وہ آج بھی توی کے کِنارے اُسکا انتِظار کر رہی ہے۔ مگر اُسکا انتِظار طویل سے طویل ترہوتا جا رہا ہے۔
اُنکی محبت توی کے کِناروں پر پھلی پھولی اور پروان چڑھی ۔ تبسُم آرا ایک دِن حسب معمول توی کِنارے ٹہل رہی تھی کہ شہزاد علی کی نظر وں کی گھایٔل ہو گئ ۔ شہزاد کو بھی یہ لڑکی بہت بھلی لگی۔نزدیک آکر اُنہوں نے علیک سلیک کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ پہچان کرلی۔
تبسُم جموں شہر کے ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی اور یونیورسٹی میں ایم۔ اے کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔شہزادعلی کشمیر کی خوبصورت وادی کا ایک ایسا گُلاب ہے جو سردیوں میں اپنے والدین کے ساتھ جموں آتا رہتا ہے۔ وہ بھی کشمیر یونیورسٹی میں اردو کے مضمون میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کر رہا ہے۔اُسکے والدین اچھے عہدوںپر فایٔز ہیں اور اُنکا گھر خاصا متمَوَّل گھر ہے۔
اِن دونوں کا مِلنا ایک دوسرے کے لییٔ لازم و ملزوم بنتا گیا ۔ کبھی باہو باغ میں کبھی ریلوے سٹیشن پر کبھی نہر کے کِنارے کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ اسطرح سے انکے روابط پروان چڑھتے گئے اور اُنکی یہ ملاقاتیں محبت میں تبدیل ہو گئ۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گُذانے اور ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائیں۔ چاندنی راتوں میں وہ یونیورسٹی کی کھُلی سڑکوں پر چہل قدمی کر رہے تھے۔
’’ تُم میرا ساتھ کبھی بھی نہ چھوڑنا ورنہ میں زندہ نہ رہ سکوں گی ‘‘
تبسُم نے جذباتی اور بھرائی ہوئی آواز میں شہزاد کا ہاتھ تھام کراپنے جذبات کا اظہار کیا۔
’’ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا تمہارے بغیر میری زندگی ادھوری رہے گی ایسا تُم سوچنا بھی نہیں، میں تُمہارے بغیر مر جاؤں گا‘‘
شہزاد نے پیار سے جواب دِیا۔
’’مریں تُمہارے دُشمن‘‘ تبسُم نے اُسکے منہُ پر پیار سے ہاتھ رکھ دیا۔
وہ دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اپنی باتیں ،والدین کی باتیں، آنے والے کَل کی باتیں۔
’’میرے والدین توی کِنارے والے محلے میں رہتے ہیں میرا والِد محکمہ مال میں تحصیلدار تھا اب رِٹیأیر ہو چکا ہے میری ماں سکول ٹیچر رہ چکی ہے۔ ایک بھائی ہے جو مجھ سے چھوٹا ہے اور بی اے کر رہا ہے ‘‘تبسُم آرا شہزاد کو اپنے گھر سے متعارف کرا رہی تھی۔
’’میرے والد ایک تجارت پیشہ آدمی ہیں اور ہمارے میوے کے باغات ہیں ماں گھریلو عورت ہے۔ ایک بہن بھی ہے جو تعلیم حاصل کررہی ہے۔‘‘
شہزاد علی نے بھی اپنے والدین کے بارے میں بتایا۔
دونوں زندگی کے تانے بانے بُن رہے تھے
’’ تُمہارے والدین تو آجکل جموں میں ہی ہیں، کیوں نہ تُم انہیں ہمارے گھر آنے کے لئے کہو، تاکہ میرے ماں باپ سے مِل کر رشتہ کی بات طے کرلیں، یہ ٹھیک رہے گا۔ اسطرح سے مِلنا بھی اچھا نہیں ہے۔ اور اسطرح سے اُنکی آج کی یہ ملاقات انجام کو پہنچی۔
دونوں سُلجھے ہوے ٔ نوجوان تھے اور محبت کے پاک جذبے سے سرشاد۔ ان میں کھوٹ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
