تاریخی جامع مسجدکے منبر و محراب پھرخاموش

Kashmir Uzma News Desk
5 Min Read
سرینگر//اہل وادی کے بڑے روحانی و تاریخی مرکز جامع مسجد سرینگر کو رواں ماہ کے دوران مسلسل دوسری مرتبہ نماز جمعہ کی ادئیگی کیلئے مقفل کیا گیا۔حزب کمانڈر برہانی وانی کے جان بحق ہونے کے بعد گزشتہ15ماہ کے دوران شہر خاص میں واقع اس روحانی مرکز میں32 بار نماز جمعہ کی ادائیگی کو ناممکن بنایا گیاجبکہ امسال میں اب تک13مرتبہ  نماز جمعہ کی ادائیگی پرقدغن لگائی گئی۔10فروری کو مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر دفتر واقع سونہ وار اور لالچوک چلو کال کے موقعہ پر ایک مرتبہ اس مسجد کو سیل کیا گیا اور کسی بھی نمازی کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انتظامیہ اور پولیس نے10مارچ کو ایک بار پھر مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے پلوامہ میں ہوئی شہری ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کی کال کے موقعہ پر جامع مسجد سرینگر کو مقفل کیا،جو4ہفتوں تک جاری رہیں۔ جون میںشب قدر کو ایک پولیس افسر کو زیر چوب ہلاک کرنے کے بعد مسلسل6ہفتوں تک جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی رہیں اور سخت ترین کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا،تاہم 4 اگست کو نماز جمعہ کی دائیگی کی اجازت دی گئی۔8ستمبر کو مذہبی جماعتوں کی طرف سے روہنگیائی مسلمانوں پر انسانیت سوزمظالم روا رکھنے کے خلاف دی گئی ہڑتال کے پش نظر جامع مسجد سرینگر میں پھر نماز جمعہ پر بندشیں عاید کی گئیں۔سخت ترین پابندیوں کے باعث نوہٹہ کی تاریخی جامع مسجد میں مسلسل تیسرے ہفتے کو بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔مزاحمتی خیمے کی طرف سے6اکتوبر کو پراسرا ر گیسو تراشی کے خلاف دی گئی احتجاجی کال کے پیش نظر ایک بار پھر جامع مسجد کو نماز جمعہ کیلئے مقفل کیا گیا اور13اکتوبر کو پھر سے یہی صورتحال پیش آئی۔واضح رہے کہ2010میں جامع مسجد سرینگر کو8ہفتوں تک نماز جمعہ کیلئے بند رکھا گیا تھا،جبکہ گزشتہ برس حزب کمانڈر برہان وانی کے جان بحق ہونے کے بعد لگاتار19ہفتوں تک مقفل رکھا گیا۔امسال بھی عید الفطر سے قبل تاریخی جامع مسجد کو نماز جمعہ کیلئے بند رکھا گیا اور6 ہفتوں کے بعد اس کو نماز کیلئے کھولا گیا۔ شہرخاص میں واقع تاریخی جامع مسجدکوخاص مرکزیت حاصل ہے اوریہاں جمعہ کے روزبڑے اجتماعات ہواکرتے ہیں۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حالیہ کئی برسوں سے یہ دیکھاگیاکہ جب بھی مزاحمتی قیادت کی جانب سے کوئی پروگرام دیاجائے یاکہ احتجاجی مظاہرے ہونے کااندیشہ لاحق ہوتوتاریخی جامع مسجدکوسیل کرکے یہاں نمازجمعہ کے اجتماع پرپابندی عائدکردی جاتی ہے ۔ایک اعلیٰ پولیس افسرنے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بندشوں اوراضافی سیکورٹی اقدامات کادفاع کرتے ہوئے بتایاکہ نمازجمعہ کے موقعہ پرجامع مسجدکے احاطہ اورنواحی علاقوں میں پُرتشددمظاہروں کااندیشہ لاحق رہتاہے ،اسلئے احتیاطی اقدامات روبہ عمل لاناناگزیربن جاتاہے ۔ میرواعظ کشمیر مولانا عمر فاروق نے سماجی وئب سائٹ پر ٹیویٹ کرتے ہوئے تحریر کیا’’ہندوستانی ریاست اور انکے مقامی حواریوں کی طرف سے دن بہ دن ہم پر حملوں میں اضافہ ہو ہورہا ہے،یہ تیسرا ہفتہ ہے جب جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اس علاقے کے لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا گیا ہے،اور مجھے بھی مسلسل جبری طور پر خانہ نظر بند رکھا گیا ہے‘‘۔تاریخ دانوں کا کہنا ہے جامع مسجد سرینگر میں نماز کی پابندی کوئی نئی بات نہیں،اور تاریخ کے اوراق الٹنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکمرانوں نے وقت وقت پر مسلمانان کشمیر کو اس روحانی مرکز سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم جی اکبرنے اپنی کتاب میں لکھا ہے’’جامع مسجد سرینگر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سکھ دور اقتدار کے دوران موتی روم کو کشمیر کا گورنر تعینات کیا گیا جس نے1819میں نمازوں کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی۔مولانا شمس ارحمان جنہوں نے جامع مسجد پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے کا کہنا ہے کہ1842میں سکھ دور کے آخری گورنر شیخ انعام الدین کے دورمیں اس تاریخی مسجد کو کھولا گیا تاہم اس دوران مسلسل11برسوں تک اس مسجد میں صرف نماز جمعہ ہی ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اس دوران جمعہ کو کچھ گھنٹوں کیلئے ہی مسجد کو کھولا جاتا تھا اور بعد میں بند کیا جاتا تھا تاہم1898کے بعد ہی مسجد کو کھولا گیا۔جامع مسجد کو کشمیر کے ہر دلعزیز بادشاہ سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر نے1389اور1420کے درمیان تعمیر کیا تھا۔
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *