سرینگر //کشمیر کے بارے میں سیاسی پہل کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ایس پی وید نے کہا ہے کہ کشمیری نوجوان بیروزگاری کی وجہ سے ’’ناپسندیدہ اور خطرناک‘‘ عناصر کے زیر اثر آکر بنیاد پرستی اور عسکریت کی جانب مائل ہوتے ہیں۔انہوںنے ’’سائبر جہاد‘‘ کو ایک حقیقت اورسوشل میڈیاکو پولیس کیلئے سب سے بڑے چیلنج سے تعبیر کیا اورکہا کہ وہ گزشتہ برس جیسی صورتحال پیدا ہونے سے روکنے کیلئے کافی فکر مند ہیں۔ڈی جی پولیس کے مطابق وادی میں فی الوقت قریب200جنگجو سرگرم ہیں جبکہ رواں برس کے دوران اب تک 160جنگجوئوں کو ہلاک کیا گیا ہے جن میں مختلف تنظیموں کے سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر ایس پی وید نے اس بات سے انکار کیا کہ سابق حزب کمانڈر ذاکرموسیٰ پولیس یا کسی اورسیکورٹی ایجنسی کیلئے کام کرتا ہے ۔انہوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ صرف این آئی اے کی کارروائیوں کے نتیجے میں وادی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر پولیس کی طرف سے حالات میں بہتری لانے سے ہی این آئی اے کی وادی میں چھاپہ مار کارروائیاں ممکن ہو پائیں۔ ایک خبر رساں ایجنسی کو انٹر ویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر چہ رواں برس کے دوران پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں جنگجوئوں پر دبائو بڑھانے میں کامیاب ہوگئی ہیں ، تاہم کشمیر کو بقول ان کے ایک سیاسی پہل کی ضرورت ہے اور مرکزی سرکار کو بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئے تاکہ انہیں خطرناک عناصر کے اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ڈی جی پولیس نے کہا’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہاں ایک سیاسی پہل کی ضرورت ہے ، کیا ایسی کوئی پہل ہونے والی ہے! مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، لیکن میرے خیال میں کچھ پیشرفت ہورہی ہے ، سیاسی پہل تو وقت کی اہم ضرورت ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر کی سیاسی روایت میں ایک مسئلہ ہے،مین اسٹریم پارٹیاں بھارت کی بات نہیں کرتیں، ایک سیاسی لیڈر نے یہاں تک بھی کہا کہ سنگباز فریڈم فائٹرس ہیں، وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ مین سٹریم سیاسی لیڈران بھارت کے حق میں بولیں، اس سے زمینی سطح پر سیاسی روایات تبدیل ہوسکتی ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیوں ہچکچاتے ہیں‘‘؟ ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ انہیں اس بات کی فکر لاحق ہے کہ گزشتہ برس کی طرز پر وادی میں کسی بھی قسم کی ممکنہ بے چینی پھر سے جنم نہ لے ۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا’’مجھے اس بات کی فکر ہے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں، ہم لگاتار اس کوشش میں ہیں کہ ایسے حالات پیدانہ ہوں جن کی منصوبہ بندی سرحد پار سے کی جاتی ہے،لیکن ساتھ ہی ہمیں اس بات کا خیال بھی رکھنا ہے کہ دفعہ35Aجیسے متنازعہ معاملات کی وجہ سے ایسے حالات پیدا نہ ہوں، ہم اس طرح کے معاملات کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔ڈاکٹر وید نے سوشل میڈیا کو پولیس کیلئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ ’’ہم سائبر سپیس میں بڑے پیمانے پر حملے کی زد میں ہیں اور اسے روکا نہیں جاسکتا، ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک مخالف نظام مرتب کرنا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا’’ان لوگوں کو سائبر مجاہدین کہا جاتا ہے ، یہ پڑوسی ملک کا ایک ایسا حملہ ہے جس کا ہم سامنا کررہے ہیں، اس بارے میں ہمیں کچھ کرنا ہوگا‘‘۔