گاندربل// منی گام گاندربل میں پولیس کانسٹبل کی طرف سے ایک خاتون ٹیچر کی موبائل سے تصویر کھینچنے پر احتجاج کرنے کی پاداش میں ایک شہری پر سیفٹی ایکٹ عائد کرکے کوٹ بلوال جیل بھیج دیا گیا ہے۔ 35 سالہ محمد شفیع خان ولد غلام حسن ساکن یارمقام گاندربل پیشہ سے دکاندار ہے، جس نے چند سال قبل پنچایت الیکشن میں بطور سرپنچ بھی الیکشن لڑا تھا ۔ محمد شفیع نے بنک سے قرضہ حاصل کر رکھا ہے اور گھر کا واحد کمائو ہے۔ 14 اکتوبر 2017 کو منی گام بائی پاس پر صبح دس بجے کے قریب جب کئی افراد کنگن اورگاندربل جانے کی خاطر گاڑیوں کے انتظار میں تھے، تو اس دوران آئی آر پی چھٹی بٹالین سے وابستہ کانسٹیبل بشیر احمد بلٹ نمبر 173 نے اپنے موبائل فون سے ایک خاتون سکول ٹیچر کی کچھ تصاویر کھینچیں اور ساتھ میں کچھ نازیبا الفاظ بھی استعمال کئے۔ اس موقعہ پر استانی کے ساتھ ساتھ وہاں موجود افراد پولیس کانسٹیبل کی اس حرکت سے طیش میں آگئے اور انہوں نے مذکورہ پولیس اہلکار کو رسیوں سے باندھ کر آزادکے حق میں نعرے بازی کی۔ پولیس نے بھر وقت کارروائی کرتے ہوئے پولیس کانسٹیبل کو معطل کردیا تاہم اس ضمن میں ایک کیس بھی درج کرلیا جو پولیس کانسٹیبل کو رسیوں سے باندھنے کے خلاف تھا۔اس سلسلے میںدوکاندار محمد شفیع خان کو18ان لا فل ایکٹ کے تحت گرفتار کرکیاس پر سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا اور فوری طور ڈوزیئر تیار کر کے اسے کوٹ بلوال جیل بھیج دیا۔محمد شفیع خان کے رشتہ داروں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’جس پولیس کانسٹیبل نے غلط حرکت کی تھی اسکے خلاف معمولی کیس درج کیا گیا جبکہ محمد شفیع ، جس نے جذبات میں آکر نعرے لگائے تھے، کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ٹھہرا کر اس پر سیفٹی ایکٹ لاگو کیا گیا۔حالانکہ محمد شفیع نے اپنی روزی روٹی کمانے کی خاطر بنک سے قرضہ حاصل کرکے دوکان کھولا ہے ، جس کے ضعیف والدین کے ساتھ ساتھ اہلیہ اور دو معصوم بچے ہیں ۔