’’یہ تمہارا بھرم ہے، ایک لاشعوری خیال ہے! اکثر ایسا ہوتا ہے، جب کوئی انسان دولت مند بننے کے خواب دیکھنے لگتا ہے تو اُسے بار بار ایسے خیالات ستانے لگتے ہیں۔ تمہارے اندر بھی دولت مند بننے کی آرزو جاگ اُٹھی ہے اِسی لئے تمہیں اُٹھتے بیٹھے، سوتے جاگئے، کھاتے پیتے یہ خیال ستاتا ہے کہ تم ایک نہ ایک دن دولت مند بن جائو گی‘‘، ماہر نفسیات جارج ولیم نے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی مریضہ سے کہا:۔
’’ڈاکٹر جارج… مجھے پوری اُمید ہے کہ آنے والے دنوں، مہینوں یا برسوں میں میرے نام ایک ٹیلی گرام آئے گا جس میں یہ خوشخبری ہوگی کہ میں سو ملین ڈالر کی مالکہ بن گئی ہوں… ایلیاؔ نے بڑے اطمینان سے کہا۔
’’ہاں اِسی لئے تمہاری راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے، کسی بھی کام میں تمہارا دل نہیں لگتا، تمہیں کسی بھی خوشی کا احساس نہیں ہوتا ہے، تم اکثر اُداس اور بے قرار رہتی ہو۔ تنہائی میں روتی رہتی ہو اور کبھی کبھی خودکشی کے بارے میں بھی سوچتی ہو۔ تم ایک دماغی مریضہ ہو، تمہیں دوائیوں اور سائیکوتھراپی کی ضرورت ہے‘‘، ڈاکٹر جارج نے ایک ہی سانس میں کہا
’’ڈاکٹر …تم مانو یا نہ مانو… مگر ٹیلی گرام ضرور آئے گا اور میں سو ملین ڈالر کی مالکہ بن جائوں گی۔ پھر میں عیش کروں گی‘‘۔ ایلیا کُرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرکے امیر بننے کا سپنا دیکھنے لگی۔
’’تم شدید ڈپریشن میں مبتلا ہو۔ تمہاری غربت تمہارے لئے وبال جاں بن گئی ہے… اگر تم دوائیاں نہیں کھائوگی تو تمہارا انجام عبرتناک ہوگا۔ تم خودکشی کروگی‘‘ ڈاکٹر جارج نے نسخہ اُسی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
دوسرے سیشن میں ڈکٹر جارج نے ایلیا کا نفسیاتی تجزیہ کیا اور پھر سائیکو تھراپی شروع کی۔ پورے ایک سال تک سائیکو تھراپی چلتی رہی مگر ایلیا کے ذہن سے یہ بات مٹ نہ سکی کہ ایک نہ ایک دن ٹیلی گرام آئے گا اور وہ ایک سو ملین ڈالڑ کی مالکہ بنے گی۔
ڈاکٹر ولیم نے اِس مریض کی ایک خصوصی رپورٹ تیار کی۔ اُس نے ’’خوابوں و خیالوں میں دولت مند بننے کی خواہش…ایک بھرم‘‘ کے عنوان سے کیس رپورٹ تیار کرکے انٹرنیشنل جنرل آف سائیکولجی میں شائع کروایا… اس کیس رپورٹ کو دنیا بھر کے ڈاکٹروں نے سراہا… اور ڈاکٹر جارج کو عالمی شہرت ملی… اُسے ’’سال کی بہترین کیس رپورٹ ‘‘تیار کرنے پر خصوصی ایوارد بھی ملا۔
چند روز بعد ڈاکٹر جارج حسب معمول اپنے مطب میں مریضوں کے ساتھ مصروف تھا۔ ایک مریض باہر نکلاتو ایلیا داخل ہوئی اور اندر داخل ہوتے ہوئے کہہ اُٹھی۔
’’ڈاکٹر جارج، ٹیلی گرام آگیا…میری ماں کے چچیرے بھائی نے مرنے سے پہلے اپنی سو ملین ڈالر کی جائیداد میرے نام کردی ہے۔ دیکھا …
میں کہا کرتی تھی نا…!‘‘
دُور اندیش
عشرت بیگم نے تھوڑی دور کھڑی اپنی بے حد خوبصورت اور جوان پوتی کا سرتاپا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا ؛
’’اب سونو کی شادی کا وقت آپہنچا ہے‘‘
سونو کے ماں باپ ایک حادثہ میں مارے گئے تھے اور اُس کی پرورش کی ذمہ داری عشرت بیگم اور اُس کے شوہر جمال الدین پر آن پڑی تھی۔ میاں بیوی نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ چار سال قبل جمال الدین کو دل کا دورہ پڑا اور وہ بھی چل بسا۔ عشرت بیگم کی دنیا ہی جیسے تاریک ہوگئی مگر… عشرت بیگم سونو کے لئے زندگی گزارنے لگی۔
عشرت بیگم جہاں دیدہ ہونے کے علاوہ بے حد خوبصورت، ذہین اور چالاک تھی۔ وہ اپنی پوتی کے لئے ایک ایسا بر چاہتی تھی جو اُسے زندگی بھر سُکھی رکھ سکے۔ اسکی دِلی آرزو تھی کہ سونو ایک شہزادی کی طرح زندگی گزارے۔
کئی رشتے آئے مگر وہ سب عامیانہ درجے کے تھے، اس لئے سبھوں کو ٹھکرایا گیا۔ چندہ ماہ عشرت بیگم سنجیدگی سے سوچتی رہی اور آخر کار اُس نے سونو کے لئے ایک رشتہ قبول کیا۔ لیکن اِس رشتے کے بارے میں سُن کو ہر کوئی انگشت بدندان رہ گیا۔
’’ارے کیا؟ ستر سال کا بوڑھا؟‘‘ ہر کوئی حیران و پریشان تھا۔
عشرت بیگم کی چھوٹی بہن اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکی …اُس نے کہا …
’’باجی تم سٹھیا گئی ہو ، تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے، کہاں ستر سال کا بوڑھا اور کہاں سونو…ارے بچی ہے وہ ، بیس سال عمر ہے اُسی کی… بے چاری کو جہنم کی آگ میںڈھکیل رہی ہو… ذرا سوچو… کیا کرنے جارہی ہو تم…؟
عشرت بیگم سنتی رہی اور پھر بڑے پُرسکون انداز میں اپنی بہن سے مخاطب ہوئی ۔
’’میں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں، میں نے دنیا دیکھی ہے… وہ بوڑھا ستر سال کا تو ہے مگر کروڑوں اربوں کی جائیداد کا مالک ہے… اُس کے دو بیٹے امریکہ میں مقیم ہیں، وہ اکیلا ہے اور ہاں میں اُس کے فیملی ڈاکٹر سے مل چکی ہوں۔ بڈھا کینسر کا مریض ہے لیکن خود نہیں جانتا ہے۔زیادہ سے زیادہ ایک سال تک زندہ رہیگا…اور پھر …!‘‘
رابطہ:9419004094