اردو میں مکتوب نگاری پر کسی بھی زاوئے سے بحث کیوں نہ کی جائے غالب کا ذکر آہی جاتا ہے ۔لیکن یہ بات غلط بھی نہیں اور اسے مقطعے میں سخن گسترانہ بات کہہ کر ٹال بھی نہیں سکتے کیونکہ اول تو غالب نے مکتو بؓ نگاری کو نئے امکانات سے رو شناس کروایا ، دوئم اپنے خطوط کے حوالے سے اردو نثرکے وقار کو بھی بلند کیا ۔ غالب ایک غیر معمولی ذہن کے مالک شخص تھے ، ادب کے علاوہ زندگی میں بھی روش عام سے کترا کر چلنا اور اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف اور ممتاز ماننا اور منوانے کی توقع پالنا ان کی فطرت تھی ۔ اگر اس کی نفسیاتی توجیہہ کی جا ئے تو معلوم ہوگا کہاز ابتدا تا انتہا ،زندگی بھر کی نا مرادیوں اور نارسائیوں نے غالب کی طبیعت میں ضد، تشکیک اور نرگسیت کے عناصر تو پیدا کر ہی دی تھیں،ساتھ ہی احساس کمتری میں بھی مبتلا کر دیاتھا جس کا اظہار غالب اپنی نجی زندگی میں ہی نہیں شاعری اور نثر میں بھی بہ انداز ’برتری‘ کیا کرتے تھے ۔ یاروں نے بددماغی کے لئے میر ؔ کو تو عبث بدنام کیا ،واقعتاًً بد دماغ تو مرزا تھے،نہ ہوتے تو نہ تو ’ بندگی میں بھی آزاد و خود بیں‘ ہونے کا دعوی کرتے اور نہ ’’در کعبہ ‘‘وا ہونے کی شر ط نہ لگاتے۔یہ دوسری بات ہے کہ ان کی شاعرانہ عظمت کا لحاظ کرتے ہوئے دوسروں نے تو ان پرمرتد یا ملحد ہونے کا الزام نہیں دھرا، حالانکہ موقع محل کی مناسبت سے کچھ مذاقاًًاور کچھ مصلحتاًً ’’آدھا مسلمان‘‘ ہونے کی بات تو غالب نے خودہی کہی تھی۔لیکن غالب محض اسد اللہ خاں غالب نہ تھے، ’چچا ‘ بھی تھے اور چچا کے قول و فعل میں جتنے تضادات ہیں وہ ان کے شاعری اور نثر (مکتوبات)کے امتیازات سے کچھ ہی کم ہونگے اس لئے غالب کا کہا کوئی سمجھے نہ سمجھے،ان پر سات خون معاف تھا ۔دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ غالب کی شاعری میںمعنی و مفہوم اور انداز بیاں کا وزن اتنا بھاری ہوتا تھاکہ غالب کے عہد میںبھی استاد ذوقؔ کیا،کسی اور سے بھی ان کا مصرعہ اُ ٹھائے نہ اُٹھتا تھا ۔حالی نے بھی ’’یادگار غالب ‘‘میں اکثر اشعار کے معنوی مقام و مرتبہ تک اپنی نارسائی کا برملا اعتراف کیا ہے ۔ ؑعبد الرحمن بجنوری (محاسن کلامِ غالب) نے تو ’کفر‘کے فتوے کا خوف دل میں لائے بغیر ’’دیوان غالب‘‘ کو الہامی کتاب قرار دے دیا لیکن ان کی نیئت صاف تھی یا پھر ہوسکتا ہے غالب کی مشکل پسندی نے اُن سے یہ فقرہ لکھوایا ہو ۔بجنوری کے علاوہ ِممکن ہے چند بزرگوں مثلاًً نندلال کول طالب،امتیاز علی عرشی ، مالک رام شکیل الرحمن وغیرہ نے غالب کو اتنا سمجھا ہو کہ انہیں غالب شناس کہا جاسکے لیکن آج کی تاریخ میں ، شمس الرحمن فاروقی ، گوپی چند نارنگ،حامدی کاشمیری، مشکور حسین یاد ،ابوالکلام قاسمی اور عتیق اللہ جیسے چند ایک ناقدین کے علاوہ اور کون سے نام ہیں جنہیں واقعی غالب فہم تسلیم کیا جا سکے اور جو یہ بتا سکتے ہیں کہ بجنوری کا فرمایا ہوا مستند ہے یا نہیں لیکن جہاں تک ’’مکاتیب غالب‘‘ کا سوال ہے اسے سمجھنے کے لئے غالب کی اردو نثر نگاری پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اپنے زمانے کے علمی، ادبی اور لسانی ماحول کی بناپر غالب اردو میں نثر لکھنا تو کیا شعر کہنا بھی باعث توقیر نہیں سمجھتے تھے ۔غالب کا خیال تھا کہ وہ اردو نثر میں اپنے قلم کا زور دکھانے سے قاصر ہیں ۔منشی شیو نرائن کے نام ایک خط میں غالب نے لکھا ہے ،