پولیس سربراہ نے بتایا کہ وادی کشمیر میں بنیاد پرستی نے اپنی جڑیں پکڑ لی ہیں۔ان کا کہنا تھا’’جب میں1990میں کشمیر آیا تو صورتحال بالکل اس طرح کی نہیں تھی،بنیاد پرستی نے جگہ لی ہے لیکن یہ ایسی نہیں جیسا کہ داعش اور القاعدہ چلارہی ہے‘‘۔وادی میں ملی ٹینسی پر قابو پانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مرکز کو ایسے اقدامات کرنے چاہئے جو کشمیری نوجوانوں پر مرکوز ہوں۔اس ضمن میں ڈاکٹر وید نے بتایا’’نوجوان بیروزگار ہیں، وہ نماز پڑھتے ہیں اور کافی سارا وقت موبائیل کے ساتھ سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں جہاں وہ نا پسندیدہ اور خطرناک عناصر سے اثر انداز ہوتے ہیں، نوجوانوں کو مصروف رکھنے کیلئے خصوصی اسکیموں اور پروگراموں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا روز گار کما سکیں‘‘۔ڈی جی پولیس نے کہاکہ دسویں اور بارہویں جماعت پاس نوجوانوں کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بقول بیکار نوجوان ایک طاقتور بم کی طرح ہیں۔ملی ٹینسی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جنوبی کشمیر ترجیحات میں شامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ امسال اب تک160جنگجوئوں کو ہلاک کردیا گیا ہے جن میں مختلف تنظیموں کے سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں اور اس کے نتیجے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں صورتحال میں واضح بہتری واقع ہوئی ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ شوپیان اور ترال اب بھی فکر مندی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ڈی جی کا کہنا تھا کہ اگر چہ سرگرم جنگجوئوں کی تعداد کے حوالے سے مکمل اعدادوشمار دستیاب نہیں، تاہم شمالی کشمیر میں70سے80، جنوبی کشمیر میں قریب90اور وسطی کشمیر میں10سے15جنگجو سرگرم ہیں اور ان کی مجموعی تعداد200سے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ حزب اور لشکر کے بیشتر کمانڈر مارے جاچکے ہیں۔البتہ ان کا کہنا تھا کہ جیش محمد سے وابستہ تین چار تازہ گروپ وادی میں داخل ہوئے ہیں جو پلوامہ، اننت ناگ، ترال اور شمالی کشمیر میں سرگرم ہیں۔حزب المجاہدین سے علیحدگی اختیار کرنے والے جنگجو کمانڈر ذاکر موسیٰ کے بارے میں ڈاکٹر وید نے اس تاثر کو غلط قرار دیاکہ وہ کسی سیکورٹی ایجنسی کیلئے کام کرتا ہے۔انہوں نے کہا’’موسیٰ ہمارے قریب یا ہمارے لئے کام نہیں کرتا، جہاں تک میری جانکاری کا تعلق ہے ، وہ ہماری کسی ایجنسی کے قریب بھی نہیں ہے ، اگر وہ ہمارے سامنے آئے تو ہم اسے نہیں بخشیں گے ، ہمارے لئے ہر وہ شخص دہشت گرد ہے جس کے ہاتھ میں بندوق ہے اور جو ہم پر گولی چلاتا ہے‘‘۔تاہم انہوں نے کہا’’ہم نے این آئی اے کو بتادیا ہے کہ وہ اپنے منڈیٹ کے مطابق کام کریں ، آپ ٹیرر فنڈنگ کی تحقیقات کررہے ہیں، اس پر توجہ مرکوز رکھیں اور مہربانی کرکے پھیلنے کی کوشش نہ کریں، جموں کشمیر پولیس صورتحال کے ساتھ بہتراور موثر انداز میں نمٹ رہی ہے ‘‘۔ڈی جی پولیس نے ہجوم پر قابو پانے کیلئے پیلٹ گن کے استعمال کا دفاع کیا، البتہ ان کا کہنا تھاکہ اب اس کا استعمال بہت حد تک کم کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیلٹ کا استعمال اب صرف وہاں ہوتا ہے جہاں ہمیں حالات قابو کرتے وقت لوگوں کی ہلاکتوں کا خدشہ رہتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مارنے سے بہتر یہ ہے کہ پیلٹ کا استعمال کیا جائے۔ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر وید نے کہا کہ برفباری ہونے تک سرحد پار سے جنگجوئوں کی دراندازی کا خطرہ برقرار ہے اور اگر فوج اس پر قابو پائے اور ہم دبائو بنائے رکھیں تو مجموعی صورتحال میں نمایاں بہتری واقع ہوگی۔