محمد الیاس ملک المعروف تنویرؔ بھدرواہی اگرچہ اب اس جہانِ فانی میں نہیں ہیں لیکن ان کی باتیں ،یادیں اور شاعرانہ شخصیت ان کے شریفانہ مزاج کے ساتھ ہمیں یہ احساس دلارہی ہیں کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔میرا تو یہ ماننا ہے کہ ایک اچھا شاعر وادیب اس جہان فانی سے گزرنے کے بعد بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔زندگی ایک غیر یقینی سفر ہونے کے علاوہ قابل قدر بھی ہے۔ایک اچھا شاعر وادیب زندگی کی صداقتوں،نزاکتوں اور کائنات کی وسعتوں پہ مکالمہ کرتا ہے۔وہ شعر وادب کو تفریح طبع نہیں سمجھتابلکہ تعمیر حیات کا ایک موثر اور بہترین ذریعہ خیال کرتا ہے۔وہ شعوری طور پر اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی ادبی وشعری کاوشیںانسانی اقدار وروایات کواجاگر کرنے کا سبب بنیں تاکہ آدمیت ،انسانیت کی حسیں دادی میںداخل ہوسکے۔ادبی وشعری متون کا بنیادی تقاضہ ا دبی جمالیات ہے۔اس کے بغیر ادب ، ادب نہیں رہتا۔ادب اور زندگی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ایک اچھے شاعر وادیب سے یہ توقع بھی کی جاتی رہی ہے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں ایک اچھا انسان بھی ہو۔تنویرؔ بھدرواہی کا حلقٔہ احباب اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ نہایت شریف،ذہین،خوش مزاج ،زندگی کے قدردان ، اچھائی اور اچھے انسان کی تلاش میں رہتے تھے۔دراصل آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے ، اسے انسان بننے کے لیے کافی وقت لگتا ہے۔لوگ آسان سمجھتے ہیں آدمی سے انسان بننا۔پورے نظام عالم پہ نظر دوڑائیے ،غور وفکر سے کام لیجئے اور پھر مقصد حیات کو تلاشنے لگ جائیے تو بلآخر اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ دنیا ایک خود کار مشین کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی ذات کار فرما ہے جو اس پورے نظام عالم کو چلارہی ہے۔ایک اچھا انسان شر کے بدلے خیر،جھوت کے بدلے سچ ا ور حرام کے بدلے حلال کو اہمیت دیتا ہے۔گویا معلوم یہ ہوا کہ آسمانی مذاہب،علوم وفنون،فکر و فلسفے ،اخلاقی وروحانی تعلیمات آدمی کو انسان بنانے کی کوشش میں ہیں۔کسی بھی شخص کی پروقار شخصیت سازی میں تین عناصر کا خصوصی عمل دخل ہوتا ہے:دالدین کی بہترین تربیت،مرشد کامل کی صحبت اور اچھا ماحول۔تنویرؔ بھدرواہی کو یہ تینوں عناصر میسر ہوئے تھے۔دراصل انسان دنیا سے کچھ بھی ساتھ نہیں لے جاتا سوائے اچھائی اور برائی کے۔
تنویرؔبھدرواہی کو اللہ تعالیٰ نے شعر وشاعری کاذوق وشوق ودیعت کیا تھا۔کسی بھی طرح کا ذوق وشوق انسان کو چین سے بیٹھنے نہیںدیتا۔وہ اپنے شوق کی تکمیل چاہتا ہے جس کے لیے وہ ہرممکن کوشش کرتا ہے۔محنت ،لگن اور کوشش پیہم ایسا جذبہ ہے جو انسان کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔تنویر ؔبھدرواہی کی ذہنی نشوونما جس خاندان اور ماحول میں ہوئی تھی ، وہ بہت حد تک اللہ والوں کا ماحول تھا۔ان کے کا نوں نے بچپن ہی سے جامع مسجد بھدرواہ اور مضافاتی مساجدسے پانچ وقتہ نمازوں کی اذا نیں سنی تھیں اور گھر کے بزرگوں کو انھوں نے تلاوت کلام پاک اور ذکر الٰہی میں رطب اللسان دیکھا تھا۔ظاہر ہے جس شخص کو دینی،اخلاقی ، روحانی اور ادبی اقدار کے ساتھ پرورش پانے کی سعادت نصیب ہوئی ہو،اس کے ادبی وشعری افکار ونظریات ہر صورت میں محب اخلاق ہی ہوسکتے ہیں۔