تبسُم نے اپنے والدین کو ساری کہانی سُنا دی اور شہزاد سے اپنی ملاقاتوںکا حال بھی صاف صاف بیان کیا وہ کُچھ چھُپانا نہیں چاہتی تھی ۔اسی طرح شہزاد نے بھی اپنی پسند ماں باپ کے سامنے رکھ دی۔
کُچھ دِنوں کے بعد دونوں کے والدین کی ملاقات کا پروگرام بنا۔
’’ دیکھیٔ ملک صاحب میں زیادہ گُھما پھرا کر بات نہیں کرنا چاہتا، سیدھے مطلب کی بات کروں گا۔ میں ایک تجارت پیشہ شخص ہوں ۔ہمارے لئے رشتوں کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی آپ کو ہو گی مگر یہ تقدیرکے معاملے ہیں۔ نہ ہی میرا لڑکا آپکی لڑکی کو پسندکرتا اور نہ ہی دونوں اس رشتے کے لئے رضامند ہوئے، دونوں کی آپس میں رضا مندی ہے، دونوں پڑھے لکھے ہیں، اس لئے ہمیں اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہے۔ ہاں اتنا ضروٗر کہوں گاکہ آپ کی لڑکی کو ہمارے گھر میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اُسکو اپنی بیٹی بنا کر رکھیں گے۔‘‘
شہزاد کے والدرمضان وانی نے تبسُم کے والِدفیروز ملک سے کے سامنے ملتجیانہ انداز میں اپنی بات رکھی۔
آپکی بات مجھے ٹھیک لگی اور تبسُم نے ہمیں آپکے بارے میں سب کُچھ بتادیا ہے ۔ ہم پہلے خُدا پر پھر آپ پر بھروسہ کرکے یہ رشتہ منظور کرتے ہیںاوربچوں کی پڑھائی ختُم ہوتے ہی شادی کے لئے دِن مقرر کریں گے۔ فیروز ملک نے بھی کسی عذر کے بغیر ہاں کردی۔
اسطرح سے یہ ملاقات ایک اچھے ماحول میں ختُم ہوئی۔
شہزاد سردیوں کی چھُٹیاں ختُم ہوتے ہی سرینگر چلا گیا اور حسب معمول اپنی پڑھائی میں مشغول ہو گیا۔ اُسے تبسُم کی یاد آتی تو وہ ٹیلیفون پر آپس میں باتیں کرتے رہتے اور اسطرح یہ سلسلہ چلتا رہا۔ دونون بڑے خوش تھے۔
پھر اچانک شہزادعلی کا فون آنا بند ہوگیا۔ تبسُم نے بہت کوشش کی مگر کُچھ پتہ نہ چل سکا۔شہزاد کی اس اچانک خاموشی سے تبسُم بہت پریشان ہوئی۔ اُسے یقین تھا کی شہزاد اُسے دھوکا نہیں دے سکتا وہ ایسا لڑکا نہیں ہے۔ وہ ماں کے استفتسار پر ماں کو بھی سمجھاتی رہی مگرکون اُسکی باتوں پر یقین کرتا؟ اُس کے والدین کو لگا کہ شہزاد نے اُسے دھوکا دے دیا ہے اور اُنکی بیٹی کو تڑپتا چھوڑ گیا ہے۔
تبسُم اس پریشانی سے بُری طرح مُتاثر ہو چکی تھی۔ اُسکی صحت دِن بدِن گِرتی چلی جارہی تھی اور اُسکا گُلابی چہرہ زرد ہوتا جا رہا تھا۔ڈاکٹر اُسے دوائیوں پے دوائیاں دے رہے تھے مگر سارا عمل بے سود۔ کوئی فرق نہیں ہورہا تھا۔
اچانک اُسے ایک دِن یونیورسٹی میں سُلیمان مِل گیا ۔سُلیمان شہزاد علی کا دوست اور ہم جماعت بھی تھا اور وہ کسی کام کے سلسلے میں جموں آیا ہوا تھا۔ اُسے شہزاد اور تبسُم کی محبت کا سارا اَحوال معلوم تھا ۔ سلیمان نے دیکھا کہ تبسُم کے چہرے سے وہ کھل کھلاتی رونق ختُم ہو چکی ہے جو کبھی اسے حسین بناتی تھی۔ وہ تبسُم سے مِلا ۔
’’سلمان تُم بڑے بے وفا ہو، تمہارا دوست بھی بے وفا نِکلا۔ مجھے بیچ منجھدار میں چھوڑ کر چلا گیا۔ کہاں ہے وہ ۔۔۔ ؟تُم سارے مردایسے ہی ہو۔۔ تُم کمینے ہو۔۔۔ تُم۔۔۔بد اخلاق ۔۔ تُم بے درد ہو ۔۔ تُم۔۔۔۔ تُم!‘‘تبسُم نے غصے میں اپنے من کا ساراغبار اُنڈیل دِیا اور وہ تقریباً بے ہوش ہونے لگی تھی۔