’’۔۔۔۔بھائی غور کرو ؛
اردو میں اپنے قلم کا زور کیا صَرف کروں گا ؟اور اس عبارت میں معانی ٔنازک کیونکر بھروں گا ؟
’’جناب ریڈ صاحب ،صاحبی کرتے ہیں ۔میں اردو میں اپنا کمال کیا ظاہر کر سکتا ہوں ؟
اس میں گنجائشِ عبارت آرائی کہاں ہے ؟
ایک اور خط میں لکھتے ہیں کہ ،
’’۔۔۔۔میاں اردو کیا لکھوں ؟میرا یہ منصب ہے کہ مجھ پر اردو کی فرمائش ہو ؟‘‘
در اصل غالب جانتے تھے کہ مکتوب نگاری کوئی نئی چیز نہیں ،عربی اور فارسی میں انشاپردازی اور نثر نگاری کے حوالے سے مکتوب نگاری کے میدان میں بھی تخلیقی اور اختراعی صلاحیتوں کے بہترین مظاہرے ملتے ہیں۔غالب نے ایک جگہ دعوی کیا تھا کہ ’’جب تک قدما یا متاخرین مثل کلیم ؔ،صائبؔ ،اسیرؔو حزیں ؔکے ،کلا م میں کوئی لفظ یا ترکیب نہیں دیکھ لیتا اس کو نظم یا نثر میں نہیں لکھتا ‘‘ ۔لیکن اسد اللہ خاں غالب کی شاعری میں اور کسی حد تک ان کے خطوط میں بھی الفاظ و تراکیب کی جو ایجادی اور اختراعی صورتیں ملتی ہیں ان سے غالب کے مذکورہ دعوے کی تردید ہوتی ہے ۔ مکاتیب غالب اصلاًً اردو نثر کی جدید کاری کے عمل کے عروج کا استعارہ ہے ۔میر امن اور فورٹ و لیم کالج کے دیگر مصنفین کے علاوہ صادق پور عظیم آباد کی وہابی تحریک اور پھر سر سید تحریک سے وابستہ علما کی تحریروں سے اردو نثر میں جدت اور تازہ کاری کے جو صورتیں پروان چڑھ رہی تھیں وہ سب کی سب غالب کے خطوط میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے غالب کے خطوط کے بارے میں لکھا ہے ،
’’ غالب نے اگرچہ لکھنے کو تو خط لکھے مگر ان کی نثر میں ایسی بوقلمونی ،ایسی رنگا رنگی ہے اور اس طرح مختلف ’رحجانات‘ اور’ شعاعیں‘ ان کی نثر سے نکلتی ہیں، جو بعد میں آنے والی مختلف اصناف نثر کو،یکساں طور پر متاثر کرتی ہیں ۔غالب ککے بعد آنے والے تمام لوگوں نے ان کی نثر سے فائدہ اُٹھایا ہے ۔۔‘‘
سید عبد اللہ نے یہاں غالب کے خطوط کو مکتو ب نگاری کی بجائے نثر نگاری کے حوالے سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔اور یہ با ت درست بھی ہے کہ مکاتیب غالب میں افسانہ نگاری ، انشائیہ نگاری خاکہ نگاری اور مضمون نگاری کے عناصر جا بہ جا بکھرے پڑے ہیں جن سے غالب کے بعد آنے والے نثر نگاروں،سر سید، ڈپٹی نذیر احمد ،حالی ، شبلی، محمد حسین آزاد اور امداد امام اثر سے لے کر ابوالکلام آزاد تک کے یہاں غالب کی نثرنگاری کے اثرات ملتے ہیں ۔
البتہ غالب کا ’’مراسلے کو مکالمہ‘‘ بنانے پر فخر و مباہ کی تالیاں بجا کر لوگوں کی توجہ کھینچنا قابل غور ہے ۔شاعری مرزاکی فطرت تھی وہ پیدا ہی ہوئے تھے شاعری کے لئے،خط لکھنا تو ان کی مجبوری تھی جیسے بگڑے مغل شہزادوں کو جُواکھلواکر ان سے کمیشن لینا ان کی مجبوری تھی ۔دوئم یہ کہ قرض اور شراب کی فرمائش اور وظیفہ بند ہونے کا رونا رونے کے لئے شاعری موزوں نہیں ہو سکتی تھی ۔غالب کا مزاج ہی ایسا تھا کہ روش عام پر چلنا گوارا نہ تھا شاعری میں بھی بیدل ؔ کے اثرات قبول کرنے کے باوجود انہوں طرز بیدل کو اپنی شاعری پر حاوی نہیں ہونے دیا اور اپنا اسلوب ،اپنا ’’انداز بیاں‘‘ اپنا ہی رکھا ۔شاعری میں غالب اپنے شاہانہ مزاج اور طنطنہ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے لیکن خطوط میں غالب کا یہ رویہ بالکل برعکس ہو جاتا ہے ان کی طبیعت کی رنگینی ان کے خطوط پر صاف حاوی نظر آتی ہے ۔ بہر حال غالب اگر نثر نگار کے طور پر بھی شہرت رکھتے ہیں تو اپنے خطوط کی وجہ سے ہی ۔ اس ضمن میں پروفیسر وہاب اشرفی نے درست لکھا ہے کہ ،
