حکومت ہند نے آخر کارکشمیر کی دہکتی ہوئی بھٹی کو سرد کرنے کیلئے سخت گیر بلکہ جارحانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک مذاکرات کار کی تقرری کا بھی اعلان کیا ۔مسٹر چدامبرم نے عجلت میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے سخت گیراپروچ کی شکست سے تعبیر کیا حالانکہ یہ سخت گیر انہ حکمت عملی کو نگاہوں سے اوجھل کرنے کی ایک کوشش نظر آتی ہے کیونکہ اگر یہ واقعی نتیجہ خیز مذاکرات کی سنجیدہ کوشش ہوتی توکسی کہنہ مشق سیاستدان کو یہ کام سونپا جاتا ،جو مفاہمت کی راہیں تلاش کرنے کیلئے اپنی سیاسی اہلیت کا استعمال کرتا لیکن ایسا نہیں کیا گیابلکہ اس کے برعکس مذاکرات کیلئے حکومت ہند کے نمایندے کے طور پر ایک خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کو چنا گیا۔
حالانکہ دنیشور شرما کے بارے میں ہر ایک کی یہ رائے ہے کہ وہ ایک بہت ہی ذہین اور باصلاحیت انسان ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی زندگی کا سارا تجربہ وہی ہے جو ایک خفیہ ادارے کی مخصوص سرگرمیوںتک محدود ہوتا ہے۔وہ ایک سیاستدان کی طرح مدمقابل کے دلائل کو نہیں سمجھ سکتے ہیں نہ ان کا جواب سیاسی نکتہ نظر سے دے سکتے ہیں اور نہ ہی متضاد موقفوں اور رویوں کے بیچ مفاہمت کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں ۔راجناتھ سنگھ بھی یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر ان کا انتخاب کیوں کیا گیا جبکہ کہنہ مشق اورانتہائی سیا سی صلاحیتوں کے مالک بہت سے لوگ موجود تھے ۔ظاہر ہے کہ یہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں ہے بلکہ ان قوتوں کی طاقت توڑنے کی ایک اور کوشش ہے جنہیں بدامنی اور تشدد کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ۔اس کا اشارہ خود مسٹر دنیشور شرمانے اپنی تقرری کے بعد دئیے گئے پہلے انٹرویوں میں یہ کہتے ہوئے دیا کہ ’’ وادی کے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے اور الگ تھلگ کرنے میں پاکستان کا کلیدی کردار رہاہے لیکن نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اور کشمیر کے مستقبل کیلئے تعمیری کردار ادا کریں ۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کشمیری نوجوانوں کو اس بات کا احساس کرنا ہی ہوگا کہ ان کیلئے کیا بہتر ہے ۔’’ میں انہیں اس بات کا احساس دلاوں گا کہ انہیں کسی بیرونی طاقت کی ایماء پر کام کرنا چاہئے یا اپنے مستقبل کیلئے ۔‘‘ یہ چند جملے ہی ان کے ایجنڈے کا لب لباب سامنے لانے کیلئے کافی ہیں۔ اس سے ایک تو یہ خوش فہمی دور ہوجاتی ہے کہ وہ اس پیچیدہ مسئلے کے اسباب سمجھنے اور اس کے حل کی راہیں ڈھونڈنے کیلئے آرہے ہیں جوبرصغیر کا ایک ناسور بن چکا ہے اور دوم یہ بات پوری طرح سے عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کا ایجنڈا نوجوانوں کی سوچ تبدیل کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں اور خفیہ اداروں کے مخصوص طریقوں کا استعمال کرنا ہے ۔اس لئے اسے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سیاسی پہل سمجھنے کی کوئی وجہ سامنے نہیں آرہی ہے ۔ ان کے ظاہر کئے گئے خیالات سے خود ان کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ وہ کشمیریوں کی خواہشات کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی طے کرچکے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں یا گمراہ کئے جاچکے ہیں ،ایسے میں ان کے جذبات سمجھنے کی گنجائش ہی کہاں باقی رہتی ہے بلکہ انہیں سدھارنے کا ایک آپشن باقی بچتا ہے جو ان کا واحد ایجنڈا نظر آتا ہے اور اگر ہماری یہ سوچ غلط نہیں ہے تو اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بھی ان کی کامیابی کے بہت کم امکانات موجود ہیں کیونکہ ان کے اس نظرئیے کی بنیاد ہی درست نہیں کہ نوجوانوں کو پاکستان نے گمراہ کیا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان نے ان مواقع کاصرف فایدہ اٹھایا ہے جو خود نئی دہلی کی کشمیر سے متعلق غلطیوں نے اسے فراہم کئے ہیں ۔اس بات کا ذرا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو کئی چیزیں سامنے آئیں گی ۔
اس وقت نوجوانوں کی جو نسل بے جگری کے ساتھ گولیو ں اور پیلٹ چھروں کے سامنے سینہ سپر ہورہی ہے وہ پانچویں نسل ہے جو حکومت ہند سے برسر پیکار ہے ۔ایک نسل جس نے ڈوگرہ استبداد کے خلاف جنگ آزادی میں حصہ لیا بڑی امیدوں کے ساتھ اس صبح کا انتظار کررہی تھی جو صدیوں کی غلامی کا ثمر ثابت ہو لیکن ڈوگرہ حکمرانی کا خاتمہ مسئلہ کشمیر بھی ساتھ لے کر آئی ۔ یہ نسل 1953ء کے آتے آتے بوڑھی ہوچکی تھی اور اپنی آنکھوں سے سمجھوتوں ، وعدوں اور امیدوں کا خون ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔ جمہوریت کا ڈھونگ اس کی سمجھ میں اس وقت آیا جب ایک منتخب حکومت کا حلیہ اندرونی سازشوں سے بدل دیاگیا اور جس حکمراں کو ہیرو کا درجہ دیا گیا تھا اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ۔اس حالت میںاس نسل نے اپنی سیاسی خواہشات کو دوسری نسل کو منتقل کیااور پھر اس دوسری نسل نے دیکھا کہ کس طرح سے نئی دہلی کے ایوانوں میں حکمرانوں کا انتخاب ہوتا ہے اورریاست میں انتخابات کا ڈھونگ رچاکر اس انتخاب کو عوامی انتخاب کا نام دیکر جائز قرار دیا جاتا ہے ۔
بحشی غلام محمد مرحوم کو کبھی عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں تھا ۔ مرحوم خواجہ غلام محمد صادق کو اپنے اہل خانہ کی حمایت بھی حاصل نہیں تھی اوروہ کشمیر کے حکمراں کی حیثیت سے نئی دہلی کیلئے دفعہ 370 کھوکھلا کرنے میں آسانیاں پیدا کررہے تھے ۔موئے مقدس کی گمشدگی کا سانحہ بھی اسی دوران ہوا اور موئے مقدس تو برآمد ہوا لیکن جس نے اسے چوری کرنے کا جرم کیا تھا وہ کون تھا یہ معمہ کبھی حل نہیں ہوسکا ۔سید میر قاسم مرحوم کو بھی عوام نے منتخب نہیں کیا ۔نئی دہلی نے ہی انہیں عوام کے سروں پر سوار کردیا ۔اس دوران نوجوانوں کی دوسری نسل برسر پیکار نسل کے طور پر قربانیاں دیتی رہی ۔ اپنے حقوق کی جدوجہد کے سوا اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ کھلا نہیں رکھا گیا تھا اور جس وقت یہ نسل اپنی آرزوئیںاورخواہشات تیسری نسل کو منتقل کررہی تھی پاکستان دو لخت ہوچکا تھا اور نئی دہلی میں اندرا عبداللہ اکارڈ کیلئے بات چیت شروع ہوچکی تھی ۔بھارت اُس وقت بالادست قوت کے طور پر ابھرا تھا ۔ شملہ میں پاکستان سے نوے ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی کے عوض مسئلہ کشمیر کو بین الااقومی فورموں میں لے جانے سے باز رکھنے کا عہد لیا گیا تھا اور جیل میں ایشیاء کے بلند ستارے کو بے بسی اور بے کسی کے اندھیروں کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ آخر کار اس نے مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ ساتھ اندرونی خودمختاری کو بھی اندرا عبداللہ اکارڈ کی دہلیز پر نذرانے کے طور پر رکھ دیا ۔