Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

فرد کی اصلاح معاشرے کی دُرستی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: October 26, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
معاشرہ ،ماحول اور سماج یہ ایسے الفاظ ہیں جو خواندہ اور ناخواندہ لوگ کثرت سے استعمال کرتے ہیں،خصوصاً اس وقت جب انسان حیاء،اصول و آدابِ دین،فطرت اور اپنے مزاج و ذوق کے خلاف کوئی چیز دیکھے تو چٹ سے کہتا ہے کہ ماحول خراب ہو گیا ہے، معاشرہ تباہ ہوچکا ہے، معاشرہ برباد ہوا ہے،سماج بگڑ چکا ہے وغیرہ۔معاشرہ کیا ہے ؟ ابنائے آدم کے ایک ساتھ رہنے سہنے کا نام۔ معاشرہ انسانوں کا ہوتا ہے جانوروں کا نہیں۔جہاں انسان نہ ہو اسے جنگل، بیاباں، صحراء، سمندر خلا جیسے نام دئے جاتے ہیں لیکن کوئی اسے معاشرہ نہیں کہتا۔ اگر چہ وہاں کی آب و ہوا کتنی ہی پاکیزہ کیوں نہ ہو،لیکن لفظ "معاشرہ " اس پر نہیں بولا جاتا ہے۔ 
انسان ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کی زندگی کا لطف وسرور مل جل کر رہنے میں ہی ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ یہ میل جول کو پسند کرتا ہے۔ اس کی پیدائش کا جو نظام اللہ تعالی نے رکھا ہے اس کے لیے بھی ایک انسان کو دوسرے انسان کی ضرورت ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب ایک فرد معاشرہ کے خراب ہونے کا تذکرہ کرتا،تو اس کا اشارہ لوگوں کی طرف ہوتا ہے کہ لوگوں کا عمل خراب ہوگیا ہے۔معاشرے کی اصلاح کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟اس سوال کا جواب تحریر کرنے سے پہلے میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اصلاح کے حوالے سے جو باتیں قلم بندکی جارہی ہیں، وہ کسی سیاسی پس منظر میں بیان نہیں کی جارہی ہیں۔ قارئین حضرات یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ پتا نہیں کس دنیا میں رہ کر باتیں کررہا ہے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میں ایک مقبوضہ اور محکوم فضا میں رہ رہا ہوں۔ لیکن اس ماحول میں رہ کر ایک انسان کس قدر اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے، وہ ہر ایک جانتا ہے۔ جس کام کے کرنے پر ہم کسی خارجی دباؤ کا شکار نہیں ہیں بلکہ صد فی صد ہمارے اختیار میں ہے ،جس طرح سے چاہئے ہم وہ کام انجام دے سکتے ہیں، ہمیں اس ماحول میں جتنی آزادی حاصل ہے اس کے متعلق کل قیامت والے دن ہم سے باز پرس ہوگی۔ 
اصلاحِ معاشرہ آخر کس عمل کا نام ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس کے لیے ہمیں پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ معاشرہ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟انسانی معاشرے کی شروعات ایک گھرسے ہوتی ہے۔ایک بچہ جب اس دنیا میں جنم لیتا ہے تو اس کے لیے معاشرہ اسکے والدین سے ہی شروع ہوتا ہے۔انسان کی شخصیت دو ماحولوں کے اندر پرورش پاتی ہے، ایک گھریلو ماحول دوسرا گھر سے باہر کا ماحول۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی شخصیت موروثی عوامل اور بیرونی عوامل سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ماحول میں جو چیز سب سے پہلے انسان کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے، وہ اس کے والدین کا کردار ہے۔