چوٹیاں کاٹنے کی رواں لہر میں جہاںا سکے پس پشت عناصر پر ہاتھ ڈالنے میں حکومت کی ناکامی واضح ہوگئی ہے وہیں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سماجی تاروپود پر اسکے منفی اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ جبھی کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں بے گناہ راہگیروں کو چوٹیاں کاٹنے والے سمجھ کر انہیں لہولہان کر دیا گیا، جس پر ظاہر ہے کہ سنجیدہ فکر سماجی حلقے سخت پریشان و نادم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ منفی اور مجرمانہ سوچ رکھنے والے عناصر نے خوف ود ہشت کی اس صورتحال کی آڑ لے کر اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کےلئے بال اور داڑھی کاٹے جانے کے دعوے کرکے صورتحال کو مزید بگاڑنے کی کوششیں کرکے سماج کے اندر ایک نئی منفی سوچ کو فروغ دینے کا رجحان پیدا کر دیا ہے۔ پولیس نے کم از کم دو ایسے واقعات میں معاملات درج کئے ہیں جن میں ایک شخص قرضوں کی ادائیگی سے بچنے کی کوشش میں خود کو متاثرہ قرار دینے کے درپے تھا جبکہ ایک اور واقع میں ایک مالک نے اپنے ملازم کی تنخواہ دبانے کی غرض سے اُسے مشکوک چوٹی کٹ گردانتے ہوئے لوگوں کو اسکے خلاف اُکسا کر صورتحال کو بگاڑنے کی کوشش کی ۔ایسے ہی اور بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ کل ملا کر چوٹی کاٹنے کی لہر کی وجہ سے جہاں ایک جانب خوف و دہشت کا ماحول قائم ہوا ہے، وہیںا سکے سماجی اثرات بُری طرح ظاہر ہونے لگے ہیں۔ خاص کر طبقۂ نسوان بُری طرح متاثر ہو رہا ہے، کیونکہ ہر گزرنے والا لمحہ ان پر نفسیاتی دبائو میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے، جس کی وجہ سے متعدد خواتین کے لئے صحت کے مسائل پید اہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کےلئے تنہا گھروں کے اندر رہنا اور تنہا باہر جانا دونوں صورتیں خطرناک امر بن گئی ہیں۔ بھلے ہی خطرات کی حقیقی سطح اُتنی بلند نہ ہولیکن نفسیاتی دبائو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، جو سارے سماج کو متاثر کرنے کا باعث بن رہاہے کیونکہ بھلے ہی ہم تاریخ کے جدید ترین اور ترقی یافتہ دورمیں رہتے ہوں مگر حقیقی طور پر خاتون ِخانہ ابھی بھی ہمارے سماجی ڈھانچے کےلئے ایک بنیاد اور مرکز کی حیثیت رکھتی ہے او اسکے نفسیاتی اثرات سے نہ صرف بچے بلکہ دیگر اہل خانہ بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ ایسے حالات میں حکومت اور سماج کی جانب سے جس نوعیت کے ردعمل کی ضرورت تھی، وہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ حکومت اپنے لاو لشکر سمیت اس خوفناک مہم کے حقائق کا پردہ فاش کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور محکمہ پولیس بظاہر فی الوقت نفسیاتی ہیجان یعنی ہسٹیریا کے ذاویئے سے باہر کچھ سوچنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا مگر اس حوالے سے بھی ٹھوس شواہد و حقائق کی روشنی میں کوئی تصویر سامنے نہیں لائی گئی۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے واقعات ملک کی کئی شمالی ریاستوں کے اندر بھی پیش آئے اور وہاں ہوئی تحقیق و تفتیش کے ساتھ ساتھ مقامی متنوع عناصر اور انکی سرگرمیوں کو زیر نظر لانے کی ضرورت ہے۔ خاص کر ریاست کے طول و عرض میں سرگرم منشیات مافیا کی سرگرمیوں اور انکے عزائم کی تفصیل کے ساتھ تحلیل و تجزیہ کی ضرورت ہے، کیونکہ اب سماج دشمن عناصر نے صورتحال کو اپنے اندا ز سے اپنے مفادات کے استعمال کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ حکومتی اداروں اور سماجی حلقوں کے درمیان تال میل پیدا کرکے ایک ایسی مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جسکی وجہ سے اس مذموم مہم کے پس پردہ عزائم اور اسکے پشتی بان عناصر کی نشاندہی کرکے اسکا سدباب کرنا ممکن ہوسکے۔ البتہ اس عمل میں حکومت کے لئے عوامی اعتبار، جو 100سے زائد واقعات پیش آنے کے بعد ،بُری طرح متزلزل ہو چکا ہے، کی بحالی بنیادی عنصرکی حیثیت رکھتی ہے۔