’’۔۔۔۔غالب کی شہرت کا مدار ان کی وہ نثری کتابیں یا رسالے نہیں ہیں جو انہوں نے فارسی تصنیف ’’قاطع برہان کے جواب میں لکھے ہیں،اس لئے کہ ’نامئہ غالب‘،مرزا رحیم بیگ بیگ ضیاؔ میرٹھی کی ’’ساطع برہان ‘‘ کے رد میں لکی گئی ہے ۔’’لطائف غیبی ‘‘سید سعادت علی کی’محرق قاطع ‘کے جواب میں ،نیز’’تیغ تیز‘‘قاطع القاطع‘‘اور ’موئد برہان‘ کے اعتراضات کا جواب ہے ۔غالب کی یہ کتابیں ان کے علم و کمال کی غماز ضرور ہیں لیکن ان کی نظر کا وہ مزاج نہیں رکھتیں جن کے لئے غالب معروف ہیں ۔۔۔۔اس لئے غالب کے طرز خاص کو سمجھنے کے لئے ان کے اردو کے مکاتیب کے علاوہ کوئی دوسری تصنیف معاون نہیں بنتی‘‘معنی کی تلاش ؛از وہاب اشرفی ۔ص۔۷۲۔
غالب نے اپنے خطوط یاتو ضرورتاً لکھے یا تفریحاًً،شاعری کی طرح مکتوب نگاری میں بھی روش عام سے الگ انداز اختیار کرنا ان کا شعوری عمل تھا وہ مشکل پسندی جو ان کی شاعری میں ہے مکتوبات غالب میں اس کی پرچھائیاں تو ہیں لیکن نہائت ہلکی ہلکی شادابی اور شگفتگی میں لپٹی ہوئی ۔غالب نے ،سادہ ،سہل اور دِلآویزنثر میں اپنی ذہنی ترنگوں کا اس طرح بے ساختہ اظہار کیا ہے کہ قاری کو ان کے مکاتیب پڑھتے ہوئے مسرت بھی حاصل ہوتی ہے اور بصیرت بھی ۔
مرزا غالب شعری کی طرح نثر نگاری کے مضمرات کی بھی آگہی رکھتے تھے ۔ اپنے ہم عصر شاعر غلام غوث بے خبر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ، ’’۔۔۔پیر و مرشد ،سہل ممتنع اس نظم و نثر کو کہتے ہیں کہ دیکھنے میں آسان نظر آئے اور اس کا جواب نہ ہوسکے ،بالجملہ سہل ممتنع کمال حسن کلام ہیاور بلاغت کی انتہا ہے ۔ ممتنع در حقیقت ممتنع النظر ہے ۔شیخ سعدی کے بیشتر فقرے اسی صفت پر مشتمل ہیںاور رشید وطواط وغیرہ شعرا ئے سلف اسی شیوے کی روایت منظور رکھتے ہیں ۔خود ستائی ہوتی ہے ،،سخن فہم اگر غور کرے گا تو فقیر کی نظم و نثر میں سہل ممتنع اکثر پائے گا ۔ ‘‘
لیکن جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے ،مرزا کے یہاں تضادات بہت ہیں ، لہٰذانثر نگاری کے باب میں میں بھی ان کے یہاں مختلف اور متضاد انداز بیاںکی مثالیں بھی ملتی ہیں اعلی اور بے مثل نثر کے جو نمونے غالب کے مکتوبات میں ملتے ہیں وہ ان کی دوسری نثری تحریروں ،مثلاًًتقریظوں اور دیباچوں وغیرہ میں نہیں ملتیں ۔ حالی نے ’’یاد گار غالب ‘‘میں اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ مرزا چونکہ دیباچے اور تقریظیں دوستوں کی فرمائش اور اصرار کے تحت لکھواتے تھے ، لہذا غالب بھی محضرسم نبھانے کے لئے لکھ دیا کرتے تھے اس لئے ایسی نثری تحریروں میںوہ فطری برجستگی آزادہ روی اور نیرنگی نہیں ملتی جو غالب کے مکاتیب کا خاصہ ہے ۔ غرض یہ کہ غالب نے اپنے مکاتیب کے ذریعے اردو میں مکتوب نگاری کو ایک فن بنانے کاکردار تو نبھایا ہی،ساتھ ہی اردو کے نثر نگاروں کو یہ بھی سکھایا ہے کہ سہل ممتنع میں ایسی نثر کیسے لکھی جائے کہ ہر بات قاری کے دل میں اتر جائے ۔
……………………
رابطہ: سابق صدر شعبۂ اُردو کشمیر یونی ورسٹی