نوٹ : یہ مقالہ اسلامک سوسائٹی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تقریری نشست میں خود مقالہ نگار نے پڑھا۔
اے ایمان والو اسلام میں سارے کے سارے داخل ہو جا اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔(البقرہ۔۔۔۔۲۰۸)
آج کا موضوع ہمارے لیے ایک تقدیری اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی اس موضوع کے جو گوشے اور جو پہلو سوالات کی صورت میں اظہارِ خیال کیلئے منتخب کیے گئے ہیں ان کے بارے میں اپنا ذہن واضح کیے بغیر ہم موجودہ تاریخ کی جاری معاندانہ یلغار کے سامنے خود کو ثابت قدم نہیں رکھ سکتے۔ یہ موضوع ہماری پوری صورتِ حال کا احاطہ کرتا ہے۔ اس پر غور کیے بغیر، ایک واضح موقف اختیار کیے بغیر اور اس پر اپنی مجموعی حکمتِ عملی ترتیب دیے بغیر ہم اپنے وجود کی بقا ء کے اسباب دریافت نہیں کر سکتے۔سب سے پہلے یہ ادراک ضروری ہے کہ اس وقت تاریخ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ ہمیں اکھاڑنے کی طرف یکسو ہو چکی ہے۔ ایسی مخاصمانہ اور نا موافق صورتحال کا ہم نے تاریخِ اسلام میں غالبا پہلی مرتبہ تجربہ کیا ہے۔ اس مسئلے کے سنگینی کو نہ سمجھنا، یا اس سنگینی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے محض جذبات کی بنیاد پر صورتحال کا تجزیہ کرنا اور اس سے نکلنے کی غرض سے قوت فراہم کرنا تاریخ کے اس معاندانہ عمل کو تیز کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
میرے خیال میں اس موضوع کا پہلا حصہ ہے، نفاذ شریعت کیوں؟ یا نفاذِ شریعت سے کیا مراد ہے؟ پہلے سوال کا ایک مختصر، مجموعی اور اصولی جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ شریعت کا اولین مطالبہ ہے کہ ہم بندگی کے اسٹرکچر کو زندگی کے تمام شعبوں اور دائروں میں قائم کریں اور استوار رکھیں ۔ شریعت یا دین کا اولین مقصد بندگی کی حقیقت کو فعال اور دائمی مظاہر فراہم کرنا ہے۔"نفاذِ شریعت کیا ہے؟"کا جواب یہ ہے کہ "اللہ کی اس دھرتی پراللہ کے بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کرصرف اورصرف اللہ کی غلامی میں لایاجائے جس کیلئے اللہ کاکلام یعنی قرآن حکیم جو میرے نبی مخبرصادق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توسط سے اس دنیاکوملا،کواپنی زندگی کے ہرپہلومیں جاری و ساری نافذکیاجائے"۔ اس لئے میں اپنے آج کے لیکچرمیں جب بھی "نفاذ شریعت "کالفظ استعمال کروں تواس کامطلب صرف اورصرف مکمل قرآن کانفاذہوگا’’نفاذ شریعت ‘‘کاصیغہ استعمال کرنااس لئے ضروری ہے کہ یہ میرے رب کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہم کوملا۔
"نفاذِ شریعت کیا ہے؟"کہ ہم اپنے جوہرِ تسلیم اور مادہ تعمیل کی بنیاد پر شریعت کے مطالبات کو اپنی باطنی اور خارجی زندگی کے بنیادی اقدار میں منقلب کر کے دکھائیں، تو یہ نفاذِ شریعت ہے۔ شریعت کا کوئی مطالبہ اس وقت تک تکمیل پانے کے راستے پر نہیں پڑتا جب تک ہم ایک ایسا نظمِ کلی نہ دریافت کر لیں، ایک ایسا قابلِ عمل تصورِ حیات نہ حاصل اور فراہم کر لیں، جس میں احکام اقدار بن جائیں۔ شریعت کا بہت بڑا مقصود یہ ہے کہ شریعت جن ابدی احکام اور مستقل مطالبات کا مجموعہ ہے ہم زندگی کو اس کے ناگزیر تغیرات کے ساتھ ان احکام(اور مطالبات)سے بننے والی اقدار پر قائم کر کے دکھائیں۔ اگر اس طرح سے دیکھا جائے تو یہ ایک نازک کام ہے جس کی Over Simplificationنہیں کرنی چاہیے۔ یقینا یہ سننے میں بہت اچھا لگتا ہے، اور بہت ضروری ہے کہ ہمارا ذہن اس پوائنٹ پر Crystallizedہو کہ شریعت کا نفاذ ہماری تمام ذمہ داریوں میں سب سے بڑی ذمہ داری ہے؛ لیکن اس ذمہ داری کو شریعت میں کار فرما حکمتوں کے ساتھ انجام کیسے دیا جائے، اس میں بہت پیچیدگیاں اور نزاکتیں ہیں؛ اور وہ نزاکتیں اور پیچیدگیاں اس وقت تک حل نہیں ہو سکتیں جب تک ہمارا جوہرِ تسلیم زندگی اور اس کے تصورات کو بنانے اور سنوارنے والی تمام حاضر قوتوں پر غالب نہ آجائے۔ جب تک ہمارا مادہ تعمیل قانون کے اخلاقی مقاصد کو Operateکرنے کے لائق نہ ہو جائے، اس وقت تک ہم اپنی یہ سب سے بڑی ذمہ داری کسی بھی ذریعے سے پوری نہیں کر سکتے۔ میری رائے میں اس کیلئے بہت ضروری ہے کہ ہم شریعت کی قانونی ساخت کو اس کی اصل اخلاقی ساخت کے ایک ذریعے کی حیثیت دیں۔ شریعت میں قوانین کا نقط کمال یہ ہے کہ وہ اخلاق بن جائیں، ورنہ قانون محض جبر ہے چاہے وہ کسی کا بنایا ہوا ہو۔ قانون میں جبر کے اس پہلو کو زائل کرسکنے کا اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ہر حکم کو کسی خارجی دباؤ کی حیثیت دینے کے بجائے اپنے فطری اقتضا کا وہ اظہار سمجھا جائے جس پر قادر نہیں ہوا جا سکتا؛ یعنی احکامِ شریعت دراصل ہمارے فطری اقتضا ء کا ایسا اظہار ہیں جو اگر ہمارے سپرد ہوتا تو شاید ہم کبھی اس پر قادر نہ ہو سکتے۔ اس خاص اینگل (Angle)اور اس نقطہ نظر سے شریعت کو نہ دیکھنا کچھ ہنگامی نتائج پیدا کرنے کے علاوہ کسی صورت میں منتج نہیں ہو سکتا۔ جب تک شریعت کے احکام ہماری کوششوں اور دین کے ساتھ ہماری وابستگی کی صداقت کے نتیجے میں ہماری زندگی کی مستقل بنیادیں بننے کی حالت پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک ان احکام کو چند جبری مظاہر کی صورت میں نافذ کر دینا میری رائے میں مقاصد شریعت کی تکمیل کیلئے نہ صرف ناکافی ہو گا، بلکہ ہر نئے Step پر اس نفاذ کو دشوار سے دشوار تر بناتا جائے گا۔ میرا یہ سوال نفاذِ شریعت کیا ہے،کا جواب یہی ہے کہ ہم اللہ اور اللہ کے رسولؓ کے احکام(قرآن وحدیث)کو اپنے احوال اور اپنے حالات کی بنیادی اقدار بنالیں یعنی میرے تمام باطنی اور ذہنی احوال شریعت کے منشا کی تعمیل اور تسلیم میں صرف ہوں، اور میرے تمام خارجی حالات شریعت کی قبولیت کا ایک تیار شدہ میدان بن کے رہ جائیں۔
میں اس بات سے مکمل متفق ہوں کہ اس کیلئے درکار تیاری صرف دعوتی قوت سے نہیں ہو سکتی، لیکن دوسری طرف وہ صرف تحریکی جذبے سے بھی نہیں ہو سکتی کہ تحریکیں ناقص اور خام نتائج پر قناعت کر لیتی ہیں، جب کہ دعوتیں صرف کسی پیغام کے منتقل کر دینے کے عمل پر راضی ہو جاتی ہیں۔ یہ دونوں طریقے اگر ایک دوسرے سے منقطع حالت میں نفاذِ شریعت، یعنی بندگی کے اسٹرکچر کی مکمل تعمیر کا فریضہ لے کر اٹھیں گے تو دونوں ایک دوسرے کی کمک کے بغیر چند عارضی بلکہ ضمنی نتائج تک محدود رہ جائیں گے۔ میری رائے میں یہ دین اپنے پھیلاؤ اور اپنے قیام کے دو اسالیب رکھتا ہے، جن میں سے کوئی ایک اسلوب بھی اگر منہا ہو جائے تو ہمارا تعلق با الدین نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا اور ہماری بندگی سے عائد ہونے والی ذمہ داریاں بہ احسن الوجوہ پوری نہیں ہو سکتیں۔ وہ دو اسالیب ہیں "معاشرہ"اور "ریاست"، یعنی ہمارا دین اپنی موجودگی کے آثار کو Established، محکم اور جاری رکھنے کیلئے دو ادارے، دو ذرائع یا دو قوتیں پیدا کرتا ہے، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دین ہماری زندگی کے نظمِ اجتماعی کو دو حصوں میں بانٹ کر ان دونوں حصوں کو اپنا مظہر بناتا ہے، اور وہ دو حصے ہیں "معاشرہ " اور "ریاست"۔ جب تک ہم ان دونوں اداروں کو اپنے نظمِ اجتماعی کی ان دونوں روایتوں کو دین کا مظہر بننے کے قابل نہیں بنائیں گے اس وقت تک ہم دین کا نام لے کر اور دین کے نفاذ کو اپنا مقصود بنا کر جو بھی نتائج نکالنے میں کامیابی حاصل کریں گے وہ نتائج جزوی بھی ہوں گے اور عارضی بھی۔ دین کا دعوتی کردار معاشرے کی اسٹرکچرنگ (structuring) ہے، جس کے بغیر اس دین کے قیام کا فطری سبب پیدا نہیں ہو سکتا اور دین کے غالب ہونے کی جہت اس کے ریاستی مظاہر میں ہے۔ ریاست دین کے غلبے کو قائم کرتی ہے اور معاشرہ دین کی قبولیت اور پھیلا ؤکا سامان بنتا ہے۔ یہ ہے اپنے حقیقی معنوں میں وہ نفاذِ شریعت کہ معاشرہ اللہ کی رضا کے مطابق Restructureہو جائے اور ریاست اللہ کے حکم کی تعمیل میں ایک" محافظ اور دفاعی قوت " بن جائے۔ ہمارے یہاں یہ دونوں کام ایک دوسرے سے بیگانگی کی حالت میں ہو رہے ہیں، یعنی جن لوگوں کا رخ معاشرے کی طرف ہے، جن کا انداز دعوتی ہے، وہ ریاست کے ناگزیر کردار کو سمجھنے پر مائل نہیں ہیں اور جن لوگوں کا رخ ریاستی نظام کی تبدیلی کی طرف ہے وہ معاشرے کو بہت قرار واقعی اہمیت دینے پر راضی نہیں ہیں۔ نفاذِ دین یا نفاذِ شریعت کیا ہے؟ وہ یہی ہے کہ ہمارا نظمِ زندگی اپنے پورے مکینیزم (Mechanism) میں، اور اپنی تمام اندرونی اور بیرونی تفصیلات میں دین کے مطالبات کو بنیادی اقدار بنا کر پورا کرے۔ اس کے علاوہ نفاذِ شریعت کا کوئی لائقِ اعتبار مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا۔
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کیوں ہو؟ میں یہ عرض کروں گا کہ نفاذِ شریعت کیوں؟ کا جواب ہے خود دین کیوں؟ اگر میں خود کو اس بات پر قائل اور ثابت قدم کر چکا ہوں کہ: (۱)۔میری حقیقت بھی بندگی ہے اور میری غایت بھی بندگی ہے، یعنی میرا اصلی ماضی بھی بندگی ہے اور میرا حقیقی مستقبل بھی بندگی ہے، اور (۲)۔ یہ کہ یہ زندگی اگرچہ میرے Span Of Existence کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے، لیکن اگر یہ چھوٹا سا حصہ میری حقیقت اور غایت سے غیر متعلق رہ گیا تو میں گویا اپنے ماضی یعنی اپنی حقیقت اور اصل سے بھی منقطع رہوں گا اور اپنے مستقبل یعنی اپنی غایت اور مقصودِ اعلی سے بھی بیگانہ اور منقطع رہوں گا، تو نفاذِ شریعت کیوں؟ کا جواب نہ کوئی ترقی یافتہ زندگی ہے نہ کسی فلاحی ریاست یا کسی خاص نوع کے معاشرے کا قیام ہے، نفاذِشریعت کیوں کا واضح جواب ہے اپنی حقیقت اور غایت کو عمل میں لانا! اپنی بندگی کو اپنی زندگی کا واحد تشخص بنانا! اپنی دنیا کو اپنی بندگی کے اظہار کا واحد ظرف بنانا!دنیا میرے لیے کسی اور کام کیلئے نہیں ہے، صرف اس لیے ہے کہ میں اپنی بندگی کو میڈیم (medium)بنا کر اللہ کے امر کے غلبے کا ذریعہ بن کے رہوں۔ اس کے علاوہ نہ میری کوئی زندگی ہے، نہ میرا کوئی تصور ہے، اور نہ ہی میرا کوئی مقصد ہے۔ تو نفاذِ شریعت کیوں کا جواب ذرا دوسری اصطلاحوں میں یہ ہے کہ نفاذِ شریعت یوں کہ اس کے بغیر ہم ایک ایسے وجودی خلا میں چلے جائیں گے جہاں ہمارے لیے خود کو کوئی معنی دینا محال ہو کر رہ جائے گا؛ یعنی اگر ہم اپنی حقیقت اور غایت سے منحرف ہو جائیں تو ہماری معنویت کا پورا نظام باطل ہو کر رہ جائے گا، جو کہ ہماری بندگی پر ہی قائم ہے اور ہماری بندگی ہی سے مشروط ہے۔ تو نفاذِ شریعت کیوں؟ تا کہ میں اپنی بندگی کی حقیقت کو لائقِ اعتبار مظاہر فراہم کر کے اپنے اندر اور اپنے باہر کی دنیا میں فنکشنل (functional)کر سکوں۔ میرے لیے ’’نفاذِ شریعت کیوں ؟‘‘ کا اس سے بڑا قابلِ تسلیم جواب موجود نہیں ہے۔
