امریکہ میں لاس ویگاس کے مقام پرہنستے کھیلتے لوگوں پر ایک دم سے موتوں کی برسات کر کے ایک کم دماغ اور کٹھور دل امریکی شہری نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ۔ ابھی تک اس معمہ کے پس پشت مقصد یا منصوبہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ ایک کھلے میدان میں قریب 20 ہزار لوگ گیت گانوں کا رنگا رنگ پروگرام سن رہے تھے کہ یک بار اُن پر گویا آسمان سے موت کے اولے آن ٹپکے۔ موتوں کی برسات تو محاورے میں سنتے آئے ہیں لیکن یہ تو سچ مچ سے موتوں کی برسات تھی جو میوزئکل کنسرٹ کے جائے وقوعہ کے سامنے کے ایک ہوٹل کی 32 ؍ ویں منزل سے برس کر ساٹھ کے قریب انسانوںکو لقمہ ٔ اجل بناگئی اور پانچ سو لوگوں کو زخمی کر کے چھوڑا۔بن بادل کے بارودی بارش کی بوچھاڑ ہوئی توایسی گنگنا ہٹ ہوئی کہ لگا جیسے بادل پھٹ گئے اور دو چار منٹوں میں60؍ شرکاء جان سے مارے گئے اور قریب 500 ؍زخمی ہو گئے۔
موقعہ ٔ وارادت پر کیسے لہو کے فواّرے پھوٹے ہوںگے؟ کیسے لوگ چیخ وپکار کر رہے ہوںگے، کیسے اپنے ساتھیوں اور بچوں کو زور زور سے پاگلوں کی طرح آوازیں لگاتے ہوںگے، ہمارے لئے اس دلدوز منظر کا قیاس کرنا بھی مشکل ہے۔یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب کچھ لمحہ پہلے لوگ گیت گانوں کی جھنکار میں جھوم رہے تھے، زور زور سے تالیاں پیٹ رہے تھے، کچھ لوگ ناچ رہے تھے ، کچھ ناچنے تھرکنے کا موڈ بنا رہے تھے۔بہت سے لوگ ہاتھوں میں پکڑی ہوئی کھانے کی چیزوں پر چٹکیاں لگا رہے تھے کہ یہ موتوں کا مینہ برس گیا اور آناًفاناً ہنسی خوشی ماحول کو رنج وغم میں بدل دیا۔
جدید دورمیںانسان پیدا ہوتے ہی چاروں طرف موتیں اور ہلاکتیں دیکھتا آیا ہے، چھوٹے چھوٹے حادثات بھی اوربڑے پیمانے کی موتیں ہلاکتیں بھی۔ اکثر ہم اس طرح سے انسان جانوں کے ضائع ہونے پر غم والم کا اظہار کرتے ہیں اور غصّے کا بھی۔ غیر فطری قتل وخون خرابے کے خلاف سڑکوں پر بھی نکلتے ہیں، نعرہ بازیاں بھی کرتے ہیں، دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے پتھر بھی چلاتے ہیں اور قاتلوں کے خلاف غم غصے کی رو میں بہہ کر کچھ اور جنازے اٹھتے ہیں۔ اکثر لوگ قاتلوں کے خلاف سخت کاروائی کی مانگ کرتے ہیںاور کبھی کبھار غصے اور جوش کے عالم میں ایک سر کے بدلے دس سر کاٹ لانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن امریکہ کے لوگ اس معاملے میں سڑکوں پر آکر کیا کریں گے؟ کتنے سروں کی مانگ کریںگے، قاتل تو پہلے ہی اپنا سر 32 ویں منزل کی بالکونی میں رکھ کر پرلوک سدھارگیا ہے۔ امریکیوں نے اپنے دستور کے مطابق دل کا غصہ نکال لینے کے لئے بڑے میدان میں جمع ہوکرہزاروں موم بتیاں جلا دیں، کوئی گاڑی نہیں جلائی، کسی سرکاری عمارت کو نذر آتش نہیں کیا، شاید وہ لوگ جانتے ہوںگے کہ اس سے جانے والے واپس نہیں آ سکتے بلکہ مزید اپنا ہی ا لٹا نقصان ہوتاہے۔ دل دہلادینے والی ہلاکتوں کے بعد ہم لوگ مذمت کی قراردادیں پاس کرتے ہیں۔ یہاں امر یکہ میں لوگ کس کی مذمت کریں؟ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔کس کی لعن طعن کریں،و ہ بھی پتہ نہیں ۔ ہم لوگ ایسے واقعات کے لئے اکثر فریق مخالف کو صلوٰاتیں سناتے ہیں اورصاحبان اقتدار پر الزامات لگاتے ہیں کہ حفاظتی انتظام صحیح نہیں تھے۔ امر یکہ کے میوزیکل کنسرٹ میں تھری ٹائر حفاظتی انتظامات بھی کیسے موثر ثابت ہوتے؟اگر دروازوں پر میٹل ڈیٹیک ٹر لگائے جاتے تو بھی کیا ہوتا؟ ہر گیٹ پر دو تین بار تلاشی لی گئی ہوتی، لوگوں کے تھیلے، پرس اور جیبیں ٹٹولی جاتیں پھر بھی انسانی جانوں کا اتلاف کیسے روکا جاتا جب موت کا فرشتہ آسمان سے موتوں کے پرچے گولیوں کی صورت میں برسا رہا تھا؟اس کے باوجود ماننا ہوگا کہ یہ کوئی قدرتی آفت تو نہیں تھی،کوئی سونامی، زلزلہ نہیں تھا، طوفان سیلاب نہیں تھا۔یہ کوئی ہوائی اور سڑک حادثہ اورصنعتی حادثہ بھی نہیںتھا کہ کوئی جہاز آ گرا یا نزدیک میں ہی کوئی گیس کا چیمبر پھٹ گیا اور اپنے ساتھ اتنے لوگوں کو فنا کے گھاٹ اُتاردیا۔ حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے لیکن یہ تو ایک مخصوص ذہن کے بندے نے بلا سوچے سمجھے ودسرے بندوں کو بے دردی سے مارڈالا، وہ بھی اچانک نہیں بلکہ باقاعدہ خونی پلان بنا کر جس کا واحدہدف صرف انسانو ں کو مارنا رکھا گیا تھا۔ یہی سب سے دُکھ اور پریشانی کی بات ہے ، یہی سب سے بڑا سوال اور سب سے بڑی گتھی ہے کہ ایک انسان کے اندر دوسرے ا نسان کے مارنے کا شوق کیوں پروان چڑھتاہے ؟
جس قاتل نے یہ کام کیا ،وہ امریکہ کا ہی شہری تھا۔ اس کی عمر 64 سال او ر نام سٹیفن پیڈوک تھا۔ آج کل نام میں دلچسپی اس لئے ہوتی ہے کہ دیکھیں وہ کس مذہب کا تھا اور پھر تبصرہ شروع ہوجا تا ہے کہ دیکھو فلاں مذہب کے لوگوں کی کرتوت،ان کی بدکاری اور بددماغی اور یہیں سے کئی بار ایک اور فتنہ بدلے کی بھاؤنا سے شروع ہوتا ہے چلو اس مذہب، اُس فرقے اور اُس ذات برداری کے وابستگان کو ماریں ،اُن کے گھر جلائیں، آشیانیں پھونک دیں ، دوکانیں اور کارخانے خاکستر کردیں، اگرچہ وہ بے قصور بھی ہوں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے دنگے فسادمیں اس بات کا بھی خیال نہیں کیا جاتا کہ مرنے والوں میں اس فرقے کے لوگ بھی شامل تھے۔س بہر حال ٹیفن کے پاس پستول اور بندوق ملا کربیس ہتھیار تھے۔ اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہنا چاہیے کہ دیکھو بندوق کا شیطانی کارنامہ بلکہ ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ دیکھو ایک وحشی بندے کی درندگی کا حال کہ بندوق نہتوں پر اٹھائی اور لاشوں کے ا نبار لگادئے۔ یہ بندوق کی نہیں بلکہ بندوق چلانے والے کی شطینیت ہے۔ہم مذہبوں اور ملکوں کی فطرت کی بات کرتے ہیںاور انسان کی گندی اور آدم خور فطرت کی نہیں۔ دورحاضر میں جانے انجانے انسانی ذہنیت قتل وخون کی ذہنیت بنتی جا رہی ہے۔ ہمارے یہاں موت کے تاجروں کی تعریفیں ہوتی ہیں، بندوںکو مارنے والوں کے گیت گائے جاتے ہیں۔ آج ہر بات میں غصہ ہے اور ہر غصہ بالآخر بندوق کی بات پر مرکوز ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جلسوں اور میلوں میں جاکر لوگ بناوٹی یا اصلی بندوق کندھے پر لٹکا کر فخر کے ساتھ اپنی تصویریں کھنچواتے ہیںکیونکہ آج کے آدمی کے اندر آدمی مارنے کا شوق دل ودماغ میں موجزن ہے ۔ یہ چیز انسانی تہذیب کی سب سے بڑی پریشانی بن گئی ہے۔ لاس ویگاس جیسی مذموم ہلاکتوں کا قہربھی بندے کے اندر بندے کو مارنے کے شوق کا پتہ دیتا ہے اور بتاتاہے کہ انسان اپنے ہر غصے کا حل بندوق کی نالی سے نکالنے میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ یہ سفلی جذبہ جس کسی میںبڑھتا جا ئے ،وہی قاتل اور خون خوارذہنیت کا مالک بن کے رہتا ہے۔کبھی سنا تھا کہ کچھ لوگ اس دھرتی پر ہیں جو دوسروں کی زندگی کو اپنی زندگی سے قیمتی سمجھتے ہیں، کچھ لوگ دوسروں کی بہتری کو بھی اپنی بہتر ی سے ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسی انسانی فطرت رب کی بخشش ہے، اس فطرت سے انسانیت زندہ ہے لیکن اب دنیا میں ایک نئی فطرت( بری فطرت کہنا مناسب رہے گا) پیدا ہو رہی ہے جودوسروں کی موت کو اپنی زندگی سے بھی ضروری سمجھتی ہے۔یہ گناہ گارانہ اور وحشیانہ فطرت ہی کہلاسکتی ہے اور یاد رکھئے کہ اس بد فطرتی کے ہاتھوں ہر قتل ِانسانی تہذیب وشرافت کے بالکل بر عکس ہے جب کہ خود کا قتل بھی ناقابل معافی گناہ ہے۔
امریکہ کے صدر اورکئی دیشوں کے سربراہ اس دلدوز واقعے پر غم اور غصے کا اظہار کر چکے ہیں۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے مرنے والوں کی یادمیں سوگ منانے کے لئے ملکی جھنڈے آدھے نیچے کرنے کا حکم دیالیکن اس تصویرکو نہ قاتل دیکھ سکے گا اورنہ مقتول۔ جب کہ امریکی صدر کے اس معاملے پر بیان میں لوگوں کو ایک کمی ضرور نظر آئی، وہ یہ کہ عام خیال یہ کیا جاتا تھا کہ اس بار وہ ضرور ہتھیاروں کو رکھنے کے لائسینس کی بڑی اور کڑی شرطوں کا اعلان کریںگے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔مانا کہ license کی سخت شرطوں کے باو جود ناجائز ہتھیار حاصل کرنے مشکل کام نہیں لیکن یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ سماجاور سرکار کے کنٹرول سے باہر کے ہتھیار بہت تباہی پیدا کر رہے ہیں۔ لاس ویگاس میں یہ بندہ سوٹ کیسوں میں بھر کر پستول اور بندوقیں ملا کر بیس بارودی ہتھیار لے گیا تھا۔ اس کے گھر میں بھی اور کئی ہتھیار ملے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ اس نے جو شیطانی کام کیا، پوری تیاری سے کیا اور ہوش وحواس میں کیا۔ عین ممکن ہے کہ اس نے اپنی خون خواری کو صحیح قدم مان کر یہ سب حیوانی کھیل کھیلا ہو۔ کیا پتہ اس کے پاس خون خرابے کے حق میں اس کی دانست میں ٹھوس دلائل بھی ہوںمگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس نے یہ اقدام انسانیت کی ہر دلیل اور انصاف کے ہرقاعدے کو لتاڑ کر کیا جس میں گونگے اور اندھے اسلحہ نے اس کا ہاتھ تھا ما اور دل کو آمادۂ شر کیا ۔یہ تو ایک بد طینت بندہ تھا، کہیں ایسے دو چار انسان دشمن بندے بھی ہو سکتے ہیں، ایسے کچھ وحشی بندوں کی ایک تنظیم ہو سکتی ہے۔ اُن کے پاس بارودی ہتھیار ہوںگے، وہ ان کا استعمال اپنی مرضی سے کریں گے، اپنے حساب سے کریںگے اور جس طرح واجب سمجھیںگے کر گزریںگے، وہ کسی سے نہیں پوچھیںگے، وہ کسی سے صلاح نہیں کریں گے اور نہ دل کی زبان سننے کے قائل ہوں گے ۔ بے شک دنیا ہمیشہ ایسے جنونیوں کے کسی بھی سیاہ کارنامے پر تھو تھو بھی کرتی ہے لیکن ان کے پاس وحشت ودہشت واجب ہونے کے اپنی من پسند دلائل ہوتے ہیں جو انہیں ہر گناہ پر اکساتے ہیں۔ یہ آج کی دنیا میں انسانی برادری کی سب سے بڑی اور سب سے لاعلاج بدقسمتی ہے۔بندوق اور باردو انسان کی سب سے منحوس ایجاد ہے ۔ ہم نے اس سلسلے میں اندوہناک واقعے کی ایسی تصویریں بھی دیکھی ہیں کہ قاتل نے دونوں ہاتھوں سے پورے ہوش وگوش کے ساتھ بندوق پکڑی ہے اور اس کو بوسہ دے رہا ہے۔ دسہرے کے تیوہار پر اخبار میں ایک فوٹو دیکھی کہ عورتیں بندوقوں پر ریشمی دھاگے باندھ کر شستر پوجا کر رہی ہیں ،آر ایس ایس کا سنچالک قمیض پتلون پہن کر بندوق پر کیسر کا تلک لگا کر شستر پوجا کرتا ہے۔ حالانکہ اسی شستر نے کچھ ہی دیر قبل امریکہ میں چند منٹوں میں ہی ساٹھ بندے مار دئے اور پانچ سو گھائل کردئے۔کہا جاتا ہے کہ لاس ویگاس کے مذکورہ ہوٹل میں جس قاتل کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں، اس کا دماغی توازن صحیح نہیں تھا۔ یہاں سے ایک اور حقیقی خوف ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ انسان نے تو بندوق سے بھی ارب کھرب گنا خطرناک سامان حرب وضرب بنا رکھے ہیں ، ایسے میں اگر بالفرض ایٹم بم کا بٹن دماغی توازن سے محروم کسی آدمی کے ہاتھ لگ کر دب جائے تو وہ آنکھ کی جھپک میں پوری زمین کو کئی بار تباہ وبرباد کر سکتا ہے کہ کچھ ہوش نہیں رہے گا کب کسی 32 ویں منزل سے ایٹمی موتوں کی برسات نازل ہو کہ نہ کوئی قومی پرچموں کو آدھا نیچے کرنے والا بچے نہ کوئی مذمتی بیان جاری کرنے والا سیاست دان زندہ رہے۔ ذرا سوچئے سامان حرب وضرب کے انبار پر بیٹھی دنیا کہاں جارہی ہے ؟
رابطہ 098783 75903