ریاست جموں و کشمیر میں حالیہ واقعات سے ہر طرف بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ گیسو تراشی کے واقعات کا سلسلہ گھٹنے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے اور اس کی لپیٹ میں ریاست کا طول و عرض آرہاہے ۔دن دھاڑے اور رات کے اندھیرے میں بھی مسلسل یہ گھناؤنی سازش عملائی جارہی ہے اوراس’’ ُپر اسر ارراز ‘‘ نے وبائی صورت اور خطرناک رُخ اختیار کیا ہے۔ سردست مبینہ طور پر دانتر اسلام آباد میں ایک انسانی جان بھی ضائع ہوگئی ہے جو اس بات کی طرف صریح اشارہ کررہا ہے کہ صورت حال کتنی گھمبیر ہے اور کس قدر سنگینی اختیار کرتی جارہی ہے۔ریاست میں عمومی طور پر اور وادی میں خصوصی طور پر اب تک قریب دوسو کے نزدیک ایسے واقعات رونما ہوگئے ہیں جن میں خواتین کی چوٹیاںکاٹی گئی ہیں یا اس طرح کی نامراد کوششیں کی گئی ہیں۔ان پر یشان کن واقعات کے پیش نظر پورے کشمیر میں خوف و ہراس کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے۔ خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں اور وہ ذہنی طور پربھی کمزور ہوگئی ہیں۔ان اعصاب شکن حالات میں غیر یقینیت کی فضا پیدا ہوگئی ہے ۔ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔ ریاستی انتظامیہ اورمتعلق ادارے جیسے بے دست و پا ہیں، جس پر لوگ طرح طرح کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔وادی کے اطراف و اکناف میں کئی جگہوں پر ان اندوہناک واقعات کے رونما ہونے پرلوگ ایسی صورت حال سے دوچار ہوئے ہیں کہ یہ 90ء کی دہائی میں پیش آنے والے بھوت بحران کی صدائے باز گشت لگ رہی ہے۔ عسکری دور کی شروعات کے بعد وادی میں بھوت بحران سے کافی خوف و ہراس پیدا ہوگیا تھا اور عام لوگ شام ہوتے ہی اپنے گھروں میں دبک جاتے تھے۔ تازہ بحران کے دوران مالون کولگام اور عیشمقام پہلگام میں پیش آئے ایسے واقعات کے بعد عوام نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ یہ ہامرے کرم فرماؤں کی در پردہ کسی بڑی سازش کا حصہ ہی ہوسکتا ہے۔ عام لوگ ان معاملات کو ریاست گیر سطح پر خوف و ہراس پھیلانے کی کوششوں کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔تاریخی اعتبار سے اس عوامی رائے میں وزن ہے کہ انگریز استعمار سے لے کرنواستعماریت تک کے ’’قائلین استبداد ‘‘کے یہاں یہ ایک طاقتور ترین ہتھکنڈا رہا ہے کہ مغلوب قوم کوزیر کرنے کے لئے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جائے اور ایک ایسی نسل کی تعمیر کی جائے جس میں جرأتِ کردار مفقود ہوجائے۔ ریاستی استبداد کی جبریت کو للکارنے کی رندانہ کوششوںکی سرکوبی اس بیانیے کے لئے میدان مارنے کی حیثیت رکھتا ہے۔اعصابی طور پر زیرپا قوم و نسل کوکمزور کرنا اور اس کے جذبہ مزاحمت کو سرد کرنے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے بہت مؤثر ہوتے ہیں۔اسی طرح ایک پوری قوم کی عصمت و عفت پر سوالیہ نشان کھڑا کردینااور اس کی مردانگی کا مذاق اڑانا بھی دراصل اسی زمرے میں آتا ہے۔
فی الاصل اگر یہ گیسو تراشی کسی در پردہ سازش کا حصہ نہ بھی ہو اور عوامی اندازے بالفعل اگر کسی صحیح نہج پر نہ بھی جارہے ہوں، اس کے باوجود ایک عام انسان اس نتیجے پر پہنچنے میں حق بجانب ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ معاملات کو صحیح رخ دینے کی بجائے یکسر ہر امکانی نہج کو نکار دینا سرے سے غیر حکیمانہ اور غیر سنجیدہ رویے پر دلالت کرتا ہے۔ ایک مہینے کے پورے دورانیہ میں ارباب تحقیق و تفتیش اور محافظین ناموس کشمیریت کی فوج ظفر موج ہنوز ہواؤں میں تیر تکا مار ر ہے ہیں۔ ابھی اندازوں سے آگے جاکر کوئی ٹھوس بات منظر عام پر نہیں آرہی ہے۔ عوام کو لاحق پریشانی کو ’’ہسٹیریا ‘‘اور دیوانگی کا نام دے کر حکومت اس ٹھوس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتی ہے کہ یہ معاملہ کسی سنجیدہ رد عمل کا متقاضی نہیں ٹھہرتا اور اس بحران کو جوں کا توں رکھ کر پہلے سے ہی نازک چلی آرہی صورت حال کو اور زیادہ بگاڑاجائے ۔ اگر ریاست کے بیانیہ کو ہی بالفرض سچ کی تصویر ماناجائے اور ان سارے دل خراش واقعات کو دیوانے کی بڑ سمجھا جائے، تب حقیقت کو ثبوت و شواہد کے ساتھ منظر عام پر لانے میں مجرمانہ لیت و لعل سے کام کیوں لیا جارہا ہے؟اور پولیس بیان کے مطابق اب تک سو سے تجاوز کر گئے ان دلددز واقعات کی تحقیقات کے سلسلے میں آگے کیوںنہیں بڑھا جاتاہے؟