اسی حقیقت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔دراصل یہ والدین ہی ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی میں سب سے پہلے رول ماڈل کے طور پر سامنے ہوتے ہیں، بچے اپنے معصوم تخیل میں والدین کو اونچی مسند پر دیکھتے ہیں،ان کی کائنات ہی گہوارۂ والدین ہوتا ہے۔ماں باپ کی ہر بات بچوں کے لیے اہم ہوتی ہے اور ان کا عمل تو گویا بچوں کے لیے قابل تقلید نمونہ ہوتا ہے۔اس لحاظ سے میاں بیوی کے باہمی برتاؤ اور میل جول کے اثرات براہ راست بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میاں بیوی جس طرح گھر میں رہ رہیں ہوں، اس رہن سہن کی چھاپ بچوں پر پڑتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اکثر اسے اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔حالانکہ اس حساس اور اہم ذمہ داری کی طرف قرآن و حدیث میں جابجا واضح احکامات دیئے گئے ہیںاور اولاد کی تعلیم و تربیت کی تاکید کی گئی ہے۔ اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگروالدین نے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں کی تو یہ بڑے خطرے کی چیز ہے۔ اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور ذمہ داری والدین پرہوگی ۔چناچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے(التحریم6)"اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو(جہنم کی) آگ سے بچاؤ"۔(التحریم6)
 اسی طرح ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم سب ’’راعی‘‘ ذمہ دار ہو اور اپنی رعیت کے ذمہ دار ہو۔
بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعہ اچھا سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ آج سماجی الجھنیں تعلیم و تربیت کی خامیوں کی پیدا کردہ ہیں۔ موجودہ سماج میں دنیوی تعلیم پر توجہ دی جارہی ہے لیکن اسلامی اخلاق و تربیت پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے تعلیم یافتہ سماج ظلم، نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے گھناؤنے مرض کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی باپ نے اپنے بچے کو کوئی عطیہ اورتحفہ میں ادب یعنی اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا (رواہ الترمذی)۔ دوسری جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے ’’اپنے بچوں کا اکرام کرو اور انہیں اچھی تربیت دو‘‘۔ بچوں کے اکرام کا مفہوم یہ ہے کہ بچوں کو پیار دیں ،ان کو تعلیم دینے کے لیے ادب سے بلائیں تاکہ وہ والدین کی جانب سے کسی توہین کا احساس نہ کریں۔والدین چونکہ پہلی درسگاہ ہوتے ہیں، اسی لیے ان کا باعمل، بااخلاق اور مضبوط کردار کا ہونا نہایت اہم ہے۔بچہ چند ابتدائی سال جو محض والدین کی زیرنگرانی تربیت حاصل کرتا ہے، اس عرصے کے دوران والدین کو چاہیے کہ بچے کی تربیت کو اپنی اولین ترجیح بنالیں۔اپنی ہر مصروفیت، تمام مشاغل کو ایک طرف رکھ کر بچوں کی بہترین تربیت کی خاطراپنی تربیت کریں۔ جی ہاں! اپنی تربیت، یہ بہت ضروری ہے کیونکہ آپ بچوں سے ہزار مرتبہ بھی ایک اچھی بات کریں، تو وہ اتنا اثر نہیں رکھتی، جتنا آپ کا ایک مرتبہ کا کیا ہوا معمولی سا عمل۔آپ بچوں کو بڑوں کے ادب پر کئی لیکچرز دیں، وہ کبھی بھی ادب نہیں کریں گے اگر آپ نہیں کرتے۔ آپ والدین کے حقوق پر اسلام کا نقطۂ نظر بالکل واضح کر دیں مگر وہ کبھی آپ کے حقوق ادا نہیں کریں گے اگر انھوں نے آپ کو آپ کے والدین کی حق تلفی کرتے دیکھا ہے۔ آپ بڑی رقم خرچ کرکے بچے کو بڑے قاری سے تعلیم دلوائیں مگر اس کے دل میں قرآن سے محبت و اُنس شاید ہی پیدا ہو پائے، اگر وہ آپ کو قرآن کے ساتھ وقت گزارتے نہیں دیکھتے (الا ماشاء اللہ)۔آپ بچوں کو کتنی بھی نماز کی تلقین کیجئے، لیکن اگر آپ خود نماز کے پابند نہیں آپ کی تلقین بے اثر ثابت ہوگی۔ بچے آپ کے عمل کو دیکھتے ہیں نہ کہ آپ کی باتوں کو۔ آپ بچوں کے سامنے نماز پڑھیں آپ دیکھیں گے کہ وہ بھی آپ کی حرکات کو نقل کریں گے۔ 
