مسلم دنیاعالم ِ انسانیت کی خلافت اور امامت سے محروم کیوں ہے ؟ اس منصب عالیہ سے محرومی کے علاوہ مسلمان دنیا میں مظلوم ترین کیوںہیں ؟ ملحد ، مشرک اور خدا بیزاراقوا م مسلم اُمت اور مسلم ممالک کو سرے سے مٹانے کے منصوبے کیوںبنارہے ہیںجو کسی بھی لحاظ سے دین اسلام سے جڑے ہیں ؟یہ الگ بات ہے کہ ان فتنہ سامان دجالی منصوبوں کے باوجود اسلام پھونکوں سے بجھایا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ اللہ خالق کائنات کا قیامت تک کے لئے رہنے والا دین ہے ، مگر ہاں وہ مسلم اقوام جو دین حق کی صحیح وراث اور دنیا کی باقی اقوام سے افضل ہونے کا فریضہ نبھا نے سے کترائیں وہ ضرور مٹ جائیں گی، مگر چشم فلک دیکھے گی کہ انہی غیر مسلم اقوام سے کعبہ وقبلہ کے نگہباں بھی پیدا ہوں گے جو ا س وقت اسلام کے درپئے آزار ہیں۔ یہ اللہ کی سنت کے مطابق ہونا ہی ہونا ہے ۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنے مشہور مقا لہ ’’مستقبل کی تاریخ پر ایک نظر‘‘ میں فکر انگیز بات کہی ہے کہ :جو مذہب سائنسی معیار سے پست ہے، تعلیم یافتہ شہبازوں کے لئے وہ ایک شکار مردہ ہے اور وہ مذہب جو سائنس سے بر تر و بالا ہے کہ جسے سائنس کی بلندیاں نہیں پاسکیں،وہ آج کے بڑے بڑے مفکروں کامذہب ہے ۔بہت عجیب اورفکر انگیز اتفاق ہے کہ میکس پلینک، کیرل، آئن سٹائن کی تحریروں میں جا بجا قرآنی الفاظ یا قرآن فہمی سے حاصل شدہ تعبیریں تاویلیںملتی ہیں ۔ الحمدللہ اسلام ہی ایساواحد دین ہے جس کی بنیادیں عقل اور حکمت پر استوارہیں ،اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ بس یہی ایک دین اللہ کا پسندیدہ اور اللہ ہی کا بھیجا ہوا سندیسہ ٔہدایت ہے ۔ زمانہ اسلام کے پہلے روز سے طلوعِ آفتاب وماہتاب برابر اس بات کا پورا مشاہدہ کر رہاہے کہ دین کی اصل اور اساس انسانیت کی سر بلندی اور ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل ہے ۔ یہ معاشرہ تاریخ اسلام کے سنہری باب کا جزو لاینفک ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام کا دور ِ زریں ہی وہ تاریخ ساز عہدتھاجب اسلامی عقائد ، اقدار، کردار ، علوم و فنون اور ادب ، طریقہ ٔرہن سہن،تہذیب و تمدن اور سائنس و تیکنالوجی نے زمانے میں ایک ہمہ گیر صالح انقلاب پیدا کیا اور پوری دنیا پر چھاگیا ۔ دین اسلام نے ہی لاثانی اسلامی معا شرہ تشکیل دینے کا معجزہ دکھایا،ایسے عظیم حکمران پیدا کئے ، ایسی تابندہ شخصیات تاریخ کو سونپیں، ایسی مفید ایجادات دنیا کے حوالے کر دیں کہ تاریخ ان پر آج بھی عش عش کر تی ہے ۔ قلمروئے اسلام میں عدل وانصاف کا یہ حال تھا کہ ایک معمولی عورت کی فریاد جب سندھ کے قید خانے سے نکل کر یوسف بن حجاج کے گوشِ سماعت سے ٹکراتی ہے اور اُ سے غیرت دلاتی ہے کہ اس کی سلطنت و حکومت کے ہوتے ہوئے بھی ایک مسلم عورت اغیار کی قید میں کراہ رہی ہے تو حجاج نے تاریخ کا وہ فیصلہ کیا جس نے برصغیر کو اسلام کی آغوش میں دے ڈالا۔ قیدی عورت کے خط میں چھپا پیغا مِ غیرت قصر خلافت کے لئے خطے میں فوج کشی کاایک ٹھوس وجہ بنا کہ نہ صرف سارا سندھ محمد بن قاسمؒ کے ہاتھوں فتح ہوا بلکہ محبوس خاتون راجہ داہر کے چنگل سے چھڑالی گئی ۔ گردش ِ زمانہ دیکھئے کہ اب ہم مسلم دنیا میںاس کے الٹ میں ہم وہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ ہمارے زمانے کی حقیقت کچھ اور اسلامی غیرت وحمیت کوئی اور شئے ہے۔ اس تلخ حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک اُچکتی نظر گلوب پر ڈورایئے کہ کشمیر ،فلسطین ، چیچنیا، انڈیا ، روہنگیا، شام ، لیبیا ، مصر،عراق اور افغانستان اورپاکستان کے مسلمانوں پر کیا کیاقیامتیں نہیںڈھائی جارہی ہیں مگر کیا ستاون مسلم ممالک میں کوئی ٹس سے مس ہوتا ہے؟ماضیٔ قریب کے بوسنیا ہرزیگونا، سوڈان وغیرہ میں مسلم نسل کشی کے المیے یاد کیجئے تو کلیجہ پھٹنے کو آئے گا ۔ مسلم ورلڈ میں ایک ہی نیوکلیئر ملک پاکستان کے حالات زیر وزبر ہیں ۔ ایسے ہی دوسرے ممالک مثلاترکی کے اندرونی اور بیرونی حالات پر کچھ لکھنے اور کہنے کی ضرورت نہیں ۔اگر ہم سب ورلڈ سینیریو اور بین الاقوامی سیاست کو نہیں سمجھتے لیکن مقامی طور پر ان سارے مسلم ممالک کے مصائب سے تو واقف ہونے چاہیے ۔ المختصربہ حیثیت مسلمان ہمارے کچھ فرائض بھی ہیں اورکچھ ذمہ داریاں بھی ہیں جو ہمیں ہر حال میں ان حالات پر تدبر اور تفکر پر اُبھارتی ہیں ۔
ہمارا ماضی انتہائی شاندار رہا ہے اور ابتدائی صدیوں میں عالم اسلام نے کسی بھی شعبہ ٔ زندگی میں کوئی کوتاہی نہیںکی ، چاہے وہ سائنسی میدان ہو ، علمی معاملات ہوں ، تہذیبی اور تمدنی مسائل ہوں ، غرض مسلم علماء ودانش وروں سے لے کر مسلم عساکر نے جبل و صحرا، سمندر اور میدانوں پر غالب آکر دنیا کے بہت سارے حصوں میں مسلم حکومتیں قائم کیں،ا نہوں نے زمینوں اور قوموں کو اسلام کے لئے مسخر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اوصاف اور دین داری کی پیروی سے غیروں کے قلوب اورضمیروں کی بھی تسخیر کی۔اس وجہ سے اسلام کا آفاقی پیغام چہار دانگ عالم میںپہنچا اور سینکڑوں کی تعداد میں مسلم ریاستیں یا ممالک وجود میں آئیں اور ان کی دھاک دور دور تک بحرو بر میں دونوں پر یکساں تھی ۔ یہی وہ دور تھا جب عالم اسلام میں وہ عبقری شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے ساری دنیا کو علم اور سائنس کی روشنی سے روشناس کیا، نئی نئی ایجادات عطاکیں ، سائنسی انکشافات کئے، علمی ترقیاں دیں، معاشی خوش حالی کا عملی منشور بخشا ۔ یوںاسلام نے ساری دنیا کی امامت اور رہبری کا تاج اسلامی دنیا کے سر پر رکھ دیا ۔ تب ہماری یونیورسٹیوں اور دانش گاہوں کی وہی قدرو منزلت تھی جو آج یورپی اور امریکی یونیور سٹیوں کی ہے لیکن اب حالات یکسر اس کے بر عکس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس علمی تنزل ، اخلاق انحطاط ، معاشی زبوں حالی ، سیاسی افلاس اور فکری بے راہ روی کے اسباب کیا ہیں ؟ ہمیں ان اسباب پر کھل کر بات کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنے امرض کی تشخیص کر کے ان کا صحیح علاج کر سکیں ۔ یہ عظیم تجزیہ اور محاسبہ کوئی گناہ یا شجر ممنوعہ نہیں۔ ہماری سب سے بڑی بد قسمتی یہی رہی ہے کہ ہم اجتہادی معاملات سے پہلو بچا تے ہیں اور ہر سوال کا جواب جذباتیت میں ڈھونڈتے ہیں جب کہ ہماری حریف باطل قوتیں اسلام کے خلاف بڑے ٹھنڈے د ل و دماغ سے زہر یلے منصوبے تیار کرتی ہیں ، یہ اپنا حتمی ہدف پانے کے لئے صدیوں گراونڈ ورک کرتی ہیں،پھر اپنی ترجیحات آرام سے ترتیب دیتی ہیں ۔اپنے مکروہ منصوبوں کو مسلم دنیا کے زر خرید حاکموں اور نام نہاد مسلم علماء ودانش وروں کی زیر نگرانی پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہیں ۔