تنویر ؔبھدرواہی کی شاعر ی کا پہلا مجموعہ’’پرتو تنویر‘‘1994میں شائع ہوا جب کہ دوسرا مجموعہ’’منظر منظرآئینہ‘‘ کے نام سے 2009میں منظر عام پر آیا۔شاعر موصوف کے یہ دونوں مجموعے غزلوں اورپابندنظموں پہ مشتمل ہیں۔مذکورہ مجموعوں کا مطالعہ کرنے کے بعد چند اہم اور مستحسن باتیں سامنے آتی ہیں:پہلی بات یہ کہ تنویر بھدرواہی نے کلاسیکی اردو شاعری سے اپنا ذہنی وجذباتی رشتہ قائم رکھا ہے۔دو سری بات یہ کہ ان کی شاعری میں شراب،شباب،کباب اور رباب کاذکر نہیں ہے۔تیسری بات یہ کہ ان کی شاعری میںمتصوفانہ جذبات واحساسات درآئے ہیں۔چوتھی بات یہ کہ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ پند ونصائح اور ضرب الامثال سے تعلق رکھتا ہے۔پانچویں بات یہ کہ موضوعاتی اور فنی اعتبار سے ان کی شاعری ایک پختہ اور سنجیدہ ذہن کی غماز معلوم ہوتی ہے۔چٹھی بات یہ کہ ان کی بہت سی نظمیں جموں وکشمیر کے بحرانی اور تشویش ناک حالات وواقعات اور اہم شخصیات سے تعلق رکھتی ہیں۔آخری بات یہ کہ ان کی شاعری میں ابہام نام کی کوئی بھی چیز نظر نہیں آتی۔وہ کلاسیکی قدروں کے پرستار تھے۔اس بات کا اعترف جموں وکشمیر کے ایک بڑے شاعر آنجہانی پنڈت کیلاش ناتھ کول میکشؔ کاشمیری نے بھی ان الفاظ میں کیا ہے:
’’انقلابی شاعروں کی طرح ان کی شاعری نعروں اور للکاروں کی شاعری نہیں ہے۔ان کے کلام میںنیا رنگ وآہنگ تو نہ ملے گاکیونکہ نہ تو وہ تہذیب نو کی حشر آفریںاداؤں کے مارے ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ نئی تجرباتی شاعری کے حامی ہیں۔وہ جدیدیت کے ہرگز قائل نہیں اور صرف کلاسیکی قدروں کے پرستار ہیں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیںکہ وہ گردوپیش کے ماحول سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں اور ان کا درد مند دل انسانیت کے غم سے معمور نہیں‘‘ (’پرتوِتنویر‘از،محمد الیاس ملک تنویر۔فائن پریس الیکٹرانک پرنٹرز دہلی،1994ص10)
تنویر ؔبھدرواہی کی شاعری کے دونوں مجموعے ’پرتو تنویر‘ اور’منظر منظرآیئنہ‘میری نظروں کے سامنے ہیں۔اس لیے یہاں یہ لازمی معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مجموعوں میں شامل شاعری کے حوالے سے تنویر بھدرواہی کے افکار ونظریات اور تجربات ومشاہدات زندگی کی افہام وتفہیم کی جائے۔’پرتو تنویر‘174؍صفحات پہ مشتمل ہے۔موصوف نے اللہ کے بابرکت نام سے اپنے کلام کی شروعات دعا سے کی ہے، مذکورہ مجموعے میں حمد ونعت،غزلیں،نظمیں،قطعات اور منقبت درج ہیں جو صاحب کلام کی ہمہ جہت سخن وری پہ دال ہیں۔انھوں نے زندگی کے بنیادی مسائل و معاملات پہ گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ سماج ومعاشرے میں پھیلی گمراہی اور زبوں حالی کا بھی نوٹس لیا ہے اور بڑے پر اثر انداز میں لیا ہے۔شاعری ان کے نزدیک چونکہ ایک موثر میڈیم تھا اپنے جذبات و مشاہدات کی ترسیل کا ۔چناں چہ انھوںنے جو کچھ کہا ہے ،اس میںان کااصلاحی نقطئہ نظر شامل رہا ہے۔کچھ شعری نمونے ملاحظہ ہوں:
