اردو کے ادبی رسائل و جرائد کی تاریخ میں ماہنامہ ’’رہنمائے تعلیم ‘‘نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ اس نے نہ صرف ایک صدی سے زائد کی عمر پائی بلکہ اب بھی مسلسل اور بلا ناغہ شائع ہو رہا ہے۔ اس کی اشاعت 113؍ ویں سال میں داخل ہو گئی ہے اور غالباً یہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس کا جون 2017ء کا شمارہ اس کے بانی ایڈیٹر سردار جگت سنگھ اور ان کے بیٹے سردار ہر بھجن سنگھ تھاپر کی خدمات پر مشتمل ہے۔ سردار جگت سنگھ ایک اسکول ٹیچر تھے۔ انھوں نے اسے 1905 میں پنڈی کھیپ (موجودہ پاکستان) سے جاری کیا تھا۔ چونکہ وہ ایک اسکول ٹیچر تھے اس لیے انھوں نے اسی مناسبت سے اس رسالے کا نام ’’رہنمائے تعلیم‘‘رکھا لیکن یہ تصور کرنا کہ یہ صرف تعلیم کے فروغ کے لیے جاری ہوا تھا غلط ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ آگے چل کر یہ ایک ادبی رسالے میں تبدیل ہو گیا اور اس کی سرپرستی تاج الشعرا، فصیح العصر، ناخدائے سخن حضرت نوح ناروی جانشین حضرت داغؔ فرماتے رہے اور اس کے قلمی معاونین میں ابوالفصاحت پنڈت لبھور ام جوش ملسیانی، شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی، طالب چکوالی، بسملؔ الہ آبادی، صوفی غلام مصطفی تبسم، اندر جیت شرما، عشرتؔ لکھنوی، جگن ناتھ آزادؔ، ابر احسنی گنوری، کالی داس گپتا رضاؔ، لالہ رتن پنڈوری، کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ، احتشام اختر، ایس ڈی شوق جالندھریؔ، وشو ناتھ طاؤسؔ اور نرمل سنگھ نرملؔ وغیرہ شامل رہے ہیں۔ حصہ نظم کی ادارت جوش ملسیانی اور حصہ نثر کی ادارت شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی فرماتے رہے۔
عبد المجید کھوکھر لائبریری گوجرانوالا پاکستان کے ڈائرکٹر ضیاء اللہ کھوکھر اپنی کتاب ’’بچوں کی صحافت کے سو سال‘‘ میںلکھتے ہیں:
’’رہنمائے تعلیم کا آغاز 1905 میں پنڈی کھیپ سے ہوا۔ ماسٹر جگت سنگھ نے اس کا پہلا شمارہ انتہائی افلاس و بے سرو سامانی اور کسمپرسی کی حالت میں شائع کیا۔ وسائل کی بے حدکمی تھی اور ان کی تنخواہ صرف بیس روپے ماہوار تھی۔ ماسٹر صاحب تمام مضامین خود لکھتے اور اسکول سے فراغت کے بعد ان کا تمام وقت رسالے کی اشاعت اور فروخت کی نذر ہو جاتا‘‘۔
ماسٹر جگت سنگھ کا گاؤں لاہور سے خاصے فاصلے پر تھا۔ ہر ماہ رسالے کی طباعت کے لیے انھیں لاہور کا سفر کرنا پڑتا۔ دو سال کے بعد ان کا تبادلہ لاہور کے سینٹرل ماڈل ہائی اسکول میں ہو گیا۔ لہٰذا فروری 1907 سے یہ رسالہ لاہور سے نکلنے لگا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماسٹر جگت سنگھ کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے اردو کو اپنے خیالات، احساسات او ررجحانات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس رسالے نے ابتدا میں ہی اہل علم و دانش کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی تھی۔ اس کے مداحوں میں وزیر تعلیم سر فیروز خان نون، مہاراجہ سرکشن پرشاد شادؔ، ہردیال چوپڑہ انسپکٹر مدارس گجرات اور سوڈھی جگت سنگھ انسپکٹر مدارس امرتسر اور علامہ اقبال ؔشامل رہے ہیں۔ یہ رسالہ حکومت پنجاب کو اس قدر پسند آیا کہ اس نے اسے تمام اسکولوں کے لیے منظور کر لیا تھا۔ ایک طرف جہاں شعرا ء و ادباء میں اسے مقبولیت حاصل تھی وہیں دوسری طرف محکمہ تعلیم نے بھی اس کی ہمت افزائی کی۔ راولپنڈی کے ڈویژنل انسپکٹر آف اسکولس خواجہ سجاد حسین نے اس کی کافی مدد کی۔ صوبہ پنجاب کے ڈائرکٹر تعلیمات مسٹر ڈبلیو بیل نے رسالے کو اپنے نام سے معنون کرنے کی اجازت دے دی۔ جے سی گاڈلے ڈائرکٹر تعلیمات نے پنجاب کے تمام اسکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کو رسالہ کی خریداری کے لیے سرکولر بھیجا۔ پنجاب ٹیکسٹ بک کمپنی رسالہ ’’رہنمائے تعلیم ‘‘کے خصوصی نمبروں کی کبھی ہزار کبھی پانچ سو کاپیاں خرید لیتی۔
اس رسالہ کے بارے میں سیفی پریمی لکھتے ہیں:
’’جب رسالہ کو پنڈی کھیپ سے لاہور منتقل کیا گیا تو یہ معمولی لکھائی چھپائی اور معمولی کاغذ کے ساتھ 32 ؍صفحات پر نکلتا تھا۔ جگت سنگھ کو رسالہ سے عشق تھا۔ وہ دو تین بجے رات ہی میں اٹھ کر رسالہ کی ڈاک دیکھنے اور مضامین کا کام شروع کر دیتے تھے۔ ناشتہ کے بعد اسکول جاتے اور شام کو کاتب کے پاس جا کر رسالہ کی کتابت یا پریس میں پروف اور چھپائی وغیرہ کی دیکھ بھال کرتے۔ وہ رسالہ کے تمام کام خودانجام دیتے تھے۔ ٹکٹ چسپاں کرنا، پتے لکھنا، پیکٹ بنانا، پھر ڈاک خانہ جا کر خریداروں اور اعزازی معاونین کو رسالہ روانہ کرنا، ہر کام خود کرتے تھے‘‘۔
امر ناتھ طیشؔ کے مطابق اس رسالہ کے قلمی معاونین کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ جب اس سلسلے میں انھوں نے ماسٹر جگت سنگھ سے بات کی تو انھوں نے کہا:
’’میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ’’ رہنمائے تعلیم‘‘ معاوضہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اگر یہ خود کفیل بھی ہو سکے تو وہی کافی سے زیادہ معاوضہ ہوگا۔ میں جو دن رات اس کے لیے کام کرتا ہوں مجھ کو ذوقِ ادب کی سیرابی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہے تو مضامین نگار کی نذر کرنے کو کچھ کہاں سے لاؤں۔ میں اگر کچھ ہوں تو ایک ادبی مزدور سے زیادہ کچھ نہیں ہوں۔ اس مزدوری میں مجھے وہ لطف حاصل ہوتا ہے کہ لوگ میرے ذوق کو پاگل پن تک کہہ دیتے ہیں اور’’ رہنمائے تعلیم ‘‘کے ضخیم اور خاص نمبروں کو جگت سنگھ کی ادبی عیاشیاں پکارتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ’’ رہنمائے تعلیم ‘‘کے سنہری دور کا سہرا میرے ان دوستوں کے سر ہے جو میری صدق دلی کے لیے رہنمائے تعلیم کو چار چاند لگانے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں اور’’ رہنمائے تعلیم‘‘ جو کچھ ہے ان دوستوں کی وجہ سے ہی ہے‘‘۔
ماسٹر جگت سنگھ اس رسالہ کے ذریعے بچوں کی تعلیمی و تہذیبی تربیت بھی کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے اگست 1922 ء سے رسالے میں گوشہ اطفال کے نام سے ضمیمہ شائع کرنا شروع کر دیا جو 16؍ صفحات پر مشتمل ہوتا۔ رسالے کا پہلا شمارہ 32 ؍صفحات پر مشتمل تھا۔ پھر 90؍صفحات ہو گئے اور بعد میں اس کے صفحات کی تعداد 200 ؍ہو گئی تھی۔ بعض شماروں کے آخر میں گورمکھی اور ہندی میں بھی مضامین ہیں۔ گویا یہ کبھی کبھی سہ لسانی بھی شائع ہوا کرتا تھا۔
