پی ایس اے کا قانون ۱۹۷۸میں شیخ عبداللہ نے بنایا تھا۔ اس کے تحت کسی بھی آدمی کو بغیر کسی عدالتی کاروائی کے دو سال تک جیل میںرکھا جا سکتا تھا۔ اس وقت کے دو اسمبلی ممبران سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون نے شدت سے اس کی مخالفت کی تھی مگر شیخ محمد عبداللہ نے یہ کہہ کر اس کو پاس کیا کہ یہ قانون جنگلوں کی حفاظت کے لئے بنایاگیا اور اس کا اطلاق جنگل سمگلروں پرعائد کیا جائے گا۔مگر وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کا نفاذ جنگل سمگلروں کے بجائے حریف سیاسی جماعتوں پر عمل میں لایا گیا۔سب سے پہلے اس کا اطلاق ایک پرائیویٹ بس ڈرائیور غلا م نبی لون پر ہوا۔غلام نبی لون ’’پرائیویٹ بس ڈرائیورس یونین ‘‘کے صدر تھے۔انھوں نے ۱۹۷۷ کے الیکشن میں نیشنل کانفرنس کے حریف جنتادل کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔تب سے آج تک حکمران جماعتوں نے اس قانون کا بے دریغ استعمال کیااور اس کا نشانہ زیادہ جماعت اسلامی ،تحریک حریت اور دوسرے آزادی پسندجماعتیں اور افرادبنے ۔جماعت کے اولین نشانہ بننے والے کارکنان میں جو اس کے نشانہ بنے ان میں سید علی گیلانی،محمد اشرف صحرائی ،قاری سیف الدین ،حکیم غلام نبی وغیرہ شامل ہیں۔تب سے آج تک یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے ۔ چاہئے نیشنل کانفرنس کی حکومت تھی یا پی ڈی پی کانگریس کی مخلوط سرکار تھی یا کانگریس نیشنل کانفرنس کی مخلوط سرکارتھی یا آج کی پی ڈی پی بی جے پی سرکار ۔ہر ایک جماعت نے ایک دوسرے کو اس کے اطلاق میں تمام ریکارڈ مات کر دئے ۔سیاسی حریف جماعتوں کے افراد ہوں ،جوان ہوں ، ۹۰سال کے بوڑھے ہوں ،معذور ہوں ،عورتیں ہوں یا کم سن بچے غرض سب لوگوں پر یہ تلوار لٹکتی رہی۔حد تو یہ ہے کہ ایک دفعہ نہیں سات سات دفعہ بھی ایک ہی فرد پر اس کا اطلاق عمل لایا گیا۔بہت سارے افراد ایسے ہیں جن کو same groundsکے بنیاد پر تین تین چار چار دفعہ پی ایس اے عائد کیا گیااور حد تو یہ ہے قانون کی اتنی بالادستی یہاں دیکھنے کو مل رہی ہے کہ عدالت کسی فرد کا سیفٹی ایکٹ ختم کرکے رہائی کا حکم صادر کرتی ہے تو دوسری طرف قانون کے رکھوالے قانون کی دھجیاں اڑاکر اسی فرد کو پھر سے پابند سلاسل کرتی ہے ۔
۲۰۱۰ء میں جب نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ حکومت نے بے تحاشا اس کا استعمال کیاتو دنیا بھر کے مختلف انجمنوں جیسے ایمنسٹی انٹر نیشنل ادارے نے اس کی مخالفت کی۔ایمنسٹی کے احتجاج ہی کی وجہ سے بہت سارے معصوم اور کم بچوں کو رہائی ملی ۔بی جے پی لیڈر اور ہندوستان کے مشہور قانون دان رام جیٹ ملانی نے اس حکومت کو ’’نازی حکومت ‘‘ قرار دیا۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سالوں میں حکومت نے ۱۰۵۹ ؍افراد کو پی ایس اے کے تحت بند کیا ہے ۔سب سے زیادہ تعداد۲۰۱۶ میں ۸۱۲؍ افراد کو اس کالے قانون کے تحت پابند سلاسل رکھا گیا۔حالانکہ ان افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو ظاہر کئے جاتے ہیں ۔۲۰۱۱ء میںایمنسٹی انٹر نیشنل نے اس کالے قانون کو Lawless Lawبتایا ہے۔انھوں نے اس قانون کی منسوخی کا بھی مطالبہ کیا ہے حالانکہ یہ اصل مسلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسلہ کی جڑ ہے اور اصل مسئلہ مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت ہے ۔اگر اس مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے تو اس صورت میںاس مسلے سے جڑے دوسرے مسائل بھی خود بخود حل ہو جائیں گے ۔