ریاست کی تحقیقاتی ایجنسیوں کا معمول ہے کہ کسی بھی غیر معمولی واقعہ کے رونما ہونے کے فوراََ بعد معاملے کی جڑ کو پکڑا جاتا ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ ملی ٹینسی سے متعلق تفتیش میں ماخوذ لوگ حد درجہ منصوبہ بندی کے باوجود پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی گرفت سے زیادہ دیر محفوظ نہیں رہ پاتے ہیں اور نادیدہ ہاتھوں کے خلاف کاروائیاں اور تفتیش بروقت انجام دی جاتی ہیں اور فوری اقدامات اٹھائے جاتے ہیں کہ معاملہ قضیہ زمین بر سر زمین کے مصداق ہوجاتا ہے۔ سرینگر ائیرپورٹ سے ملحق بی ایس ایف کیمپ پر حالیہ فدائین حملے کے فوراََ بعد ریاستی پولیس کے بقول ملوث افراد کی کامیاب سراغرسانی کی گئی مگر ایک ماہ گزرنے کے باوجود گیسو تراشی کے دکھ دہندہ معاملات میں انہیں انعامات کے اعلان کے سوا زمینی سطح پر کوئی قابل قدر کامیابی حاصل نہیں ہو پارہی ہے؟ اس سے عوامی سطح پر پریشانیاں اور شکو ک بڑھ رہے ہیں، خاص کرخواتین عدم تحفظ کا شکار ہیںاور وہ نفسیاتی طور پردباؤ کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔پہلے سے ذہنی تناؤ میں زندگی گزارنے والی ایک بڑی آبادی مزید تنگ طلب کی جارہی ہے۔اس پر ستم یہ کہ حکمران اور ان کے چیلے چانٹے تقدیس ِنسوانیت کی بے حرمتیاں ہونے کے باوجود ڈل کنارے ساز و سرود کی مجالس کا اہتمام کرکے گویا یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ عوامی مشکلات سے بے پرواہ اور لاتعلق ہیں اور ان کا سب سے بڑا کام اقتدار کے مزے لوٹنا ہے۔ بے شک رقص و سرود میں مصروف مقتدر لوگ اپنے ارد گرد خود ہی کھینچے ہوئے حصار میں محصور ہیں ، لہٰذا عوامی مصائب اور مشکلات سے اُن کی ناواقفیت پرتعجب کر نا عبث ہے۔
اس مسئلے کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ ہم سب اہل کشمیر بحیثیت مجموعی ایک ذمہ دارانہ کا کردار ادا کریں۔ ہمیںفوری طور پر ایسی مدافعانہ تدابیر کا اہتمام کرنا ہوگا جن سے صنف نازک کو چاہے وہ کسی بھی قوم ومذہب سے تعلق رکھتاہو ، کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم ہو۔ انفرادی طور پر اگر اس طرح کے حالات پیش آئیں تو زیادہ جرأت مندی اور غیرت ایمانی کے ساتھ ان کاسامنا کرنے کی کمر ہمت باندھی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نئی منفی روش کو ترک کرنے کی فوری اور بلاتامل ضرورت ہے، وہ یہ کہ محض شک اور شبے کی بنیاد پر بے گناہ لوگوں کو تنگ کرنا ، انہیں ماربنا پیٹنا، ڈرانا دھمکانا،ہمارے دین ،ملی و قومی مزاج کے بالکل برعکس ہے۔ اس ناانصافی سے فائدے کے بجائے زیادہ نقصانات کا احتمال ہے ۔اسی طرح شبے کی بنیاد پر لوگوں سے غلط طریقے سے پیش آنا بھی اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارا مشترکہ دشمن پردہ ٔ اخفاء میں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بے قصوروں پر وار کیا جائے ۔ عوامی سطح پر اس طرح کے واقعات رونما ہونے پر بہت ہی زیادہ ہشیاری کی ضرورت ہے۔راہ گیروں،غیر شناسا اور اجنبیوں کو محض شبہ کی بنیاد پر گھیر لینا نہ صرف غیر اسلامی طرزعمل ہے بلکہ اس سے مزید نامناسب واقعات وقوع پذیر ہونے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ اصل دشمن چھپا رہے گا۔متذکرہ بالا انسانی موت کا زیاں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کوئی بھی غیر دانشمندانہ اقدام کرنے سے صریح غلطیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس بحران سے نکلنے کے لئے مجموعی طور پر کوئی کارگرحکمت عملی ترتیب دی جائے۔ ہاں ،اس جیسی انتہائی پریشان کن اور غیرمعمولی صورتحال سے مقابلہ کرنے کا یہ ہمارا پہلا تجربہ نہیں ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے عوام نے عموماََ اور وادی کے لوگوں نے خصوصاََ اس سے بد تر حالات کا مقابلہ بھی مردانہ وار کیا ہے۔2014ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد عوامی سطح پر کسی بھی حکومتی امداد اور سرپرستی کے بغیر اس قوم نے تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ قدرتی آفت کا مقابلہ اور راحت کاری کا کام بہت ہی شاندار طریقے پرانجام پایا۔ا سی طرح سال گزشتہ کی انتہائی نا گفتہ بہہ صورتحال میںجس طرح کشمیری قوم نے اجتماعی طور پرحالات کامردانہ وار مقابلہ کیاوہ ایک قابل فخر کارنامہ ہے۔موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں بھی ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ پیش آمدہ صورتحال کا مقابلہ انتہائی فہم وتدبر اور ٹھنڈے دل ودماغ سے کیا جائے۔ اپنی انفرادی اور قومی عصمت و عفت کی حفاظت ہمارا فرض ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس کالی کارستانی کے پیچھے چھپے ہوئے ہاتھوں کوننگا کرنے کی ہر ممکن عاقلانہ کوشش ہونی چاہئے۔