امیرالمومنین عمررضی اللہ عنہ قاصد کو یہ کہہ کر بھی روانہ کرسکتے تھے کہ تم لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرو،نوافل پڑھو اور اللہ تعالی سے دعا کر وکہ اللہ تعالی دریائے نیل کو دوبارہ جاری فرمادے میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میرے پاس کیوں آئے ہوبس دعا کرو عبادت کرو اللہ تعالی تمہارے حال پر رحم فرماکر دریائے نیل دوبارہ جاری فردیگالیکن قاصد سے یہ نہ کہا بلکہ نہایت ہی سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک ایسا تاریخی خط لکھاجیسے کوئی انسان دوسرے انسان کو خط لکھ کر اس سے مخاطب ہوتا ہے ایسا تاریخی خط دریائے نیل کے نام لکھا جو تاریخ ِ عالم میں بے مثل و بے مثال ہے :اے دریائے نیل ’’اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اللہ تعالی کے حکم سے جاری ہوتا تھا(تو میں امیرالمومنین ہو کر تجھ کو حکم دیتا ہوں)کہ تو پھر اللہ تعالی کے نام پر جاری ہوجا۔‘‘(بحوالہ ،کتاب:ازالۃالخفاء جلد دوئم صفحہ نمبر 166)امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس خط کو لفا فے میں بند کرکے قاصد کو دیا اور فرمایااس کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے چنانچہ جوں ہی آپ رضی اللہ عنہ کا خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا فورا جاری ہوگیا اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک خشک نہیں ہوا۔’’چاہیں تو اشاروں سے اپنی کا یا ہی پلٹ دیں دنیا کی‘‘ایک روز سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ مصطفویؐ میں عرض کیا: ’’ یارسول اللہ!اگرہم مقام ابراہیم جس پتھر پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیں۔ (بخاری)ابھی یہ بات عرض کی ہی تھی کہ اللہ رب العزت کی طرف سے حکم آ گیا: ’’مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو‘‘۔چونکہ اس پتھر نے سیدنا ابراہیمؑ کے مبارک قدموں کے بوسے لئے تھے جس وجہ سے اس کا مقا م عام پتھر سے بلند و بالا تھا ایسا نہ ہو کہ کل لوگ اسے کعبہ کے سامنے کوئی نئی درگاہ بنالیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے معاملے کو حتمی شکل دلوائی اور شرک کے تمام پہلوختم کردئے اور اس کا ادب و احترام لازم و ضروری تھادوسری طرف سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مسجد حرام میں حجر اسود کے قریب آئے، بوسہ لے کر فرمانے لگے۔’’بے شک میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے۔ تو نہ نقصان دیتا ہے اور نہ نفع اور اگر میںنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہو تا تو میںتجھے کبھی نہ چومتا۔(بخاری) ۔ سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو سنت محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا پیار تھا کہ دن رات بارگاہِ خداوندی میں شہر محبوب میں موت کی دعائیں مانگا کرتے۔ عرض کرتے: ’’اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں مقام شہادت عطا فرما! اور اپنے رسول کے شہر(مدینہ)میں مجھے موت عطا فرما۔( بخاری)
مخبر صادق ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری زندگی میں ہی سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر دے دی تھی، اسی لئے آپ مقام شہادت کی دعائیں بھی مانگتے رہے۔ بالآخر آپ کو خدا نے اس بلند مقام پر سرفراز فرمایا۔ ’’ابولولومجوسی ‘‘نے خنجر کے ساتھ آپ کو زخمی کیا، زخم بہت گہرا تھا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا۔ وفات سے قبل دیگر و صایا کے علاوہ آپ نے اپنے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ جا!اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں عرض کرو :عمر اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتے ہیں۔ (تاریخ الخلفاء) عبداللہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں یہ عرض پیش کی تو آپ نے فرمایا کہ وہ جگہ میں نے اپنے لئے سنبھال رکھی تھی لیکن میں عمر کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ جا!عمر سے جا کر کہہ دینا کہ آپ کو وہاں دفن ہونے کی اجازت ہے۔ سیدناعبداللہ نے جب یہ خوشخبری آپ رضی اللہ عنہ کو سنائی تو آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ آخر وقت آپ کو یہی حسرت تھی کہ کاش! مجھے محبوب کے دامن میں جگہ نصیب ہو جائے۔ جب آپ کی دلی آرزو پوری ہوئی تو آپ نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا کہ گوہر مراد حاصل ہوا۔مدینہ منورہ کے پہاڑوں میں احد پہاڑ ایک امتیازی شان کا حامل ہے۔ اس پہاڑ کے متعلق سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: احد پہاڑ ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔:(بخاری)اس محب اور محبوب پہاڑ کی ایک دن قسمت جاگی۔ لامکاں کے مہماں، تاجدار مرسلاں صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر ،سیدنا فاروق اعظم اور سیدنا عثمان غنی رضوان اللہ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لیا اور اس پہاڑ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا۔ احد پہاڑ نے جب اپنی پشت پر ان مبارک ہستیوں کو جلوہ فرما دیکھا تو خوشی سے جھومنے لگا۔ اپنے مقدر پہ ناز کرنے لگا کہ جس محبوب کو عرش پر بلایا گیا تھا آج میری قسمت کا ستارہ بلند کرنے خود ہی تشریف لے آئے ہیں۔ پہاڑ جھوم رہا تھا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پاں مبارک سے ٹھوکر لگائی اور فرمایا:’’: احد ٹھہرجا! کیونکہ تجھ پر نبی ، صدیق اور دو شہید ہیں۔(بخاری)تجھے یہ سعادت نصیب ہوئی ہے اور تو اس شرف سے مشرف ہوا ہے کہ تجھ پر اللہ کا نبی ، ابوبکر صدیق اور عمر و عثمان شہید تشریف فرما ہیں۔
شہادت : ۔
دشمنان اسلام نے اپنے جذبہ انتقام کو سرد کرنے کیلئے آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش تیار کی ۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ایرانی پارسی غلام ابو لولو فیروز مجوسی نے نماز فجر کی پہلی ہی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے فورا بعد زہر سے بجھے ہوئے خنجر سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کیا ، وصیت کے بہ موجب سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کرائی ۔تین روز رخمی حالت میں رہ کر یکم محرم الحرام آپ رضی اللہ عنہ جام شہادت نوش کرگئے ۔سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہوئے ۔ ہم مضمون کا اختتام امیرالمومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ان کلمات سے کرتے ہیں ۔ فرمایا : عمررضی اللہ عنہ کی زبان سے اطمینانِ قلب کے موتی ٹپکتے ہیں ۔ سکونِ دل کے دریا بہتے ہیں اور راحت ِجاں کے پھول جھڑتے ہیں (مشکو شریف ، دلائل النبوہ للبیہقی )
ان سے ان کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زورتحریر کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ خلافت کے بعد جو خطبہ دیا اس کے چند فقرے یہ ہیں: اے اللہ، میں سخت ہوں تو مجھے نرم کردے، میں کمزور ہوں، مجھے قوت دے، ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دے دی گئی ہے لیکن میں انہیں راستے پر چلا کر چھوڑوں گا۔ اس وقت بھی من حیث المجموع مسلمانوں کو اپنے داخلی وخارجی مسائل کے حل اور اتحاد کیلئے ایسے ہی سچے خادم کی پیروی کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ایساہی پُرخلوص اور بے لوث راہ نما عطا فرمائے۔(آمین) (ختم شد)
ؕ