واشنگٹن // امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آٹھ ممالک کے شہریوں کی ملک میں آمد پر پابندی لگانے کی تازہ ترین کوشش کو ایک بار پھر عدالتی شکست ہوگئی ہے۔ایک وفاقی عدالت نے پابندی کے اس ہفتے لاگو ہونے سے قبل ہی اسے معطل کر دیا ہے۔اس پالیسی میں ایران، شام، لیبیا، یمن، صومالیہ، چاڈ، اور شمالی کوریا کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس میں وینزویلا کے چند اہلکاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اس قبل ٹرمپ انتظامیہ نے جو پابندی لگانے کی کوشش کی تھی اس میں چھ مسلم اکثریتی ممالک کو شامل کیا گیا تھا تاہم اس سے ملک کی عدالتِ عظمیٰ نے روک دیا تھا۔ریاست ہوائی نے صدر ٹرمپ کی پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس پابندی نے بدھ کے روز لاگو ہونا تھا۔ریاست نے عدالت میں یہ موقف سامنے رکھا کہ وفاقی امیگریشن قوانین کے تحت صدر کے پاس اس نوعیت کی پابندی عائد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔پابندی کے خلاف یہ حکم نامہ جج ڈیرک واٹسن نے دیا ہے۔ یہ وہی جج ہیں جنھوں نے صدر ٹرمپ کی گذشتہ پابندی کو معطل کیا تھا۔انھوں نے اپنیحکم نامے میں لکھا ہے کہ موجود پابندی میں بھی وہی خامیاں ہیں جو کہ پچھلی پابندی میں تھیں۔انھوں نے کہا کہ اس پابندی میں ہی واضح نہیں کیا گیا کہ چھ ممالک سے 15 کروڑ لوگوں کی آمد کی اجازی امریکی مفادات کے منافی کیسے ہوگی۔جج واٹسن کا مزید کہنا تھا کہ نئی پابندی میں عدالت کے گذشتہ احکامات کو بھی نظا انداز کیا گیا ہے۔وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ تازہ ترین مجوزہ پابندی (جس کا ستمبر میں اعلان کیا گیا تھا) موجودہ سیکیورٹی حالات کے جائزے کے بعد تیار کی گئی ہے۔تاہم ریاست ہوائی کا کہنا تھا کہ یہ پالیسی صرف صدر ٹرمپ کے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدے جس کے تحت امریکہ میں مسلمانوں کی آمد پر پابندعی لگانا ہے، کو پورا کرتی ہے۔امریکین سول لبرٹیز یونین اور دیگر تنظیمیں ان پابندیوں کو ریاست میری لینڈ میں بھی عدالت میں چیلنج کر رہی ہیں۔ادھر ریاست واشنگٹن، ماساچیوسٹس، کیلیفورنیا، اوریگون، اور نیو یارک بھی اس پابندی کے خلاف عدالتی کارروائی پر غور کر رہی ہیں۔وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ عدالت کا حالیہ حکم امریکہ کو غیر محفوظ بنا رہا ہے۔