میں سا بقہ ضلع بارہمولہ ہوں۔ بے بسی اور بے کسی نے میرا حال بد سے بد تر بنا دیا ہے۔ میرے توا نا و تندرست جسم کو ارباب حل و عقد نے تین ٹکڑوں میں تقسیم کر کے میری جوا نی کو پیری میں بدلنے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی ہے:ضلع با رہمولہ، ضلع کپواڑہ اور ضلع با نڈی پو رہ۔۔۔ ایک ہی جسم و جان کے تین انگ ۔اور یہ سب ڈرا مہ لو گوں کی آ نکھوں میں دھول جھو نک کر تعمیر و ترقی کے سہا نے خو ا بوں کے پس منظرمیں پوری مہا رت سے رچا یا گیا، کہ کسی نے اُف تک نہ کی۔ بہر حال اپنے او پر میں کیوں نہ نا ز کروںکیو نکہ میں مشہور عا لم سیا حتی مقا ما ت گلمرگ، کھلن مرگ، وا دی ٔلو لاب، چتر نار، بو سیاں، شہرہ آفاق جھیلوں،مثلا ولر ، ما نسبل، آ لہ پتھر،مذ ہبی مقا مات جیسے زیارت جا نباز ولیؒ، با با پیا م الدین ریشی صا حبؒ اور سکھ برادری کے گر د وارہ چھٹی پا د شا ہی کے علاوہ میوہ با غا ت اور دیو قا مت درختوں پر مشتمل گھنے جنگلات کو اپنے دا من میں سمیٹے ہوئے ہوں۔ انہی خو بیوں سے متصف میںشمالی کشمیر ہوں۔ اپنی خوبیاں کہاں تک گنا ئوں،جہاں تک علم و ادب کا تعلق ہے ، میں اپنی آ غوش تر بیت میں آ فتابِ محد ثین حضرت مو لا نا انور شاہ کشمیریؒ فاضل دیو بند اور جناب ولی شاہ نا راں تھل، تا ریخ داں جناب مو لوی حسن صا حب کھو یہا می، علم وادب کے سر تاج پرو فیسر محی الدین حا جنی ،حسین علی تنہا انصاری ،مشعل سلطا ن پوری اور سیفی سو پو ری ، شعراء ذی وقارجناب غلام رسول نا زکی ،و ہاب پرے حا جنی ، مشہور نعت گو نادمؔ کشمیری، کشمیر کی مشہور عارفہ ارنہِ مال، عا شقِ اقبال خوا جہ صمد جو ککرو، مر ثیہ گو ابوالقا سم،قلم کارخا لق پر ویز، مرحوم خوا جہ عبد الصمد وانی مدیر’’کشیر‘‘ جیسے کہنہ مشق صحا فی کو پروان چڑھا یا ۔مجھے عا شقِ رسول ﷺ ، شاعرِ مشرق ،حکیم الا مت علامہ اقبالؒ کی قدم بو سی کا شرف بھی حا صل ہوا ہے جو تقسیم بر صغیر سے قبل اپنے دوست خوا صمد جو ککرو کے جواں سال فر زند مر حوم غلام حسن کے انتقال ِپر ملال کے مو قع پر اپنے دیر ینہ دوست کے ہاں تعزیت پر سی کی غر ض سے وارد ِبا رہمولہ ہوئے اور یہاں چند روزہ قیام کے دوران ایک شاہکار رُبا عی کی تخلیق کی ع ۔۔۔ اندھیرا صمد کا مکاں ہو گیا
میری گودی میں پل کر جواں ہوئے تعلیمی اداروں گو رنمنٹ ڈگری کالج با رہمولہ، زنا نہ کالج، سینٹ جوزف سکول، نورا لاسلام ہا ئی سکول اور گرو نا نک دیو ماڈل ہا ئی سکول نے تعلیم کے میدان میں اپنی حسنِ کا ر کر دگی سے میری آن، بان اور شان میں قا بل قدر اور قا بل تحسین کا رنامہ انجام دیا اور جہا لت و ناخواندگی کو علم و عرفان سے بدل دیا ؎
دا غ دل، داغ جگر ، داغ تمنا لے کر
میں نے ان ویرا نوں کو سجا رکھا ہے
