افسروں اور بیروکریٹوں کے سامنے جانا ہو تو ادب و احترام، سوٹ بوٹ، خوش لباسی اور عطر بیزی اور جب احکم الحاکمین کے دربار میں حاضر ہونا ہو تو اس وقت بوسیدہ ملی ’’انر زٔٹ‘‘۔ جناب !نماز کا ایک وقار ہے ، اپنی ایک تہذیب ہے ربِ ارض و سماوات کے روبرو گفتگو کرنے کیلئے ویسی ہی پوزیشن اختیار کی جانی چاہئے ،ہاں اتنا بہر حال یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ جوانی اور جوانی کے ولولے زیادہ دیر تک رہنے والے نہیں ہیں۔ بہت جلد شباب کی منزل سے ڈھلتے ہی لوگ یہ کہنے پرمجبور ہو جاتے ہیں ؎
روٹھ کر ہم سے جو چل دیا شباب
اُف کس کی ادا تجھے بھائی
حیف تیری نہ کی قدر ہم نے
کھو کے آئی سمجھ تو کیا آئی
سرور جہاں آبادی
………………
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر، موبائل نمبر:-9419475995