ابھی ابھی گاندھی جینتی کا اختتام ہوا ہے اور ملک نے گاندھی جی کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔اِس موضوع پر لکھنے کا دل تواُس وقت سے کر رہا تھا جب وزیر اعظم مودی نے اِس خاص دن کو’ سوچھ بھارت ابھیان ‘کا نام دیا تھا اور اگر اس دفعہ بھی نہیں لکھے تو پھر نہ جانے آئندہ برس کیا ہوگا۔جس زور و شور سے ۲؍اکتوبر ۲۰۱۴ء کو اِس صفائی ابھیان کا وزیر اعظم کے ذریعے آغاز کیا گیا اور حکومتی اداروں نیز اسکولوں اور کالجوں کو اُس دن کھلا رکھا گیا اور مرکزی حکومت کا حکم نامہ آیا کہ تمام اسکول وزیر اعظم کی نشر ہونے والی تقریر کے لائیو ٹیلی کاسٹ کا بندوبست کریں تاکہ بچے بھی اُن کی تقریر کو سُنیں اور اُن میں ایک ممکنہ با صلاحیت سیاست داں کی شبیہ کو دیکھیں۔اگرچہ تقریروںکے نتیجے کا مزہ اُنہوں نے جلد ہی چکھا تھا ،وہ چاہتے تھے کہ بچے بھی اُن کی اِس صلاحیت کے نرغے میں آجائیں کیونکہ پانچ سے دس برس بعد یہی بچے ووٹ دینے کے لائق ہو جائیں گے۔اسکولوں نے اس کا بندوبست بھی کیا اور وزیر اعظم کی تقریر نشر بھی ہوئی۔بچوں نے مودی جی کی تقریر سے کیا اثر لیا یہ تو پانچ دس برس بعد ہی پتہ چلے گا البتہ ان کے والدین یہ جان گئے کہ مودی جی نہرو بننے کی کوشش میں بُری طرح ناکام ہو گئے۔یہی سبب ہے کہ بعد میں انہوں نے خود سے یہ ضد چھوڑ دی کہ ۲؍اکتوبر کو اسکولوں کوایسا کرنے پر مجبور کریں۔
اِس صفائی ابھیان کو لے کر بہت کچھ ڈرامے ہوئے۔خود وزیر اعظم راجدھانی کی سڑکوں کو صاف کرتے ہوئے دیکھے گئے۔اُن کو دیکھتے ہوئے اُن کے کابینی وزراء اور دیگر ممبر آف پارلیمنٹ نے بھی اس میں حصہ لیا اور جگہ جگہجھاڑو لگاتے ہوئے دیکھے گئے۔ فوٹوسیشن بے حد کامیاب رہا جس کی تشہیر برقی میڈیا نے جنگی پیمانے پر کی جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی سامنے آیا۔لوگوں کے درمیان ایک بیداری پیدا ہوئی اور وزیر اعظم کے اس اسپرٹ کو سب نے سراہا کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو سب کا ہے،پورے ملک کا ہے اور کون نہیں چاہے گا کہ صاف ستھرا رہے بشرطیکہ اُسے مواقع ملیں اور ساتھ بھی۔مودی جی نے اِس ابھیان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایک سوچھتا ٹیکس لگا دیاجس کو عوام نے بخوشی قبول بھی کر لیا۔مودی جی کا ایک ہدف یہ بھی تھا کہ کھلے میں رفع حاجت پر شکنجہ کسا جائے اور اس کے لئے عوام کو ٹوائلٹ مہیا کرایا جائے۔وہ اپنی ہر تقریر میں ٹوائلٹ کی بات کرتے ہیں ،حتیٰ کہ لال قلعے کی فصیل سے بھی اُنہوں نے ٹوائلٹ ٹوائلٹ کی کئی بار رٹ لگائی۔باہر کے ملکوں میں لوگ پوچھتے تھے کہ کیا ہندوستان میں ٹوائلٹ نہیں ہیں؟ تو لوگ کہاں جاتے ہیں؟اور ساتھ میں یہ بھی سوال کرتے تھے کہ ملک کا ایک وزیر اعظم اپنی ہر بات میں اس کی رٹ کیوں لگاتاہے؟ کیا کسی وزیر اعظم کو یہ زیب دیتا ہے ک؟ مودی کے لئے یہ بار بار دہرانا ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا کہ کالج سے آیا ہوا ایک سِوِل انجینئر اپنے کنسٹرکشن سائٹ پرمزدوروں سے بار بار پانی پٹانے کی بات کرتا ہوچونکہ وہ نیا نیا ہوتا ہے اور اُسے تعمیرات کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ نقشہ وغیرہ بھی ٹھیک سے نہیں سمجھتا ہے۔شروع میں ٹیکنکل باتیں تو اس کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں کیونکہ کالج کی پڑھائی اور عملی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور اسی لئے وہ پانی پانی کی رٹ لگاتا ہے۔
