جموں //قانون ساز کونسل کے رکن اور پی ڈی پی لیڈر وکرما دتیہ سنگھ نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ جموں وکشمیر کے آخری مہاراجہ ، مہاراجہ ہری سنگھ کے پوتے اور سابق صدر ریاست و سینئر کانگریسی لیڈر ڈاکٹر کرن سنگھ کے بیٹے وکرما ادتیہ نے اپنے استعفے کا مکتوب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹویٹر اور فیس بک پر پوسٹ کردیا ۔ وکرمادتیہ سنگھ نے 2014میں مرحوم مفتی محمد سعید کی موجودگی میں پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی تھی، ان کے برادر اصغر اجات شترو سنگھ اس سے قبل نیشنل کانفرنس سے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور وہ بھی ان دنوں قانون ساز کونسل کے ممبر ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وکرما دتیہ سنگھ نے کہا کہ وہ پچھلے چند ماہ سے ریاست، بالخصوص جموں خطہ سے متعلق معاملات پارٹی اعلیٰ کمان کے نوٹس میں لا رہے تھے ، جس میں روہنگیائی مہاجرین کو جموں سے بے دخل کیا جانا اور ان کے دادا مہاراجہ ہری سنگھ کے جنم دن پر عام تعطیل کا اعلان کرنا شامل تھا، لیکن پارٹی اعلیٰ کمان نے ان کے تحفظات کو خاطر میں نہ لایا۔ ٹویٹر پر اپنے استعفیٰ کی اطلاع دینے کے بعد انہوں نے بتایا کہ مرحوم مفتی محمد سعید کی وفات کے بعد پی ڈی پی میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ’میں نے مفتی صاحب کی ترغیب پر سیاست میں قدم رکھا تھا، کیوں کہ آنجہانی ریاست کی یکجہتی کے خواہاںتھے لیکن بدقسمتی سے موجودہ قیادت مفتی سعید کے نظریات کو آگے بڑھانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں کشمیر اور جموں کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو گئی ہے ‘۔ انہوں نے بتایاکہ ’میں نے متعدد اہم معاملات پر وزیر اعلیٰ اور سینئر وزراء کو خط لکھے جس کے نتیجہ میں میرے اور پارٹی کے درمیان کئی اختلافات ابھر آئے ۔ وکرمادتیہ نے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے میرے تحفظات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، میں پی ڈی پی میں اہانت اور گھٹن محسوس کر رہا ہوںاور اپنے ضمیر کی آواز پر پارٹی اور قانون ساز کونسل سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ میں نے لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے سیاست میں قدم رکھا تھا لیکن جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ اس کے لئے کسی سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پارٹی کے ساتھ اختلافات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں بتایا کہ ’میں نے وزیر تعلیم نعیم اختر اور پھر الطاف بخاری کوخط لکھ کر ڈوگرہ تاریخ نصاب میں شامل کرنے کی مانگ کی تاکہ ڈوگرہ راج کے 100سالہ سنہری دور کے بارے میں لوگوں کو پتہ چل سکے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد جموں خطہ میں روہنگیائی مہاجرین کو بسائے جانے پر میں نے اپنے تحفظات پارٹی کے سامنے رکھے لیکن پارٹی قیادت مجھ سے متفق نہ ہوئی جب کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے جنم دن پر عام تعطیل کی مانگ کو نظر انداز کر کے پارٹی نے مجھے انتہائی قدم اٹھانے پرمجبور کر دیا۔ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں پوچھے جانے پر وکرمادتیہ نے بتایا کہ اس سلسلہ میں انہوںنے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ، وہ ریاست بشمول لداخ و کشمیر کے لوگوں کی خدمت کرنے کے متمنی ہیں اس کے لئے وہ پہاڑی علاقوں کو مفصل دورہ کر کے لوگوں کی خواہشات اور امنگوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کی رضامندی سے ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ اپنے چھوٹے بھائی اجات شترو سنگھ کی طرح بی جے پی میں شامل ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ اس کا جواب فی الحال نہیں دیا جا سکتا، ابھی میرا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ اس دوران نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے وکرم ادتیہ کے استعفے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ’اگر یہ سچ ہے تو میں وکرم ادتیہ کے بہتر مستقبل کے لئے نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں‘۔