اتنا کرنے کے باوجود بھی چند ماہ کے اندر ہی کانگریس کی اکثریت والی اسمبلی نے ان سے اعتماد واپس لیکر انہیں اپنی اوقات دکھادی ۔اس کے بعد پورے ہندوستان کی سیاسی قوتوں نے انتخابات میں ان کو شکست دیکر ہمیشہ کی سیاسی موت مارنے کی کوشش کی لیکن عوام سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور اس نے اسے کامیابی کا سہرا پہنا دیا ۔اس موقعے پر پہلی بار مجبوری سے ہی سہی نوجوان قومی دھارے کا حصہ بنا اور اس نے ریاست کی سیاست ، ثقافت ، اقتصادیات اور دیگر شعبوں میں اپنا مقام بنانے کی پہل کی لیکن بہت جلد سیاسی سازشوں کے وہی جال اس کے گرد بھنے جانے لگے جنہوں نے اس کی دو نسلوں کو قومی دھارے سے الگ رکھا تھا ۔
شیخ محمد عبداللہ کے بعد فاروق عبداللہ کی حکومت کو بھی درپردہ سازشوں کے تحت گرادیا گیا ۔ اور اسے بھی نئی دہلی کے آشیرواد سے اقتدار حاصل کرنے پر مجبور کردیا گیا ۔اور جب نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد برسراقتدار آیا توتیسری نسل ایک اورنئی نسل کو اپنی امیدیں اورخواہشات منتقل کررہی تھی ۔اس نسل کا اعتبار اب نیشنل کانفرنس سے بھی اٹھ چکا تھا ۔اس موقعے پر قومی دھارے کی ہر جماعت بے اعتبار ہوچکی تھی اور نئی سوچ اورنئے امکانات کی تلاش نئی نسل کا خواب بن چکاتھا ۔ مسلم متحدہ محاذ اس خواب کی علامت کے طور پر ابھرا جس نے اقتدار کا ایک جائز راستہ اختیار کیا لیکن جب اس پر بھی یہ ثابت ہوا کہ جائز راستے نئی دہلی کی خواہشات کے محتاج ہوتے ہیں تو اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا کہ وہ بغاوت کا آخری آپشن اختیارکرے جس کے لئے حالا ت موافق بھی تھے اور مواقع بھی موجود تھے ۔اس نسل کا یہ راستہ اختیار کرنا اس کی خواہش نہیں تھی بلکہ اسے اس کے لئے آخری حد تک مجبور کردیا گیا تھا۔ اب جب اسے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہوچکی ہے وہ اپنی خواہشات اوراپنی امیدیں پانچویں نسل کو منتقل کرچکی ہے ۔چار نسلوں کا غصہ اورانتقام اس کے خون میں موجود ہے اسے کیسے یہ کہہ کر بدلا جاسکتا ہے کہ اسے پاکستان نے گمراہ کیا ہے ۔ اس کا ایک مستقبل ہے جسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہا ہے ۔چار نسلوں کی جائز کوششوں کے انجام کی تاریخ اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں موجود ہے ۔جو کوئی بھی اس با ت کا قائل ہے کہ عسکریت کا راستہ تباہی کاراستہ ہے اوراس راستے سے کسی منزل پر پہنچنا محال ہے وہ بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ موت کا یہ ہتھیار شوقیہ طور پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اسے اٹھانے پر مجبور کردیا گیا اور مجبور کرنے والا کوئی اورنہیں تھا بلکہ نئی دہلی کے سیاستداں ، پالیسی ساز اور خفیہ ادارے ہی تھے ۔تلخ زمینی حقائق کی اسی دلدل پر دنیشور شرما امن کے جو پھول اگانے کی کوشش کرنے کیلئے آرہے ہیں انہیں پہلے اس دلدل کو ایسی زمین میں تبدیل کرنا ہوگا جس پر کوئی بیج بویا جاسکتا ہے ۔ایسا کرنا شاید ان کے اختیار میں نہیں ہے ۔
بشکریہ: ہفت روزہ’’ نوائے جہلم‘‘