لیکن ان سب او صاف و امتیازات کے با وصف وقت کے حکمرا نوں نے میری طرف پیٹھ پھیر کر کے بڑی بے دردی کے سا تھ مجھے نظر انداز کر دیا ہے۔قدرت نے زیر زمین معدنیات کے جو ز خا ئر مجھے عنایت کئے ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ محققین ان کو در یا فت کر نے میں کو ئی دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں۔سیا سی شعبدہ با زوں اور نام نہاد خد مت خلق تنظیموں نے میرا صرف استحصال کیا ہے۔میری آغوش میں آبی وسائل کے لامحدودانعام کو نیشنل ہا ئیڈرو پاور کا ر پو ریشن پن بجلی پرو جیکٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے طرز پر دو دو ہا تھ لوٹ رہا ہے اور کو ڑیوں کے دام بجلی کی پیدا وار کو ریاست کے غریب عوام کو مہنگے دا موںبیچ رہاہے اور ار بوں رو پیہ کما کر بھی ان کی ہوسِ زر کی بھوک نہیں مٹتی ہے۔ میرے جنگلات سے لکڑی اور جڑی بو ٹیوں کی عظیم دو لت کو بھی بلاروک ٹوک دن دھاڑے اغیارلو ٹتے جا ر ہے ہیں۔میرے زراعت اور با غبا نی کی صنعت کو جرا ئیم کش دوا ئیوں کی آڑ میں مسموم کیا جا رہا ہے۔میرے بیچوں بیچ بل کھا تے ہو ئے دریائے جہلم کے کنا روں، تا لا بوں،پار کوںاور سڑ کوں کا حجم گھٹا نے کے گناہ کا حکام وقت کی آ شر واد سے ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ یہ سب اتیاچار کر کے میری فضاؤں اور پُر سکون ما حولیاتی توازن کو مکدر کر نے کی مذموم کو ششیں جا رہی ہیں۔
اب آ یئے ، تا ریخ کے جھرو کے سے میری عظمت ِرفتہ پر طا ئرانہ نظر ڈا لیں۔یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جب بر صغیر بھارت اور پا کستان میں منقسم ہوا تو یہ خطہ ار ضی تجارت اور رسل و رسائل کے لحا ظ سے ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔ مجھے ایک اہم تجارتی منڈی ہو نے کا اعزاز تھا۔ چنا نچہ کشمیر اور غیر منقسم پنجاب کے در میان ساری تجارت میرے سینے سے گزر رہی بارہمولہ۔راولپنڈی شاہراہ سے انجام دی جا تی تھی، تجارتی اور معا شی سر گرمیوں میں مجھے گیٹ وے آف کشمیر کے محبوب نام سے پکارا جا تا تھا۔اسی منفعت بخش تجارت کی رُو سے اس خطۂ دل کش کی رو نق دو با لا ہو نے کے با عث یہا ں کے مقا می با شندوں کو ریا ست کے دیگر خطوں میں بسنے وا لے با سیوں پر سیا سی، سماجی اور معا شی لحاظ سے بر تری حاصل تھی۔قصبہ بارہمولہ کو ریا ست کے دیگر قصبہ جات کے مقابلے میںیہ اعزاز بھی حا صل تھا کہ اس قصبہ کو ۲۳۰۶قبل مسیح میںراجہ بھیم سین نامی راجہ نے آ باد کیا تھا۔اس وجہ سے قصبہ کو علم و ادب کا گہوارہ بننے کا شرف حا صل ہوا۔۱۹۴۷ ء سے قبل ڈو گرہ مہا راجہ ہری سنگھ کے خا ندان سے تعلق رکھنے والے رشتہ داراو پندر کرشن شر ما نے دیا سلا ئی اور santonian کے کا رخا نوں کا قیام یہاں کیا تھا اور محکمہ جنگلات کے زیرنگرانی لکڑی چیر نے کی بینڈسا مشین سے ہندو ستان کے ریلوے محکمے کیلئے شہتیر اور آر ڈی ننس فیکٹری کے کندھے بنانے کے لئے لکڑی یہاں سے فرا ہم کی جا تی تھی ۔ یہ کا رخا نے ریاست کی آ مدن کے معقول ذرا ئع تھے۔ ۱۹۴۷ ء میں تقسیم بر صغیر نے مجھے ہلا کر اور رُلا کر رکھ د یا اور پھر میری عظمت رفتہ کو گو یا گہن لگ گیا۔ ہندوستانی افواج کی آ مد کشمیر نے میرے اَن گنت مصا ئب و مشکلات میں اضا فہ کر کے میری عظمتوں کو قصبہ پا رینہ کر دیااور اب میرے جا ذب نظر اور پرکشش مقا مات پر فوج کی تحویل میں آنے سے خاص کر میں بے رونق ہوکر رہ گیا۔ بہرصورت اس صدی کے آ غازمیں خو نی لکیرکے آر پار تجار تی سر گر میوں کی بحالی اور بارہمولہ۔با نہال ریل سر وس کے چا لو ہو نے سے یہاں کے تا جروں کو فروغ تجارت کے تعلق سے اُمید کی ایک نئی کرن دیکھنے کو ملی تھی ، لیکن بسا آرزو کہ خاک شدہ‘کے مصداق اس سیاسی پیش رفت کے باوجود یہاں تجارت و معیشت میں کو ئی خا طر خواہ تبدیلی دیکھنے کو نہ ملی۔
میں حیران وپریشان ہوں کہ یہاں وقتا فوقتا حکمرا نوں کو یہ نہ جا نے میرے سا تھ خدا وا سطے نفرت اور بیر کیوں ہے؟یہ معمہ میری سمجھ سے با لا تر ہے۔ قارئین محترم ! یہ کوئی الزام تراشی نہیں بلکہ ناقابل تردیدحق ہے ۔ میرے پاس اس ضمن میںوا ضح دلائل اور ثبوت وشواہد ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، مثلا ًریا ست کے سا بق چیف منسٹر اور اپنے وقت کے چیر مین وقف بورڈ مفتی محمد سعیدنے جنو بی کشمیر میں اسلا مک یو نیورسٹی قا ئم کر کے اپنے ووٹ بنک کو محفو ظ ومضبوط کر کے علا قا ئی تعصب کا بھر پور مظا ہرہ کیا۔میںمسلم وقف بورڈ کے ارباب اقتدار سے بصد ا دب پوچھنا چاہتا ہوں کہ میرے دا من میں آرام فرما با با پیام الدین ریشیؒ اور زیارت حضرت جانباز ولی ؒ کی در گا ہوں میں نذرو نیاز کے نام پر جو زر کثیر جمع ہو تا ہے، کیا اس کے صرفہ کا کچھ اَتہ پتہ ہے ؟ کیا اس کثیر آ مدن کا بہتر استعمال کر کے شما لی کشمیر میں بھی ایک جدید اسلا مک یو نیو رسٹی قا ئم کر کے یہاں کے تعلیم یا فتہ جوا نوں کو اپنے علمی اور تعلیمی جو ہر دکھانے کا موقع نہیں دیا جاسکتا تھا؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیںکہ میرے خطۂ بے نظیر کے تعلیم یا فتہ نو جوانوں کے پاس ریا ست سے با ہر جدید تعلیمی اداروں میں اپنی مزید تعلیم جا ری رکھنے کی نہ استطا عت ہے اور نہ ہی کو ئی بہتر مو قع فرا ہم ہو تا اور نہ ہی انہیں کہیں سے ملا زمت کا در وازہ کھلا ہو نے کی کوئی سبیل نظر آ تی ہے۔ چنا نچہ پڑھ لکھ کر جب بے کاری انہیںاپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ، تو وہ خواہی نہ خواہی ایسی سما جی برا ئیوں کے دلدل میں پھنس جا تے ہیں جن میں مبتلا ہو کر ان کا مستقبل دا ئو پر لگ کر وہ خود اپنے لئے اور سماج کے لئے نا سور بن کر رہ جا تے ہیں۔