یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہر سال کی طرح سری نگر میںدربار مو کے ساتھ ہی وادی بھر میں عوامی مسائل کا عفریت اگلے چھ ماہ تک لوگوں کا کچو مر نکالتا رہے گا۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ امسال پیش آئند موسم سر ما کشمیری عوام کے لئے موسمی عذاب اور پر یشانیوں کی کیاکیا سوغات لے کر یہاںقدم رنجہ ہوگا اور کیا کیاگل کھلا کر رخصت ہو گا۔یہ تند وتلخ حقیقت کسی تو ضیح وتشریح کی چنداں محتاج نہیں کہ سرما میں سری نگر جموں شاہراہ بند ر ہے یا اشیائے ضروریہ کی قیمتیں یکایک بڑھ جائیں، ان حالات کی مار ہمیشہ عوام پر پڑتی ہے ۔ اس لئے عیاں راچہ بیاں کے مصداق عام آ دمی کو بخوبی معلوم ہے کہ چلّوں کا مقابلہ کر نے کے لئے اُسے کیاکیا پیشگی ا نتظامات کر نے ہیں ۔ بایں ہمہ اس کے لئے ہر سال خزان نئی اذیتیں اور آفتیں لے کر آ تا ہے اور پھر نئے نئے گھاؤ دے کر پنڈ چھوڑ دیتا ہے ۔اب کی بار چلہ کلاں سے دوماہ پہلے ہی سے یہ لوگ پیش بینی کرنے لگے ہیں کہ عوام الناس کے لئے آنے والا جاڑا کچھ زیادہ ہی شدید ثابت ہوگا کیوںکہ ایک جانب ابھی سے مہنگائی کا گراف بتدریج بڑھتا جارہاہے ، ساگ سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں ، قصاب، پنساری ، نانوائی، گوالے ، پولٹری والے گراں فروشی کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں، گیس اور تیل خاکی کی بلیک مارکیٹنگ عروج پر ہے، گرم ملبوسات منہ مانگے داموں بک رہے ہیں اور روزمرہ زندگی کے دیگر اہم مسائل عوام کے گلے پڑ کران کا جینا دشوار کر رہے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ بجلی کی آنکھ مچولیاں بھی شروع ہوچکی ہیں۔ بلا شبہ گراں بازاری کے بڑھتے ہوئے رحجان سے لوگوں کی قوتِ خرید ہر گزرتے پل کے ساتھ کم ہونا قدرتی امر ہے ۔ ظاہر ہے جب سرکار کی طرف سے گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو تو ان کے وارے نیارے کیوں نہ ہوں؟ اب اس کے سا تھ گزشتہ کچھ دنوں سے بجلی کا غیر اعلانیہ کٹوتی شیڈول آہستہ آہستہ سرمائی مسائل کے بے یقینی اور بے اعتباری کا اشتہار بنتا جارہاہے ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں ٹھنڈ اپنی شدت میں اضافہ کر جا ئے گی، توں توں بجلی کی سپلا ئی پو زیشن بھی نا تسلی بخش ہوتی رہے گی۔ مجموعی طورمہنگائی اور بجلی کی ناگفتہ بہ صورت حال اس بات کی چغلی کھا ر ہے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی عوامی مشکلات اور لوگوں کے سلگتے مسائل نظر انداز کر نا ارباب ِ اقتدار کی فطرت ثانیہ بنی ہوئی ہے ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو عوامی مسائل اتنے گنجلک ہوتے یہ عام آدمی کی حالت اتنی گئی گزری ہوتی ۔ ناقابل تردیدسچ یہ بھی ہے کہ جاڑے میںوادی ٔ کشمیر جب شدید سردیوں کی لپیٹ میں ہوتی ہے تو یہاں ہر فرد بشر کی زندگی پریخ بستہ ہواؤں اور ٹھٹھراہٹ سے جمود اور تعطل کی کیفیت خود بخود طاری ہو جاتی ہے ۔ ان حالات میں بجلی کی کھپت بڑ ھنا قدرتی امرہے مگر یہاں چونکہ ہر معاملے میں الٹی گنگا بہتی ہے، اس لئے سرما کا بگل بجتے ہی سب سے پہلے پاور کی بے وفائی سے تمام لوگوں کا پالا پڑتا ہے۔ اندازہ کیجئے اُدھر چلہ کلان کی سختیا ں لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا رہی ہوں، اِدھر یکایک بجلی دغا دے بیٹھے تو کیا یہ صورت حال جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف نہیں قرارپاتی ؟ بے شک سرما میں بجلی کے نا جائز استعمال یا ضروت سے زیادہ کھپت کے علاوہ ندی نالوں میں سطح آب میں کمی آنے کے سبب برقی رو کی جنریشن اور سپلائی پوزیشن بہت زیادہ متاثر رہتی ہے۔ ظاہر ہے اس سے حالات کی گھمبیر تا متوقع طور بڑھ جاتی ہے۔ اس حوالے سے جہاں محکمہ بجلی کو کلی طور موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتاہے ، وہاںتمام صارفین کو بجلی چور ٹھہرانا بھی قرین انصاف نہیں ۔ بہر صورت آج تک بجلی کے حوالے سے علتوں کی نشاندہی بہت ہوتی رہی ہے مگر کاش اس کا تیر بہدف علا ج تجویز کر نے سے دامن نہ چھڑا یا گیا ہوتا۔ محکمہ بجلی سمیت ہمارے سیاسی اور انتظامی اکابرین کو اس بات کا لا زماً علم ہوناچاہیے کہ بجلی چوری کی وبا کو ئی الگ چیز نہیں بلکہ اس کا سرشتہ بہ حیثیت مجموعی اس بدعنو ان نظم ونسق اوربے ہنگم سیاست کا ری سے جڑا ہواہے جس کی گہر ی جڑ یں یہا ں کی سیاسی وانتظامی تا ریخ میں پیو ست ہیں۔ عوامی حا فظے میں یہ اب بھی یہ بات تروتازہ ہے جب قائد ین انہیں یہ پٹی پڑھاتے پھرتے کہ بجلی لا ئین مین اگر بجلی کھمبے سے سیڑ ھی لگائے تو نیچے سے سیڑ ھی نکا ل دو۔ اس لایعنی طرز سیاست سے جب بجلی کے ناجا ئز استعمال کی عادت لوگو ں کی گھٹی میں پڑی ہو تو انہیں موثرسے موثر دلیل بھی اس غلطی سے بازآنے کی قائل کرسکتی ہے نہ قاعدے قوانین کی گردانیں سدھار سکتی ہیں۔ لہٰذ ہمارے ارباب ِ حل وعقد کا فرض منصبی ہے کہ وہ پاور کرائسس کے کسی مستقل اورحقیقت پسندانہ علا ج ڈھو نڈنے کو وقت کی پہلی ترجیح بنائیں ۔ ریاست میں گزشتہ کئی سال سے پاور پروجیکٹس کی واپسی پر کافی سیاست بازی ہوتی رہی ہے مگر مرکزی حکومت نے ہمیشہ اس مطالبے کی اَن سنی کر دی اور آج بھی یہی صورت حال جوں کی توں باقی ہے۔ عقل وتدبر کا تقاضا ہے کہ ریاستی حکو مت اپنے محدودوسائل کے اندر اندر اس اہم مسئلے کے نپٹارے کے لئے نہ صرف کوئی طویل مدتی روڑ میپ بنائے بلکہ کوئی قلیل مدتی موثر اور کارگر حکمت عملی بھی وضع کرے تاکہ بجلی کے بحران سے ریاستی عوام کو تھوڑی سی گلو خلاصی مل سکے ۔ یہ کام اگر شرطیہ طور ایڈہاک ازم سے عبارت نہ ہو، تب اس کے بہتر اور مستقل ثمرات حا صل ہو سکتے ہیں ۔ اس تعلق سے عوام کی ضروریات، مجبوریاں اور ان کی اجتما عی نفسیا ت کو بھی مدنظر رکھا جاناچاہیے۔ یہ امر واقع بھی ارباب حل وعقد کے زیر نظررہنا چاہیے کہ جس ریا ست کے سیا سی و انتظا می صیغوں میں بد عنوانی کا پیپ اور کورپشن کاسر طان مو جو د رہا ہو، وہا ں کوئی جا دو ئی چھڑی گھما کر بجلی محکمے یا بجلی صارفین کو یک قلم فرض شناس نہیں بنا یا جا سکتاہے، نہ گراںبازاری کے مجرمین کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے ، بلکہ اس صورت حال کے تدارک کے لئے ایک واضح دستورا لعمل درکا رہوتا ہے جو فی الوقت کہیں نظر نہیں آتا ۔ یہاں کورپشن کے خاتمے کے لئے بظا ہر زمانہ ایک ایسے مسیحا کا منتظر ہے جو بدعنوانی کے مہا سا گر میں ڈبکیاں ما رنے والے مگرمچھوں کو اوپر سے نیچے تک قابو کر نے کی کرشماتی قوت سے مالامال ہو۔تب جا کر یہ تو قع کی جا سکتی ہے کہ مہنگائی کا بھوت ہو، عوامی سطح پر بجلی چو ری کی ناپسندیدہ روش ہو ، خزانۂ عامرہ کی بے دریغ لوٹ کھسوٹ ہو ، سرکاری رقومات کو ہتھیانے کا غیر اخلا قی گورکھ دھندا ہو ، ان تمام امراض کاکسی حد تک علاج ومعالجہ ہو گا ۔ بہر کیف اس وقت بڑھتی مہنگائی کو قابو کر نے کے ساتھ ساتھ معرضِ التواء میں ڈالے گئے اور طاق ِنسیاںکی زینت بنائے گئے تمام عوامی مسائل بھر پور اور بروقت حل کاتقاضا کر تے ہیں ۔اس لئے ریاستی حکومت کودربار مو کے بعد اہالیانِ وادی کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے بجائے سرمائی سیکرٹریٹ کو مسائل کے حقیقی ازالے کا پلیٹ فارم بنادینا چاہیے تا کہ لوگوں کو یہ لگے ان کا کوئی والی وارث بھی ہے جو ان کے مسائل کی نہ صرف شنوائی کر تاہے بلکہ انہیں حل کر نے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ۔