کتنے موسم آئے،بیتے،پھول کھلے،مرجھابھی گئے
مدت گزری لیکن دل کازخم ابھی تک تازہ ہے
حق کے داعی،حق کے راہی کب یہ پروا کرتے ہیں
کس نے ان کی ہنسی اڑائی،کس نے کسا آوازہ ہے
اپنے ہی اک گھرآنگن کارونا اے تنویر نہیں
آج تو دنیا بھر کا بکھر ا بکھرا سا شیرازہ ہے
۔۔۔۔
کسے کہوں یہاں کیا کیا چلن نظر آئے
جوراہ بر تھے وہی راہ زن نظر آئے
۔۔۔۔
اٹھے ہیں کوہ ودمن کے جھگڑے ،چمن کے سرود سمن کے جھگڑ ے
قدم قدم پہ وطن کے جھگڑے چراغ نفرت جلا رہے ہیں
۔۔۔۔۔
دنیائے بے ثبات میں ہر منظر حیات
کتنا ہی پرکشش ہومگر جاوداں نہیں
۔۔۔۔
اس دور میں عیاری صد رنگ کا غازہ
تہذیب نے انسان کے چہرے پہ ملا ہے
مندرجہ بالا اشعار میں تنویر ؔبھدرواہی کی سوچ ،فکر وخیال اور داخلی و خارجی دنیا کی کئی پرچھا ئیا ں محسوس کی جاسکتی ہیں۔ان اشعار سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سماج اور زندگی کے تئیں ان کا تجربہ ومشاہدہ کافی گہرا ہے۔یہ تمام اشعار جہاں موضوعاتی تنوّع کے حا مل ہیں تو وہیں یہ اشعار پیغام صداقت اور بیان کی ندرت کے ساتھ ایک سنجیدہ قاری کو شعری حظ فراہم کرتے ہیں۔شاعرنے وقت اور حالات کی ستم ظریفیوں ہی کا نوحہ نہیں لکھا ہے بلکہ معاشرے میں پنپ رہی ان تمام ذہنی خباثتوں پہ بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جن کے باعث ایک پرامن اور صحت مند معاشرہ مفلوج ہوکے رہ جاتا ہے۔ہندی کے الفاظ مثلاـ ’ملن‘جیون‘نین کٹورے‘ مدھ‘ جوبن‘پریم پجاری‘متوالے دھن‘نیل گگن‘ کے استعمال سے شعریت دوبالا ہوگئی ہے اور مندرجہ آخری اشعار میں شاعر دیر وحرم کے جھگڑے سے پرے رہ کراس بات پہ مصر نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی حکمت وقدرت کے ساتھ ذرے ذرے میں موجود ہے۔اس وحدہ لا شریک کو دیر وحرم تک محدود سمجھنا ضعف ایمان میں شامل ہے۔
تنویر ؔبھدرواہی کا دوسرا شعری مجموعہ’’منظر منظر آئینہ‘‘حیا ت وکائنات کے کئی منظر دکھاتا ہے۔149 صفحات پہ مشتمل یہ مجموعہ موضوعاتی اور فنی اعتبار سے دعوت مطالعہ دیتا ہے۔اس مجموعے میں بھی ہمیں شاعرزندگی کی الجھنوں اور گوناگوں مسائل ومعاملات پہ گفتگو کرتامعلوم ہوتا ہے،بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اس شعری مجموعے میں شامل شعری تخلیقات کا دورانیہ جموں و کشمیر کے بحرانی حالات سے متعلق ہے تو درست ہوگا۔کیونکہ تنویر ؔبھدرواہی کے سسکتے ہوئے جذبات واحساسات ،ان کے داخلی درد و کرب اور احساس محرومی کی شدت اس مجموعے میں تیز تر نظر آتی ہے۔زندگی کی تلخیوں اور حالات کے جبر نے شاعر کو جہاں گوشئہ تنہائی میں شب وروز گزارنے پر مجبور کیا ہے تو وہیں وہ ایک جہان نو کی تعمیر وتشکیل کا بھی متمنی نظر آتا ہے۔بقول پروفیسر ظہورالدّین:
’’موضوعاتی اعتبار سے ’منظرمنظرآئینہ ‘پر نظر ڈالیے تو تنویر ؔجہاں زندگی کی ٹھوس فکری وجذباتی سچائیوں کواظہار کی ندرت سے آشنا کرتے ہیں وہاں وہ گذشتہ بیس تیس برس کی اس زندگی کوبھی شعری صداقتوں کا پیرہن عطا کرتے چلے جاتے جن کے وہ خود عینی شاہد ہیں۔اسی لیے اس مجموعے میںجہاںان پربیتے ہوئے کربناک لمحے جابجاآہ وبکاہ کرتے ملتے ہیں وہاں وہ خوں آشام صورت حال بھی آئینہ ہوتی چلی جاتی ہے جس نے وادی کشمیر کی پرسکون زندگی کو درہم برہم کرکے زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ صورت حال کوئی بھی ہو اسے ایسا موثر لسانی پیرہن عطا کرتے ہیں کہ قاری خیال کی روانی اور بیان کی ندرت میںدم بھر کے لیے خود کو کھو دیتا ہے۔لیکن یہ کھونابصیرت کے نئے دروا کرتا ہے،قاری کو غافل نہیں کرتا‘‘۔
(’منظرمنظر آئینہ ‘پر ایک نظر۔مشمولہ،منظر منظر آئینہ ۔ازمحمد الیاس ملک تنویر،2009ص13)
تنوؔ یر بھدرواہی نے اپنے کلام میں زندگی کی دائمی سچائیوں کو بیان کیا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے دنیا کی ان عارضی حقیقتوں پر بھی اظہار خیال کیا ہے جنھیں آج کا انسان بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔مانا کہ سائنسی ترقی نے انسان کو بہت ساری آسائشیں فراہم کی ہیں لیکن قدرت کی عطاکردہ بہت سی نعمتیں سائنس نے اس سے چھین لی ہیں۔سماج ومعاشرے سے اخلاق وکردا ر اور تہذیب وشائستگی کا رخصت ہوجانا کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں۔تنویر بھدرواہی کو اس کا احساس روح کی گہرائیوں میں اترگیا تھا۔ان کی غزلوں کے بہت سے اشعارمیں یہ احساس موجود ہے۔مثلا ً ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
عجب بے حسی شہر والوں میں دیکھی
کوئی مربھی جائے تو کم دیکھتے ہیں
۔۔۔۔
حال سن سن کے مرا آپ سمجھتے ہی نہیں
میں تو چہروں کو بھی پڑھتا ہوں کتابوں کی طرح
۔۔۔۔
یہی دور حاضر کی نیرنگیاں ہیں
ہر اک چیز مہنگی ہے،سستا لہو ہے
مجھے کیوں ڈراتی ہیں مخدوش راہیں
ابھی دل ہے زندہ، رگوں میں لہو ہے
نرالہ یہ دستور دیکھا جہاں کا
جو اچھا ہے، دنیا اسی کی عدو ہے
مرے شعر تنویرمبہم نہیں ہیں
تکلف سے عاری مری گفتگو ہے
…………….
خلد سی وادی میںہے پر ہول جنگل کا سماں
گھر کے بام ودر سے بھی اب خوف لگتا ہے یہاں
کھا گئی کس کی نظر تنویر اس کشمیر کو
غم میں ڈوبی یہ ہوا بھی لے رہی ہے سسکیاں
تنویر ؔبھدرواہی کا کلام جہاں موضوعاتی اعتبار سے بوقلمونی کا حامل ہے تو وہیں ہیئتی اعتبار سے بھی خوب ہے۔انھوں نے غزل اور نظم کے فنی لوازمات کا خیال رکھا ہے اور ان کے برتاو میں احتیاط اورسنجیدگی سے کام لیا ہے۔ان کا لب ولہجہ اور لسانی کینڈاہمیں خاص طور سے متاثر کرتا ہے۔شفافیت،فصاحت وبلاغت کایہ عالم ہے کہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ قاری و سامع کے دل میں اتر جاتی ہے۔اسی لیے وہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
شعر ایسے ہوں سب کہیں تنویرؔ
کیا لطافت ہے کیا فصاحت ہے
میرے شعر تنویرؔ مبہم نہیں ہیں
تکلف سے عاری مری گفتگو ہے
رابطہ: اسسٹنٹ پروفیسر شعبٔہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
فون نمبر9419336120