یہی گھنا ئو ناکھیل سا بق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کا نفرنس کے صدر نشین عمر عبد اللہ نے گا ندر بل میں دلدلی زمین پرسنٹرل یو نیو رسٹی کشمیر کے لئے مختص کرکے انصاف کے تقا ضوں کا خون کر دیا۔ اب ذرادہلی میں بیٹھے سیاسی لا لوں، مہا شوں اور ملک ِکشمیر پر مسلط آقا ئوں کی ستم ظریفیاں بھی ملا حظہ فر ما ئیے۔مر کزی حکو مت نے دل پر پتھر رکھ کشمیر صو بہ کے لئے آل انڈیا انسٹی ٹوٹ آف میڈ یکل سائنسز (AIMS) اور جموں صو بہ کیلئے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ (IIM) منظور کر دیا لیکن جموں کے نما ئندوں نے مر کزی حکمران جما عت کی وسا طت سے جموں کے لئے آئی ایم آئی کے علا وہAIIMS اورآئی آئی ٹی منظور کر وا کے اپنی حکمرانی میں سا جھے دا ر پی، ڈی ، پی کو تگنی کا ناچ نچا کر اسے سیاسی طور بے دست و پا کر دیا۔ ان سیا سی شعبدہ با زوں نے قصبہ با رہمو لہ کو جموں و کشمیر اربن سیکٹر ڈو لپمنٹ پلان کے تحت ایک ما ڈل ٹا ون بنا نے کا زور و شور سے اعلان تو کر دیا لیکن برا ہوسیا سی رقیبوں کا ، انہوں نے ایک دو سرے کو نیچا دکھا نے کے لئے اس ترقیا تی پرو جیکٹ کو دفتری طو الت کے دلدل میں جھونک دیا، اور مقامی آبادی کی امیدوں پر پا نی پھیر دیا۔
اس تکلیف دہ صو رت حال کے پیش نظر اکیڈ مک اور سو شل کنسر نز فورم (ASCF) با رہمولہ جو مختلف مذ ہبی، سماجی اور تجا رتی تنظیموں کا ایک وا حد اور مو ثر پلیٹ فا رم ہے،اپنی ذمہ دا ریوں کو محسوس کر تے ہو ئے ریاستی حکو مت کی توجہ کشمیر یو نیورسٹی کے شمالی کیمپس کو مکمل یو نیورسٹی کا درجہ دینے، ضلع ہسپتال با رہمولہ کو سُپر سپیشلٹی ہا سپٹل بنا نے،پہلے سے منظور شدہ میڈ یکل کالج کی تعمیر میں سرعت لا نے ، پٹن، سنگرامہ،دلنہ اور خوا جہ باغ سے خانپورہ تک قو می شا ہراہ کو فر صت اولین میں کشاد گی دینے، کو ڑے کر کٹ کے فلک بوس ڈھیروں کو سا ئینسی طورطریقے سے ٹھکا نے لگا نے اور با رہمولہ کے دو نوں حصوں کو را بطہ پل سے ملانے کے لئے جنگی بنیا دوں پر تعمیر کر نے کے لئے ارباب حل و عقد کی تو جہ مبذول کرا نے کی مبنی بر انصاف تگ و دو کر رہی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خوابِ خر گوش میں پڑے ہو ئے حکمرا نوں کو اپنی ذ مہ دا ری کا احساس ہو تا ہے کہ نہیں اور وہ شمالی کشمیر کی تعمیرو ترقی کے لئے کارآمد اور موثر اقدامات کر تے ہیں کہ نہیں ۔ ا نہیں یاد رکھنا چاہیے کہ دریا ئے جہلم سے اب بہت پا نی بہ چکا ہے، اور میرے سپوت اور جیالے انصاف کی بنیاد پرا پنا حق لے کے رہیں گے ۔ تلخ نوا ئی اور سمع خراشی پر معذرت خواہ ہوں ؎
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں زہرہلال کو کبھی کہ نہ سکا قند
مترجم: غلام مصطفیٰ وانی کو ہستانی،سا بقہ پر نسپل ہا ئر سیکنڈری سکول
(Contact No:9596672125),