آپ گھر میں کسی کی غیبت کرتے ہیں تو وہ بھی ان ساری برائیوں کو دیکھ لیتے ہیں اور آگے چل کر وہ بھی وہی حرکات کرتے ہیں جو وہ اپنے گھر میں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔غرض بچے کی زندگی میں ہر وہ چیز غیر اہم رہے گی جو والدین کی زندگی میں غیر اہم ہے اور ہر وہ چیز اہم رہے گی جو والدین کی زندگی میں اہم ہے۔لہذا ہر ذی شعور، صاحب فہم وفراست و عقل ودانش پر ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اسلامی نہج کے مطابق کرے تاکہ اولاد انکے لیے دنیا اور آخرت میں فائدہ مند ثابت ہوں اور معاشرے میں اپنے والدین کے لیے باعث عزت ہوں نہ کہ ذلت کا باعث بنیں۔ یاد رہے کہ بچے خالی الذہن صاف ورق کی مانند ہوتے ہیں اور اپنے ماحول سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ان کے ذہنی ورق پر جو بھی رنگ چھاپ دیا جائے وہ اسی میں رنگ دئیے جاتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ماحول و معاشرے کے حوالے کرنے سے پہلے ان کی نظریاتی تربیت کرنا بہت اہم ہے۔ ممکن ہے آپ بچوں کو گھر پر برائی سے بچائیں مگر وہی چیز بچہ سکول میں، یا کسی دوسری جگہ دیکھ لے، تب آپ اسے بچانے کے لیے وہاں موجود نہیں ہوں گے، اسی لیے بچوں کو اچھائی، برائی کا حکم دینے کے ساتھ، اس پر عمل اور اس حکم کی حکمت اور فوائد بھی سمجھائیں، بلکہ عملًا ملنے والے فائدے بھی دکھائیں۔اچھائی اور برائی کی بنیادی تمیز راسخ کریں، تاکہ وہ کسی معتبر شخص کو بھی برائی میں مبتلا پائیں تو اس برائی کو برا ہی سمجھیں، نہ کہ وہ ایسے کمزور ذہنیت کے حامل ہوں کہ ان کا نظریہ انسانوں کے ساتھ بدلتا رہے۔ہمیں چاہیئے کہ ہم ان نرم ونازک شاخوں اور کونپلوں کا رُخ اطاعت اللہ اور اطاعت رسول ؐ کی طرف موڑ دیںاور ان کے تناور ہونے کا انتظار نہ کریں تاکہ کل قیامت کو ہمارے لیے صدقۂ جاریہ رہیں۔بچوں کو معاشرے کے حوالے کرنے سے قبل ان کے اندر اسلام اور خیر و شر کے بنیادی نظریات راسخ کیجیے ۔مگر اس کے لیے آپ کے اپنے اندر خیر و شر کی تمیز اور اس پر یقین کا ہونا ضروری ہے۔بچوں کی تربیت میں کیا کیا چیزیں معاون اور مددگار ثابت ہوتی ہیں اور کن چیزوں سے پرہیز لازمی ہے اس کے متعلق ان شاء اللہ آئندہ خامہ فرسائی کروں گا۔ اللہ ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق فرمائے. آمین 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پُلوں-سرنگوں والے قومی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس میں 50 فیصد تک کی کمی، ٹول فیس حساب کرنے کا نیا فارمولہ نافذ
برصغیر
امر ناتھ یاترا: لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے افسران کو حفاظتی اقدامات مزید مؤثر بنانے کی ہدایت دی
تازہ ترین
بجبہاڑا میں آوارہ کتوں کے تازہ حملے میں دوسی آر پی ایف اہلکاروں سمیت سات افراد زخمی
تازہ ترین
سرنکوٹ پونچھ میں ملی ٹینوں کی کمیں گاہ سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد : پولیس
تازہ ترین

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?