سلمان نے اُسے سہارا دیا اور نزدیک کے کیفے میں لے گیا۔ طبیعت تھوڑی بحال ہوئی تو وہ پھر بھڑک اٹھی۔ آخر تُم کُچھ بولتے کیوں نہیں کہاں ہے وہ تُمہارا۔۔۔۔تُمہارا جانی دوست !میری تباہی کا ذمہ دار دوست؟ کہاں ہے؟ کہاں ہے ؟ تُم بولتے کیوں نہیں ؟ کُچھ تو بولو!اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ آخر کار سلمان کے صبر کا بندھ ٹوٹ گیا اور وہ بھی رونے لگا۔
’’ تبسُم کیا بتاؤں شہزاد ایک دِن یونیورسٹی جا رہا تھا کہ سڑک پر لوگوں کا دھرنا تھا، لوگ زبردست احتجاج کررہے تھے۔ پولیس اور نیم فوجی انہیں روکنے کی سخت کوشش کررہے تھے کہ اتنے میں تصادم ہوا۔ ایک طرف سے پتھر برس رہے تھے تو دوسری جانب پیلٹ گن چلے۔ بھگڈر مچ گئی تو شہزاد بھی بھاگنے لگا۔ اتنے میں کچھ پیلٹ اُسکو بھی لگے اور وہ زخمی ہوکر گر گیا۔ہسپتال پُہنچاتے پہنچاتے وہ بے ہوش ہو گیا۔ ہوش آنے پر پتہ چلا کہ پیلٹ لگنے سے اُسکی دونوں آنکھیں بے کار ہو گئی ہیں اور وہ …اندھا ہوگیا ہے۔ اب وہ تُم کو کبھی دیکھ نہیں سکے گا۔‘‘کہتے کہتے سلمان کی ہچکی بندھ گئی ۔
تبسُم کی چیخ نکل گئی ’’ اب میں کس کے سہارے زندگی گُذاروں گی ‘‘ اور وہ زور زور سے رونے لگی ۔ آس پاس کے لڑکے لڑکیاں جمع ہوئے اور وہ تبسُم کو دِلاسا دینے لگے ۔ مگر کوئی کیا جانے کہ اُسکی دُنیا اُجڑ چکی تھی۔
’’افسوس تو اس بات کا ہے کہ شہزاد زِندہ ہوتے ہوے ٔ بھی زندگی کالطف نہیں اُٹھا سکتا اور اُس نے تمہیں کچھ بتانے کے لئے گھر والوں کو منع کر رکھا تھا ۔تمہارا شہزاد بے وفا نہیں وہ تمہیں اب بھی یاد کرتا ہے وہ تمہیں کبھی بھی نہیں بھولا ‘‘ سلمان نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
تبسم کی طبیعت تھوڑی بہت سنبھل گئ تو اُسے سلمان گھر لے آیا۔ سلمان کودیکھتے ہی تبسُم کے والدین کا ماتھا ٹھنکا ۔ تبسُم آتے ہی پھر بے سدھ بستر پر ڈھیر ہوگئی۔
’’کیا بات ہے بیٹا سلمان تُم کب آے ٔ سرینگر سے اور یہ تبسُم کو کیا ہو گیا ۔ شہزاد کیسا ہے ‘‘ ایک ہی سانس میں انہوں نے کئ سوالات داغ دیئے۔‘‘
آخر کار سلمان نے ملک صاحب کو ساری کہانی سُنا ڈالی ۔
ملک اور اُسکی بیوی سکتے میں آگے ٔ۔’’ اِتنا برا حادثہ ہو گیا اور ہمیں پتہ نہیں چلا یہ کیا بات ہوئی‘‘ ملک صاحب نے پوچھا؟
’’ در اصل وہاں حالات بہت خراب ہیں اور کرفیو میں آیا جایا بھی نہیں جا سکتا اور شہزاد نے منع کر رکھا تھا کہ کسی سے کُچھ نہ کہا جاے ٔ۔‘‘
’’ یہ اللہ کی مرضی ہے چاچا۔ اب آپ تبسُم کو سمجھائیں اور اُس کو سنبھالیں۔ اللہ کی مرضی کے سامنے کسی کا زور نہیں چلتا۔ اب اُسے شہزاد کو بھولنا ہی ہو گا‘‘۔
آپ اُسکی شادی کہیں اور طے کریں یہی بہتر رہے گا ورنہ تبسُم کی زندگی برباد ہو جاے ٔ گی۔‘‘
’’یہ نہیں ہو سکتا محبت ایک بار کی جاتی ہے بار بار نہیں۔ میں اور کہیں شادی نہیں کر سکتی‘‘ تبسُم چیخ پڑی۔
بہت علاج کے بعد بھی تبسُم کی طبیعت سنبھل نہ سکی ۔وہ آج بھی توی کے کِنارے گول پتھروں سے کھیلتی رہتی ہے ۔ چھوٹے چھوٹے ریت کے گھروندھے بنا بنا کر توڑتی ہے اور شہزاد شہزاد پکارتی پاگلوں کی طرح بھٹکتی پھرتی ہے۔۔۔۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اُسکا دماغی توازُن صدمے سے بگڑ چکا ہے۔۔۔۔۔۔!
٭٭٭٭
معرفت پیر پنچال ادبی فورم بانہال7298289632