شہروں کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں لیکن گاؤں کے لئے یہ بڑا مسئلہ ہے۔وہ بیچارے مجبور ہیں ۔یوپی کے کچھ دیہاتوں میں ٹوائلٹ بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے ۱۲؍ ہزار روپے دئے جا رہے ہیں لیکن بدعنوانی کے سبب ان تک پہنچتے پہنچتے یہ رقم ۸؍ہزارہو جاتی ہے۔اب بھلا بتائیے کہ ۸؍ہزار روپے میں کوئی ٹوائلٹ بن سکتا ہے؟ اگر بن بھی جائے تو پانی کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ وہاں تک پہنچے کیسے؟ممکن ہے کہحکومت کے ارادے ٹھیک ہوں لیکن انفرا سٹرکچر تیار کرنے سے پہلے کچھ بھی کرناپیسوں کا زیاں ہے۔سب سے ضروری جو کام ہے وہ لوگوں کو ذہنی طور پر آمادہ کرنا ہے۔اس کے لئے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوگی ۔گاؤں میں ہو رہے کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکتا ٹھیک اُسی طرح جس طرح الیکشن میں اب ووٹوں کی خاطر گھر گھر روپے پہنچائے جاتے ہیں۔ میڈیا اور صحافی حضرات سب جانتے ہیں لیکن کوئی منہ نہیں کھولتا اور جمہوریت یوں ہی شرمسار ہوتی رہتی ہے۔
اِس صفائی مہم کے لئے وزیر اعظم نے جو ’لوگو‘تیا ر کروایا اور ملک کے سامنے پیش کیا وہ بھی کم حیرت ناک نہیں ۔گول والاگاندھی چشمہ اور چشمے کی ایک آنکھ میں’سوچھ‘ لکھاہوا اور دوسری آنکھ میں ’بھارت‘۔اس چشمے کو دیکھتے ہی گاندھی جی کی شخصیت ابھرتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صفائی اور گاندھی جی لازم و ملزوم ہیں۔ یہ غلط بھی نہیں ہے۔آج سے تقریباً ۱۰۰؍برس پہلے۱۹۲۲ء میں گاندھی جی نے صفائی اور صحت کی بات کی تھی اور چاہا تھا کہ ہندوستان اِس شعبے میں ترقی کرے تاکہ عوام کی زندگی میں بہتری آئے اوروہ بیماریوں سے پاک ہوں لیکن گاندھی جی نے ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ باہر کی صفائی کے ساتھ اندر کی صفائی بھی اُتنی ہی ضروری ہے۔اِس ’اندر‘ سے مراد ضمیر و دل کی صفائی سے ہے۔گاندھی جی کو احساس تھا کہ کچھ لوگ اپنے اندر ون میں نفرت پالے ہوئے ہیں۔دلتوں اور سماج کے کمزور طبقوں کے تئیں ،اقلیتوں کے تئیں اور انصاف پسندوں کے تئیں ۔یہ نفرت جسم کی اندرونی گندگی ہے جسے ہر حال میں صاف رکھنا ضروری ہے۔ اگرچہ وہ اسی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے کیونکہ نفرت سے تشدد ہی پیدا ہوتا ہے جب کہ گاندھی جی کے نزدیک تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں۔
گاندھی جی دنیا بھر میں ’عدم تشدد ‘کے لئے جانے جاتے ہیں نہ کہ ’صاف صفائی ‘ کے لئے اور اسی لئے ہندوستان کی شبیہ بھی عدم تشدد کے ایک مقام کے طور پر ابھرتی ہے ۔اقوام متحدہ نے ۱۷؍جون ۲۰۰۷ء کو گاندھی جی کی یومِ پیدائش ۲؍اکتوبر کو ’’بین الاقوامی عدم تشدد دن‘‘ یعنی انٹرنیشنل نان وائلینس ڈے، کے طور پر منانے کااعلان کیا۔اسی سے گاندھی جی کی عدم تشدد کے تئیں موقف کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔دنیا میں ۲۵۰؍ سے زیادہ ممالک ہیں اور اُن تمام کے نزدیک گاندھی جی کو اس طرح خراج عقیدت کا پیش کیا جانا ہمارے لئے فخر کی بات ہے لیکن مودی جی اپنے طرزعمل اور سوچ سے اُنہیں صرف صاف صفائی تک محدود کر دینا چاہتے ہیں ۔یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ عدم تشدد سے اُنہیں اور ان کی پارٹی نیز آئیڈیالوجی کو خدا واستے کا بیر ہے۔اسی لئے گاندھی جی کو یہ لوگ ایک الگ فریم میں دکھانا چاہتے ہیں اور فی الحال اس میں کامیاب بھی ہیں کیونکہ عوام کی نظر وہاں تک نہیں جا سکی ہے۔ان کی آئیڈیالوجی گوری لنکیش،گووند پنسارے، پروفیسر ایم کلبرگی اور ڈھابولکراور اِن جیسے انصاف پسندوں کوتشدد کا بھینٹ چڑھنے پر ملامت نہیں کرتی بلکہ ان کے قتل پر خوشی منانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔اس لئے گاندھی جی کی عدم تشدد کی نیتی پر پردہ ڈالنے اور اُنہیں کسی اور نیتی میں اجاگر کرنے کی اِن کی نیتی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے جس پر روک لگانے کی اشد ضرورت ہے۔٭
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ: 9833999883