اس موضوع کا تیسرا سوال فکری طور پر تو شاید نہیں لیکن عملی طور پر اب بہت نزاکت اختیار کر چکا ہے، ہمارے تصورِ دین اور ہمارے طرزِ عمل کی ہر جہت نفاذِ شریعت کیسے ہو؟ کے جواب پر منحصر ہے۔ میری رائے میں نفاذِ شریعت کیسے ہو کا جواب دیتے ہوئے سب سے پہلے یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے دور میں اس وقت جو متداول اور مروج صورتیں ہیں، یا جو نفاذِ شریعت کاPrevailed Formہے، اس کا انکار کیا جائے،نفاذِ شریعت کے نام سے جن جارحانہ جذبات کی تسکین کی جا رہی ہے، جس سنگدلی کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس کم تر درجے کے ذہن کو غالب کیا جا رہا ہے اور زندگی کے بارے میں جن پسماندہ ظواہر کو شریعت کی مراد سمجھ کر پھیلانے کی بزور کوشش کی جا رہی ہے، میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے کوسوں دور ہوں گا اگر ان کا اپنی پوری قوت سے انکار نہ کروں۔ دین کے بارے میں کوئی درست انداز سے نتیجہ خیز کام رسول اللہؓ کے مزاجِ اقدس کو نظر انداز کر کے نہیں ہو سکتا۔ وہ جس کو ہم دین کی روح یا اسلام کی روح کہتے ہیں وہ کوئی تصور نہیں ہے وہ ہماری استخراج کردہ حکمت نہیں ہے وہ رسول اللہؓ کا مزاجِ اقدس ہے!دین کی تمام تر روح آپؓ کے مزاجِ اقدس سے Expressہوتی ہے، اور دین کی روح سے وابستہ رہنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم دین کے ساتھ اپنے تعلق کی ہر جہت کو رسول اللہؓ کے مزاج کے رنگ میں رنگین ہو کر اختیار کریں۔ اسلام میں جہاد بھی جارحانہ جذبے سے نہیں ہوتا، رقت قلبی سے ہوتا ہے!رقت ِقلبی اسلام کے پیدا کیے ہوئے مزاجی اسٹرکچر کا سنگِ بنیاد ہے۔ جس اسلام میں جہاد بھی جارحانہ جذبے سے نہیں ہوتا، رقتِ قلبی سے ہوتا ہے!رقتِ قلبی اسلام کے پیدا کیے ہوئے مزاجی اسٹرکچر کا سنگِ بنیاد ہے۔ جس کا دل نرم نہیں ہے وہ رسول اللہؓ کے مزاجِ اقدس سے قریب ہونے کا ہر راستہ گنوا چکا ہے۔ میرے خیال میں نفاذِ شریعت کیسے کا تقاضا ہے کہ تمام دستیاب معروف ذرائع کو استعمال کیا جائے مگر ان میں Built-inضرر کو ختم کر کے۔ جو لوگ جمہوریت کے حوالے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمہوریت تبدیلی کا ایک معروف ذریعہ ثابت ہوئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ چیز بھی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جہاں بھی جمہوریت نے ایک واحد اور موثر نظامِ حکمرانی کی حیثیت حاصل کی ہے، وہاں سب سے پہلے جو چیز رخصت ہوئی ہے وہ دین اور دینی اقدار ہیں؛ جمہوریت کسی بھی قوم کو اس کی نظریاتی اساس سے ہٹانے والی سب سے کارگر قوت ثابت ہوئی ہے۔ اس ضرر کو نظر انداز کیے بغیر اگر اس کے استعمال کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو وہ ضرور اختیار کرنا چاہیے، لیکن خود جمہوریت سے نظریاتی امیدیں باندھ لینا میرے خیال میں نہ صرف قبل از وقت ہو گا بلکہ شاید خطرناک اورناقابل تلافی بھی ہو۔آج کی گفتگوکاخلاصہ اگرایک فقرے میں کہاجائے تووہ یہ ہوگاکہ رب کائنات کے سامنے اس کاجواب دیئے بغیرہم کوئی جنبش بھی نہیں کرسکتے کہ آپ کوجومنصب عطاکیاگیا،اس کونفاذِ شریعت یعنی مکمل نفاذ قرآن میں کیاکرداراداکیا؟ ������