شوپیاں میں محمد رمضان شیخ نامی سرپنچ کی عسکریت پسندوںکے ہاتھوں ہلاکت اور پھر ان کے گھر میں شوکت احمد کمہار نامی جنگجو کی ہلاکت نے بڑی بحث کو جنم دیا ہے ۔ واقعہ کے اگلے دن مقتول سرپنچ کے گھر کو مشتعل ہجوم نے نظر آتش کرکے معاملہ کو اور بھی زیادہ موضوع بحث بنا دیا ۔ سرپنچ کے اہل خانہ کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں ان کے اہل خانہ کو ان کی جان چھڑانے کی کوششوں پر ہرگز کسی کو اعتراض نہیں ہوگا لیکن جو ہونا تھا وہ ہو گیا اور سرپنچ اور جنگجو کی ہلاکت کو نہ کوئی روک سکا اور نہ ہی اگلے دن عوامی احتجاج کے بعد محمد رمضان کے گھر کو کوئی آگ کے شعلوں سے بچا سکا ۔ اس سارے واقعہ کے بعد مین اسٹریم جماعتوں اور سرکاری حفاظتی ایجنسیوں نے محمد رمضان کے قتل کی بھر پور مذمت کی۔ اگر چہ یہاں کسی بھی دلدوز واقعہ کی مذمت سے متاثر ین کا بظاہر کوئی مداوا نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ انسانی جانوں کے انسانوں کے ہی ہاتھوں سے ضائع ہونے پر ہم خاموش رہیں اور ان واقعات کی مذمت نہ کریں۔ تاہم ضروری ہے کہ مذمت کرنے والے کے پاس ایسا کرنے کیلئے معقول اخلاقی جواز ہواور اس کی بات کو اس کے ناقدین بھی سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ اس بد نصیب ریاست میں ہر ہلاکت کو لیکر ایک طبقہ مذمت کرتا ہے تو دوسرا مکمل خامو شی اختیار کرتا ہے۔ محمد رمضان کی ہلاکت کی مذمت کرنے والوں کے واویلا کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر مین اسٹریم خیمے نے اخوانیوں اور سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں مزاحمتی تحریک خاص طور سے جماعت اسلامی سے وابسطہ درجنوں کارکنوں کی ہلاکتوں کو لیکر بھی احتجاج کیا ہوتا یا ایسے واقعات کی مذمت کی ہوتی تو شائد آج محمد رمضان کی ہلاکت کو لیکر ان کی مذمت سمجھ میں آتی اور لوگ ان کے بیانات کو سنجیدگی کے ساتھ بھی لیتے ۔لہذا عیاں ہے کہ سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکتوں پر خاموشی اختیار کرکے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہوئی ہلاکتوں کے خلاف آوازٹھانے کا مین اسٹریم سیاستدان اخلاقی حق کھو چکے ہیں ۔ کچھ یہی حال علیحدگی پسندخیمے کا بھی ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ رواں مزاحمتی تحریک کے اوائل سے اب تک معلوم اور نا معلوم عسکریت پسندوں کے ہاتھوں جب بھی مین اسٹریم سیاستدانوں اور اور ان کے کارکنوں کا قتل ہوا یا ان پر حملے ہوئے تو علیحدگی پسند خیمے نے مکمل خاموشی اختیار کی ۔ اتنا ہی نہیں سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کی ہلاکت یا رہائشی علاقوںکے نذر آتش کئے جانے کے بعد ماضی قریب تک مزاحمتی قیادت متاثر ین کو سرکاری امداد نہ لینے کی تاکید کرتی آ رہی تھی۔ اس طرح سرکاری تشدد سے متاثرین دو دو ہاتھ پٹ جاتے تھے کیونکہ پہلے مبینہ طور سے انہیں ملک دشمن سمجھ کر جن سے مار دیا جاتا تھا اور پھر بیشتر لوگ اس ڈر سے سرکاری معاونت قبو ل کرنے میں ہچکچاہٹ دکھاتے تھے کہ کہیں انہیں اس کیلئے غدار قرار نہ دیا جائے ۔ سیکورٹی ایجنسیاں بھی ان معاملات میں مین اسٹریم اور علیحدگی پسند سیاستدانوں سے کچھ خاض پیچھے نہیں جب سیکورٹی اہلکاروں کی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت یا پولیس اہلکاروں کے گھروں میں عسکریت پسندوں کا اندر داخل ہو کر اہل خانہ کو دھمکی دینے کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ان اداروں کے اعلیٰ عہدیداران مصومیت اور مظلومیت کی دہائیاں دیتے ہیں ۔ ایسا کرنا ان کا حق بھی ہے اور ان واقعات کی مذمت کرنا بھی واجب ہے لیکن جب خود پولیس یا فوج کے اہلکار عسکریت پسندوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں یا پھر عسکریت پسندوں کے اہل خانہ کو عتاب و عذاب کا نشانہ بناتے ہیں تو وہ عسکریت پسندوں کی پولیس یا سیاسی کارکنوں یا کسی سیکورٹی ایجنسی کے ساتھ کام کرنے والے اہلکار کے ساتھ عسکریت پسندوں کی مبینہ ذیادتیوں کی مذمت کرنے کا اخلاقی جواز کھو دیتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی ہو کسی واقعہ کی مذمت کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ مذمت کرنے والاخود اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پابند رہا ہو اور اس کا اپنا وطیرہ اور طرز عمل ایسا رہا ہو کہ جب وہ دوسروں پر انگلی اٹھائے تو کوئی اس پر انگلی اٹھانے کا کوئی جواز تراش نہ سکے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے ذہن میں یہ بات لازمی طور سے سمجھ میں آنی چاہئے کہ انتہائی مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود بھی وہ ہر شہری کے جان و مال کے تحفظ کیلئے وعدہ بند ہیں۔ اگر وہ تشدد کا جواب ہر بار تشدد سے ، دھمکی کا جواب دھمکی سے یا توڑ پھوڑ کا جواب توڑ پھوڑ سے دے دیں تو پھر ان کے قانونی حکمرانی کے دعوے خودبخود بے بنیاد ثابت ہو جاتے ہیں۔ پھر اگر عسکریت پسندوں کی طرف سے کہیں کسی جگہ کوئی ناپسندیدہ واردات انجام دی جاتی ہے تو عوام کو حقائق جاننے کا بھر پور حق حاصل ہے ۔ عسکری جوانوں کو ہرگز یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ جس مقصد کی خاطر جد و جہد کرنے کے دعویدار ہیں اسی وجہ سے انہیں عوام میں حمایت حاصل ہے اور اس چیز کو مد نظر رکھکر ا ن کاہر حال میں اعلیٰ اقدار کا پاس کرنے کے ساتھ ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا واجب بن جاتا ہے ۔ غرض تنازعہ سے وابستہ تمام فریقین اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر اپنی جمع شدہ پونجی پر نظر ڈالیں تو انہیں صاف نظر آئے گا کہ محض کسی فرد کا کسی بھی مخصوص نظرئیہ کے ساتھ منسلک ہونے کی بنیاد پر اس سے قتل کرنے سے ان کی منزل قریب نہیں بلکہ اور دور ہوتی جا رہی ہے ۔ ایک تحریک دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا نتیجہ جہاں دس نئے تحریک دشمنوں کا پیدا ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے وہاں قوم دشمنوں اور مبینہ دہشت گردوں کو قتل کرنے پر جشن منانے والوں کے لئے بھی یہ ساری کاروائیاں سو فی صدی الٹے نتائج پیدا کرتی ہیں اور واقعہ کے بعد نفرتوں میں مذید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ صرف سیاسی کارکنوں کی ہلاکتوں سے کسی کی بھی منزل سچ مچ قریب آجاتی یا وہ نظریہ ختم ہو جاتا تو پھر آج نہ ہی این سی اور نہ ہی جماعت اسلامی کا کہیں زمینی سطح پر وجود ہوتا کیونکہ جہاں این سی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو تحریک دشمنی کے نام پر قتل کیا گیا وہاں اخوان اور سرکاری فورسز نے دیگر مزاحمتی جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ جماعت اسلامی سے وابسطہ فعال، دیندار اور مخلص کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو ہندوستان دشمن اور قوم دشمن کہہ کر موت کے گھاٹ اتارا ۔ ایک اہم بات جس کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ 1989سے اب تک کے واقعات اس بات کا گواہ ہیں کہ جموں کشمیر میں نہ کسی فریق کی جیت مستقل ثابت ہو سکی ہے اور نہ کسی کی ہار ۔ جہاں اکثر انتخابات میں لوگوں کی بھاری تعداد مزاحتی قیادت کی بائیکاٹ کال کو رد کرکے ووٹ ڈالنے کیلئے سامنے آتی ہے وہاں کسی معمولی سے واقعہ کے رد عمل میں عام لوگ ان ہی مین اسٹریم سیاستدانوں کا قافیہ تنگ کرتے ہیں جنہیں کہ وہ بھاری تعداد میں ووٹ دے کر عزت مآب کہلوانے کے دعویدار بناتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو 2008ء 2010اور 2016ء کی طوفانی ایجی ٹیشنیں معرض وجود میں ہرگز نہیں آتیں ۔ مین اسٹریم اور مزاحمتی قیادت چاہے کچھ بھی دعوے کریں لیکن زمینی صورتحال جوں کی توں ہے اور لوگ وہی کچھ کرتے ہیں جو انہی مناسب لگے ۔یہ رجحان اگر چہ پوری قوم کے لئے بے حد نقصان دہ معاملہ ہے لیکن پوری قوم کو اس صورتحال تک لیجاے کی ذمہ داری چھوٹے بڑے سیاسی کارکنوں پر عائد ہوتی ہے جن کی غیر مستقل مزاجی اور انا پرستی نے کشمیریوں کو مایوسیوں کے دلدل میں ،پھنسا دیا ہے ۔ اب وقت آ چکا ہے کہ تمام فریقین کشمیریوںکے عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کریں اور اپنی من پسند تاویلات نکالنے سے اجتناب کریں۔