’’رہنمائے تعلیم‘‘ 1947 تک لاہور سے نکلتا رہا۔ تقسیم ملک کے وقت ماسٹر جگت سنگھ ہجرت کرکے ہندوستان آگئے اور انھوں نے دہلی کو اپنا وطن ثانی بنایا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تقسیم کے پرآشوب ہنگامے میں بھی اس کا ایک بھی شمارہ ناغہ نہیں ہوا۔ لاہور میں ان کا چار منزلہ نہایت شاندار مکان تھا جس میں تیس کمرے تھے اور ساٹھ بستر مہمانوں کے لیے وقف تھے۔ وہ 1938ء میں مدرسی کے پیشے سے ریٹائر ہوئے اور ماسٹر کے لقب سے مشہور ہوئے لیکن جب وہ دہلی آئے تو یہاں بے سروسامانی کا عالم تھا اور ان کی رہائش کا کوئی بند و بست نہیں تھا لیکن انھیں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رہائش کا بند و بست کرنے سے زیادہ رسالے کو جاری رکھنے کی فکر تھی۔ لہٰذا انھوں نے کسی طرح اس کے تسلسل کو قائم رکھا اور اگست اور ستمبر 1947 ء کا مشترکہ شمارہ شائع کیا۔ دہلی آنے کے بعد بھی ان کی دیوانگی کم نہیں ہوئی اور وہ پابندی کے ساتھ اسے نکالتے رہے۔ ماسٹر جگت سنگھ کا انتقال 1962 ء میں ہوا۔
اس کے بعد ان کے لائق و فائق فرزند سردار ہر بھجن سنگھ تھاپر نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی اور اسے اپنے والد کا ورثہ سمجھ کر نکالتے رہے۔ انھوں نے بھی اس کے سلسلہ اشاعت میں کوئی رخنہ نہیں آنے دیا۔ باپ کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے انھوں نے’’ رہنمائے تعلیم‘‘ کی اشاعت کو صدی سال میں داخل کر دیا۔ اس طرح انھوں نے ستمبر 2005 ء میں اس کا صدی نمبر نکالا۔ گو یا وہ 43؍ برسوں تک محض اپنے جوش جنوں کے سہارے اسے نکالتے رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے انھیں صدی سال تک اس رسالے کو پہنچانے کے لیے ہی زندہ رکھا تھا۔ صدی نمبر نکالنے کے بعد سات جون 2006 ء کو تھاپر صاحب اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ تھاپر صاحب کی خواہش تھی کہ’’ رہنمائے تعلیم‘‘ کا صد سالہ جشن دھوم دھام سے منایا جائے۔ اس سلسلے میں بزرگ قلم کار اور محب اردو رام پرکاش کپور نے اردو تنظیموں، اداروں اور شخصیات سے اپیل بھی کی تھی لیکن کسی نے دست تعاون نہیں بڑھایا۔ صدی تقریب کے انعقاد کی راہ میں اہل اردو کی بے اعتنائی حائل رہی اور بالآخر تھاپر صاحب نے مایوسی کے عالم میں 396؍ صفحات پر مشتمل صدی نمبر شائع کر دیا اور اپنے طور پر ہی اسے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔
صدی شمارہ سے قبل ’’رہنمائے تعلیم ‘‘نے دیگر متعدد اور قابل قدر خصوصی شمارے شائع کیے تھے۔ اس کے خصوصی نمبر خاصے کی چیز ہوا کرتے تھے۔ ستمبر 1914ء میں اس کا ڈسٹرکٹ انسپکٹر نمبر شائع ہوا تھا۔ 270 صفحات پر مشتمل اس نمبر میں 22؍ ڈسٹرکٹ انسپکٹروں نے اپنے اپنے اضلاع کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیا تھا۔ 1931ء میں اس کا جوبلی نمبر شائع ہوا جس میں تعلیم، ادب، زراعت اور صنعت و تجارت کے موضوعات پر 148؍ مضامین تھے۔ 728؍ صفحات پر مشتمل اس ضخیم نمبر کی قیمت صرف ڈھائی روپے تھی۔ اس میں نظم و نثر کے بہترین نمونے یکجا کیے گئے تھے۔ یہ ایک ہمہ گیر نمبر تھا جس کے قلمی معاونین میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سبھی شامل تھے۔ اس کے ابتدائی آٹھ صفحات سرخ اور سبز روشنائی سے طبع ہوئے تھے۔ اس میں پنجاب کے سررشتہ تعلیم سرتاج ملک فیروز خان نون نے خاص طور پر اپنا پیغام مع تصویر دیا تھا۔ اس کے ابتدائی صفحات میں نوح ؔناروی کی ایک طویل نظم شائع ہوئی تھی۔ جوش ؔملسیانی نے چار مصرعوں میں اس کا قطع تاریخ کہا تھا۔
جنوری فروری 1934ء کا شمارہ فسانہ نمبر تھا۔ 470؍صفحات پر مشتمل اس خاص شمارے کو شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی نے مرتب کیا تھا۔ یہ شمارہ نوحؔ ناروی کی زیر نگرانی شائع ہوا تھا۔ اس کی قیمت دو روپے تھی۔ اس میں 109 افسانے تھے۔ غزلیں اور نظمیں بھی تھیں۔ اس کے قلمی معاونین میں شوکت تھانوی، اشفاق حسین، کوثر چاند پوری، عرش ملسیانی، منشی پریم چند، مظہر انصاری، مرزا یگانہ چنگیزی، کرپال سنگھ بیدار، اندرجیت شرما، پنڈت شیو ناتھ کوشک، شاکر گوالیاری اور امین سلونوی وغیرہ شامل رہے ہیں۔اس کے علاوہ 1935ء میں ریڈ کراس نمبر، 1937ء میں تعلیم جدید نمبر، 1939 ء میں کگھڑ کانفرنس نمبر، 1948ء میں گاندھی نمبر حصہ اول اور اکتوبر میں گاندھی نمبر حصہ دوم، جنوری 1950 ء میں انسانیت نمبر، جنوری 1951 ء میں معلوماتی نمبر، اکتوبر 1951ء میں تعلیمی کانفرنس ضلع گورداس پور نمبر، 1954 ء میں فلم نمبر اور 1955ء میں ’’رہنمائے تعلیم ‘‘کا کشمیر نمبر شائع ہوا تھا۔
رسالہ’’ رہنمائے تعلیم ‘‘کی ایک شاندار روایت رہی ہے جس کا اعتراف اردو کے انتہائی جید قلم کاروں، شاعروں اور ادیبوں نے کیا ہے جن میں ڈاکٹر محمد اقبال ، صوفی غلام مصطفی تبسم،ناخدائے سخن نوحؔ ناروی، جوش ؔملسیانی، ملا رموزی، عبد الرؤف عشرتؔ اور بیشتر وزراء اور سیاستداں نیز انگریزی روز نامہ مسلم آؤٹ لک لاہور، زمانہ کانپور، زمیندار لاہور، معارف ، خواجہ حسن نظامی اور دیگر بے شمار ادباء شعرا ء علمائو فضلاء شامل ہیں۔ مجاہد آزادی اور ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی 1948 ء میں اس رسالہ کی تعریف و ستائش کی تھی۔ماسٹر جگت سنگھ نے اگست 1948 ء میں شائع گاندھی نمبر میں بڑا دلسوز اداریہ تحریر کیا ہے۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’تقسیم ملک نے ایسے انقلاب دکھائے کہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ لاکھوں بندگان خدا بے سروسامانی کے عالم میں بے وطن ہو گئے۔ ایسے حالات ہوتے ہوئے بھی میں نے فیصلہ کیا کہ گاندھی جی کی یاد میں ’’رہنمائے تعلیم ‘‘کا ایک خاص نمبر شائع کرؤں۔ سرمایہ لٹ چکا، جائداد جاتی رہی، لائبریری نہ رہی، پڑھنے کو کتاب تک نہیں، اپنے رسالے کی فائل نہیں۔ 45 ؍برس جو خدمت کی اس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ میرا بڑھاپا سر پر ہے۔ عزیزی راجندر سنگھ کی ہولناک علالت، زیرباری سے دبی ہوئی کمر، ہمت سرے سے مفقود۔ ایسے میں یہ ارادہ ایک جنون نہیں تو کیا ہے۔ سوچا تجارت کے دن تو جاتے رہے۔ اُمید کا دامن تو کبھی چھوڑا ہی نہیں۔ عزیزی ہربھجن سنگھ کو دیکھتا ہوں تو سینے پر سانپ لوٹ جاتا ہے۔ ناز و نعم میں پلا ہوا لخت جگر دھوپ میں مارا مارا پھرتا ہے۔ کبھی کاتب کی تلاش ہے، کبھی مضمون نگاروں کی ناز برداریاں، کبھی مطبع کا رُخ ہے، کبھی اشتہار کے لیے تگ و دو۔ زندگی ایک جنگ بن گئی ہے۔ اس بیٹے کی ہمت کے صدقے کہ اس نے میری ہمت بندھائی۔ مضمون نگاروں سے مراسلت کا سلسلہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔ اسی عالم میں اپنے ارادے کو سنبھالا، مضبوط کیا اور عمل میں لانے کے لیے کمربستہ ہو گیا‘‘۔
روزنامہ’’ قومی آواز‘‘ دہلی کے سابق کاتب ابو نعمان 1968 ء میں سردار ہربھجن سنگھ تھاپر کے رابطے میں آئے۔ اس وقت یہ رسالہ تراہا بہرام خاں، دریاگنج سے نکل رہا تھا۔ بعد میں یہ روہنی چلا گیا۔ ابو نعمان اسی سال سے اس رسالے کی کتابت کرنے لگے۔ غالباً 1992ء میں ان کی کوششوں سے اس کی کمپیوٹر کتابت ہونے لگی لیکن تھاپر صاحب نے انھیں اپنی خدمات سے فارغ نہیں کیا بلکہ کمپوزنگ کرانے کی ذمہ داری ان کو سونپ دی۔ وہ رات میں نو بجے قومی آواز سے ڈیوٹی ختم کرکے تھاپر صاحب کے گھر یا کمپوٹر آپریٹر کے پاس جاتے اور اس طرح وہ اسے تیار کراتے۔ تھاپر صاحب کے خاندان نے ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ تھاپر صاحب کے انتقال کے بعد جب ان کے بیٹوں نے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا تو ابو نعمان سامنے آگئے۔ انھوں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے نکالتے رہے۔ انھوں نے 2007 ء میں ایک قانونی مجبوری کے تحت اس کے نام کے ساتھ جدید کا لاحقہ لگایا اور اب اسے ’’رہنمائے تعلیم جدید‘‘ کے نام سے پابندی کے ساتھ اور بلا ناغہ نکال رہے ہیں۔ ماسٹر جگت سنگھ کی مانند وہ بھی اس کا تمام کام خود کرتے ہیں۔
1973ء میں ابر احسنی گنوری کے انتقال کے بعد اس کے عملی مدیر تسخیر فہمی بنائے گئے۔ جب کہ معاون مدیر معروف شاعر قمر سنبھلی کو مقرر کیا گیا۔ دونوں تقریباً ایک ساتھ اس رسالے سے وابستہ ہوئے۔ قمر سنبھلی آج بھی اس کے معاون مدیر ہیں۔ تسخیر فہمی کا انتقال ہو چکا ہے۔ عبد الکریم سالار اقراء ایجوکیشنل سوسائٹی مالیگاؤں کے منور پیر بھائی ایک عرصے تک اس کی مالی معاونت کرتے رہے۔ سرپرست کے طور پر اب بھی ان کا نام شائع ہوتا ہے۔ جب کہ تقریباً پانچ سال سے اردو کے عاشقِ صادق اور ادباء و شعرا ء کے سچے خادم کے ایل نارنگ ساقی اس کے مدیر اعلی اعزازی ہیں۔ وہ اس کی اشاعت میں مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بے حد قلق ہے کہ اس تاریخی رسالے کا جشن صد سالہ نہیں منایا جا سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اگر اس رسالے اور اس کے ایڈیٹر سے پہلے سے واقف ہوتے تو اس کی صد سالہ تقریب کا شاندار اہتمام کرواتے۔
……………………….
[email protected],9818195929