ہمارے وطن میںتادم تحریر ماں بہن بیٹی کی چوٹیاں کاٹنے کی بدبختانہ مہم جاری ہے۔ اس ننگ انسانیت سیاہ کارنامے کے پیچھے چاہے جوبھی ہو، اس نے کسی ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہو ، یہ ہو ہی نہیں سکتا، ایسا بزدل کسی پتھر سے جنم پاسکتا ہے ۔ اس اندوہناک مشن نے ساری کشمیری قوم کی غیرت کو ہی نہیں للکارا ہے بلکہ سب لوگ پریشانی ا ور نفسیاتی ہیجان میں مبتلا ہو چکے ہیں، البتہ اس کا زیادہ تر خمیازہ اورنقصان تو عورت ذات کا ہورہا ہے۔ کوئی شیشے پر پتھر مارے یا پتھر پر شیشہ مار ے دونوں صورتوں میں شیشہ ہی ٹوٹے گانا!!!عورت ذات ایک بہت ہی قابل قدر خدائی شہکارتخلیق ہے۔صنف ِنازک بہن کے روپ میں بھی میٹھی پیاری ،بیٹی کی شکل میں بھی محبت کا سدابہار گلدستہ مگر ماں کے رُوپ میںیہ اُس لاثانی عظمت کی حامل ہے جسے انبیاء ؑواولیاء نے عزت وتکریم سے یاد کیا۔یہ شریک حیات بن کر اپنے میاں کا دل لبھاتی ہے اور گھر کی بہو بن کر آپ کی ہر فرمائش پوراکرتی ہے۔ جب اسی خاتون کو اس کے حسن عمل کا بدلہ دینے کی باری آتی ہے تو لوگ اس کو کیا دیتے ہیں؟گالیاں ،بازار، دُکھ ، صدمے اور سزائیں اسی کو ملتی ہیں اور اب اس وقت بال بھوت کشمیر کے طو ل عرض میں عفت مآب خواتین پر ذہنی تکلیف کا نا قابل برداشت بوجھ ڈل رہے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ دو مرد آپس میں لڑائی جھگڑا کریںتو گالی اللہ کے نام پرماں یا بہن کو دی جاتی ہے،جن کا دور دور بھی ان کے قضیہ میں قصور نہیں ہوتا۔جتنی بھی گالیاں بدکلامیاںہیں ،وہ سب ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کے نام سے منسوب ہوتی ہیں۔کوئی بتائے تو سہی کہ ایسا کیوں؟اور آج۔۔۔یہ جو نئی ہوا چلی ہے خواتین کی جبری زلف تراشی کی،اس کی مار عورت پر کس جرم کی پاداش میں پڑرہی ہے؟ وہ اس دور میں جب ریاست کی وزیراعلیٰ صاحبہ خود ایک خاتون ہے !!!کسی گھر میں چھوٹی بچی چوتھی کلاس کی اس ہوائے بد کی شکار بنی تو کسی گھر میں بڑی عمر والی حاجن کے بال جبراً کاٹے گئے ۔ کہیں کسی گھر میں نانی کے بال تراشے گئے، کئی دادی پر ظلم کا یہ پہاڑ توڑا گیا، کسی گھر میں بہو پر یہ افتاد پڑی اور کہیں ساس اس کا شکار ہوئی۔ اُف کشمیری عورتوں پر ایک اور ظلم۔۔۔کیسے کیسے ان کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہیں۔اس ستائیس سالہ ٹرموئل میں سب سے زیادہ درد وکرب عورت نے ہی سہا ، ان کی چادر اور چار دیواری کی بے حرمتی ہوئی اور آج پھر سے یہ حالات کی سولی چڑھا ئی گئی۔ تُف سے اُن ظالم وجابر سنگ دلوں پر جو تصویر کائنات کے اس انمول رنگ کو بے رنگ بھی کر رہے ہیں اورا سے قعر مذلت میں دھکیل بھی رہے ہیں ۔
ظالمو! کسی عورت کے بالوں سے کیا دشمنی ہے؟ خواتین نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟ یہ کیا معمہ ہے ، کس ناکردہ گناہ کی سزا ہے جس کا ابھی کسی سر نظر آرہاہے اور نہ پیر۔سزا تو بنت ِحوا کو دئے جارہے ہو مگر خدا را یہ تو بتاؤ اس کا قصور کیا ہے؟ قوم کے غم میں ڈنر کھانے والے اونچی کرسیوں والے ظالم کو پکڑنے کے بجائے اُلٹا مظلوم خواتین کو ہسٹیریا کا مریض جتلا کر اپنی ذمہ داری سے دامن جھاڑ رہے ہیں ۔ کیوں ؟
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آیا یہ سب سیاست کی پینترہ بازی ہے یا کچھ اور۔اللہ تو سب خفیہ رازوں کا بہترین جاننے والا ہے۔اس کے سامنے کوئی بھی چیز نہ تو پوشیدہ ہے اور نہ ہی پوشیدہ رکھی جا سکتی ہے۔ یادرکھئے جو کوئی کمزور و بے نو امخلوق کے ساتھ بُرا کرتا ہے و ہ بھلے ہی اپنے انجام ِ بدسے بے خبر ہو، مگربالآخروہ ناکامی اور نامرادی کی اسی منزل سے ہمکنار ہوکر رہتا ہے جو فرعون ا ور نمرود جیسے ظالموں کا مقدر بنتا ہے ۔بال کاٹنے والے درندے جس کسی کے ایماء پر یا جس کسی لالچ کے تحت ایسا کرتا ہے،اسے اپنے عبرت ناک انجام سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے ۔ اسے معلوم ہو نا چاہیے کہ کسی انسان کو بلاوجہ اذیت دینا، چاہے جسمانی ہو یا ذہنی کس قدر گناہِ عظیم اور ناقابل معافی غلطی ہے۔ایسے آدم خور جس کسی شیطانی گروہ کے لئے بھی کام کرتے ہوں انہیں چاہئے کہ جلد از جلد اس گروہ سے الگ تھلگ ہو ں بلکہ اس کے ناپاک عزائم بے نقاب کردیں اور اس منافقت والے ننگ انسانیت مشن سے فوراً دست بردار ہو جائیں،ورنہ ان کی یہاں خیر ہے نہ ودسری دنیا میں۔ایک بات سمجھنے سے تو ہم قاصر ہیں کہ کشمیر جو علم و ادب اور تہذیب وشرافت کا ہمیشہ سے گہوارہ رہا ہے اوریہاں کے راجہ مہاراجوں ،بادشاہوں ، سلطانوں نے ہمیشہ خواتین ِ کشمیر کی تعظیم وتکریم کا خاص خیال ہی نہ رکھابلکہ سماج میں ایسی قدروں کو رواج دیا جن میں ماں بہن بیٹی کے لئے تحفظ بھی تھا اور ترحم بھی مگر اب دور جمہورکی حکومتیں رات دن وومنز اپماورمنٹ کی باتیں کرتی ہیں مگر حالات ایسی پیدا کرتی ہیںکہ نہ عوت ذات کی نسوانیت محفوظ ہے ، نہ اس کی چارداور چاردیواری کی عزت ہے اور اب اس کے بال تک بدقماشوں سے کتروائے جاتے ہیں ۔ ہائے افسوس ،تف صد تف!!!