اس کے برخلاف ہم کبھی غور و تدبر نہیں کرتے اور نہ اپنی خامیوں اور نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ بہر حال ہماری تاریخ گواہ ہے کہ قرون اولیٰ میں علم بھی ہمارا تھا ، عمل بھی ہمارا ہی معیاری تھا ، تہذ یب بھی ہماری ہی مقبول تھی، تمدن بھی ہمارا ہی پسندیدہ تھا ، ادب و ثقافت پر ہماری چھاپ تھی ۔ اب ہم نہ تین میں ہیں نہ تیراں میں ، حالانکہ اب دنیا میں مسلم دیشوں کی تعداد ستاون ہے اور مادی لحاظ سے سیال سونا یعنی پٹرول اور دوسرے معدنی ذخائر کی صورت میں قدرت کے بیش قیمت خزانے ہماری تحویل میں ہیں مگر ان پر عملاً غیر مسلم جابر اقوام کا قبضہ ہے ۔ یہ ان کابے تحاشہ استحصال کرتے جاتے ہیں اور ہم ہیں کہ اوپر سے نیچے تک ان کے بندھوا مزدور بنے جی رہے ہیں ۔حالات یہاں تک خراب ہیں کہ مسلم آبادیوں پر کارپٹ بمباری یا’’ مدر آف آل بمز‘‘ گرانے والے بمباروں میں ایندھن بھی ہمارا ہی فراہم کردہ ہوتا ہے اور درہم ودینار بھی ہم ہی انہیںفراہم کرتے ہیں ۔
ہماری ناک کے سامنے ایک چھوٹا سا غاصب، ظالم ا ور جابر گلوب میں نقطہ نما اسرائیل ہے جوہم سب کے اعصاب پر نہ صرف غالب ہے ، یہ قبلۂ اول پر بھی بندق کی نوک پر قابض ہے ۔ خدا را سوچئے !دنیا بھر کے مسلمانوں کی چیخ و پکار اورآہ و بکا نے اسرائیل کا آج تک کچھ بگاڑ ا ؟ اس کا لیکھا جوکھا یہ ہے کہ ہم جدید دور میں اصل مادی طاقت سے تہی دامن ہیں کیونکہ پچھلی صدیوں سے ہم الل ٹپ سائنس اور ٹیکنالوجی میں صدیوں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ علمی دبدبے کے حامل امریکہ کے روبرو ہمارے کعبہ و قبلہ کے نگہبان اور پاسبان کورنش بجالاتے ہیں بلکہ حال ہی میں اَربوں ڈالر ڈونالڈ ٹرمپ کی سعودی عرب میں آمد کے موقع پر محض اس ہٹلر نماشخص کی خوشنودی پر شیخانِ حرم نچھاور کرگئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا کے اکیلے نیو کلیر پاور پاکستان کو صدر ٹرمپ نے اعلانیہ طور فرعونی زبان میںاُلٹی سیدھی سناکر گویایہ فرمان سنا یا کہ میرے پاؤں دابنے کے لئے واشنگٹن سر بسجود ہوکر آجاؤ ، ورنہ تمہاری خیر نہیں ۔ یہ تو نہ جانے کیا چمتکار ہوا کہ اسلام آباد نے اپنی روایتی معذرت خواہی چھوڑکر اس بارتھوڑی سی ہمت اور حمیت سے کام لے کر ٹرمپ کو ترکی بہ ترکی سنائی کہ امر یکہ اپنی مونچھوں کو تاؤ دینے سے بازرہا ۔ بہر حال مسلم دنیا یہ حقائق سمجھنے کے باوجود کیوں خواب خرگوش میں ہے ؟ یہ ایک لاینحل معمہ ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ہماری اس اجتماعی ذلت وخواری کا کارن یہ ہے کہ پچھلے ایک ہزار برس سے ہم محو خواب ہیں، ہماری دنیا سے علم اور سائنس نے الوادع کہی ہے جب کہ عصر جدید میں با قوت اور باعزت رہنے کے لئے یہ چیزیں لازم وملزوم ہیں کہ ہمارے مدارس ومعابد میں دین کی گہماگہمی کے بین بین سائنس اور ٹیکنالوجی کا بھی دور دورہ ہو تاکہ اپنے تابندہ ماضی کی طرح دنیا کی خادمانہ اور داعیانہ امامت کا حق ادا کر سکیں ۔اس میں دورائے نہیں کہ کئی صدیوں پہلے مسلم ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کو خیر باد کہہ چکے ہیں ، ہم میںتن آسانی اور عیش کوشی گھر کر گئی ہے ،ہمارے سر مایہ داریورپ اور امریکہ کی عیش گاہوں میں دولت لٹانے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن مغرب کی سائنسی سوچوں کو اپنانے کے لئے ہم قطعی تیار نہیں جو ہمیں زمانے کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بناتیں ۔ یہ سوال ہمارے قلب وجگر پر کوڑے پرسانا چاہیے کہ ایسا کیوں ؟ جب کہ صرف ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے ، اللہ کا سب سے پیا ر ے رسول ؐ ہمارے رہبر ورہنماہیں ، صرف ہمارے پاس ایک واضح نظریہ ٔ حیات کا لافانی سرمایہ ہے ؟ پھر ہم میں یہ ڈھیر ساری خامیاں کیوںدر آئیں ؟ ہماری سوچوں کا سفر کہاں رُک گیا ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے زبردست علمائے دین ، فضلاء، فقیہہ ، علمائے احادیث ،مفسرین و مفکرین کی ایک کارآمد کھیپ بھی اپنے درمیان پائی ، یہ سب اسلام کے ماتھے کے جھومر ہیں، ان پر ہمیں نازاں ہونا چاہیے لیکن اس بات کو ہم نکارنہیں سکتے کہ یہ کہکشاں بھی ہماری سوچوں کے جمود کو توڑ نہ سکی ، یہ ہمیں قوت پرواز نہ دے سکی، انہوں نے ہماری دینی اور فقہی مسائل میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیا مگر پچھلے کئی سو سال سے ہمارے قافلہ ٔ علم وسائنس کا پہیہ جہاں نامساعدحالات اور لاپروائی کے کیچڑ میں دھنس کر رُکا پڑا ہے، وہیں کے وہیں ہم بھی درماندہ پڑے ہیں ۔ لاریب ہم دینی علوم میں اضافے کرتے گئے جس کے ایک عظیم کارنامہ ہو نے میں کوئی کلام نہیں ، لیکن مسلم دنیا نے اس طویل عرصے میں سائینسی میدان کو بالکل خالی چھوڑا ہے کہ اغیار ہم پر سائنسی تفوق کے سبب بالادست ہوگئے۔ ڈاکٹر شریعتی کے الفاظ میںسائنس ہماری بنیا دہے ، دین ا نہی بنیادوں پر قائم ہے اور صرف اسی دین حق کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کی ہر بات اور ہر عمل ایک بنیادی آفاقی حقیقت پر استوار ہے ، ہم اس دین کے ماننے والے اور الحمدللہ اس اُمت کے ساتھ اپنی وابستگی پر بجاطور نازاں ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں تفکر کا سفر اور سائنس کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑنا چاہئے تاکہ حق وصداقت کی مشعل لئے ہم زمانے کی امامت کا حق ہر معنی میں ادا کرسکیں اور باطل اور الحاد ہمارے مقابلے سے سائنسی تفوق کا دھنڈوار پیٹنے سے دستبردار ہو جائے۔ ہماری شعوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مسلم دنیا ان میدانوں میں آگے بڑھ کر سب سے زیادہ کنٹربیوشن دے جو جد ید دور میں عالم انسانیت کی سہولت وآرام کے لئے بنیادی ضروریات سمجھے جاتے ہیں ، ہمیں سوئی سے لے کر طیارے تک، جدید نصابی تعلیم سے لے کر کھیل کود کے میدان تک ، دفاعی ساز وسامان سے لے کر تجربہ گاہوں تک،مسجد سے لے کر عالمی مارکیٹ تک اعلیٰ رتبہ پر فائز ہونا ہوگا ۔ ہمیں یہ بات بھی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ کفر ہر حالت میں اپنے جہل کی بنیاد پر متحد ہی نہیںہوچکا ہے بلکہ اپنے کافرانہ رنگ میں اپنا وجود منوانے کے لئے ایک ہاتھ میں سائنٹفک اور علمی اثاثے رکھتا ہے اور ودسرے ہاتھ میں اسلام بیزاری اور مسلم دشمنی کا منشور رکھتاہے ۔ وہ جدیددنیا کے تمام اسلحہ اور سامان حرب وضرب سے لیس ہو اورہم اگر پیچھے رہ گئے تو کفر حق پر مادی غلبہ پائے گا ۔ لہٰذا ہمیں اپنے فکرو عمل پر غور وفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جذبات اور اُبالوں سے باہر آکر حقائق کا ادراک کرنا چاہئے تاکہ مستقبل کالائحہ عمل ہم بہتر اسلوب اور جاندار نتائج کے ساتھ ترتیب دینے میں کامیاب رہ سکیں۔
[email protected] 9419514537