پچھلے سال سے آج تک نہ جانے کتنے افراد کو اس کالے قانون کے تحت پابند سلاسل رکھا گیا ہے جن میں چھوٹے معصوم بچوں ،عورتوں سے لے کر ۹۰؍سال کی عمر تک کے بوڑھے بھی شامل ہیں ،جن کے بارے میں وقتاً فوقتاً اخبارات میں رپورٹس بھی شائع ہوتے رہے ۔حال ہی میں آسیہ اندرابی اور فہمیدہ جی کواسی قانون کے تحت جموں کی جیلوں میں رکھا گیا ۔جموں سے انھیں سرینگر منتقل کیا گیا۔یہاںاُن کی طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اسپتال میں داخل کیا گیا۔میڈیا میں قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ شاید اب انھیں رہا کیا جائے گا لیکن جوں ہی انھیں اسپتال سے رخصت کیا گیا،اُسی دم ان بیمار خواتین قیدیوں کو پھر سے پی ایس اے کے تحت جموں جیل منتقل کیا گیا۔حالانکہ آسیہ جی صنف نازک کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ بھی ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا بھی ہیں جیسا کہ مختلف اخبارات کے رپورٹس سے پتہ چلا۔جوان قیدیوں میںسے کس کس کا نام لیں گے۔سبھی کا نام لینا یہاں ناممکن ہے اور سب کے بارے میں تحریر کرنا بھی مشکل ہے۔اس کے لئے تمام شائع ہوئے اخبارات کو دیکھ بھال کر پی ایس اے قیدیوں کے حوالے سے اعداد وشمار اور نام اور کوائف جمع کر نا فی زماننا راقم کے لئے مشکل ہے۔ اس لئے اس کالم میں صرف چند عمر رسیدہ افراد کے بارے میں لب کشائی پر اکتفا کر تاہوںجو آج بھی اسی کالے قانوں کے تحت مختلف قیدوں میں بند پڑے ہیں ۔ان کے بارے وقتاً وفوقتاً اخبارات میں رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں ۔ ان افراد میں شیخ محمد یوسف ،محمد سبحان وانی ،غلام حسن گلورہ ،علی محمد،غلام محمدخان سوپوری،محمد شعبان ڈار اور نہ جانے کتنے افراد ایسے عمر کے ہوں گے جو ۷۰ یا ۸۰ سال کے درمیان میں ہوں گے۔شیخ محمد یوسف کو چھوتھے پی ایس اے کے تحت کل کپواڑہ بھیج دیا گیا ۔دل پر عجیب سی کیفیت طاری ہورہی تھی جب شوشل میڈیا پران کی وہ تصویر دیکھنے کو ملی جب انھیں کپوارہ جیل لے جانے کے لئے پولیس گاڑی کی طرف لے جارہے تھے اور وہ لاٹھی کا سہارا لے کر چل رہاتھا۔اسی طرح محمد سبحان وانی کے حوالے سے بھی اخبارات میں کہیں دفعہ پڑھنے کو ملا کہ وہ ۸۰؍ سال کا بوڑھا ہے او ۲۰۱۶ء سے تقریباًتیسری یا چوتھی مر تبہ پی ایس اے کے تحت اس وقت جموں کے جیل میں پابند سلاسل ہیں۔یہی حال غلام محمد خان سوپوری کا بھی ہے جس کا پی ایس اے کئی مرتبہ کالعدم ہوا ہے مگر دوبارہ اسی قانون کا نفاذ عمل میں لاکر ان کو بھی جموں کی جیل بند رکھا گیا۔حد تو یہ ہے کہ اس بار جس الزام کے تحت انھیں بند کیا گیا،اس دن وہ جموں کے جیل میں نظر بند تھے۔اس سے کم کچھ مختلف حالات محمد شعبان ڈار کے نہیں ہیں جن کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی ۔ بیٹی کو اُمید تھی کہ والد کا پی ایس اے ختم ہو ااور اس کی رہائی ہونے کے بعد اس کی شادی ہوجائے گی مگر افسوس اس سنگ دل حکومت پر جو لڑکیوں کی بھلائی کے بارے میںبڑے بڑے بھا شن دیتی نظر آتی ہے مگر مہندی کو ترس رہی اس بیٹی کی آہ نہیں سنی جو والد کی رہائی کے انتظار میں رہی تاکہ اس کی شادی اس کے دعاؤں اور رخصت کے سائے میں ا نجام پذیر ہوجائے۔اس کے برعکس اس بیٹی کے والد پر دوبارہ پی ایس اے کا نفاذ عمل میں لاکراس کی شادی موخر کئے جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔یہ چند مثالیں ہیں ورنہ اگر سب قیدیوں کی داستانِ مظلومیت بیان کرنے بیٹھیں تو صفحوں کے صفحے سیاہ ہوجائیں گے ۔یہ چند مثالیں بیان کرنے کے بعد سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ آخر یہ پی ایس اے کا نفاذ کشمیریوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینے کے لئے عمل میں کیوں لایا جاتا ہے؟اس کا سادہ سا جواب یہ ہے اس قانون کا سہارالے کر حکمران جماعت اپنے حریف سیاسی جماعتوں کے افراد کا جمہوری اور انسانی حق کو چھین کر ان کی آوا ز کو خاموش کرنا چاہتی ہے ۔ انصاف کی بات یہ ہے سیاسی دنیا میں اپنے حریف نظریات رکھنے والوں کا مقابلہ سیاسی انداز میں ہی کیا جائے اور مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ انسانی جان بھی محفوظ رہ جائیں اور پورے خطے میں امن کی فضا قائم ہو جائے بجائے اس کے ان پر پی ایس اے کا اطلاق عمل میں لاکر ان کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کیا جائے ۔