اکیسوی صدی عیسوی کی ا نسانی دنیا بہت ساری موذی بیماریوں کی شکار ہے لیکن جس شدید بیماری نے خاص کر ہماری قوم و ملت کو بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے وہ اغیار کی فکری یلغار اور ان کی نقالی ہے۔ مغرب نے صلیبی جنگ میںمسلمانوں سے مسلسل شکست کھانے کے بعد کلمہ خوانوں کے خلاف بدترین فکری جنگ چھیڑ دی جس میں وہ آگے ہی بڑھ رہا ہے۔ چونکہ قوم وملت کے عروج و زوال کا دارو مدار نوجوانوں پر ہی ہے،اس حقیقت کو بھانپ کرمغرب نے ہمارے نوجوانوں میں فحاشیت اور جنسی بے راہ روی میں جکڑ دیا اور اس و با کوبازار سے کر دانش گاہوں، دفتروں اور گھروں میں دھکیلا ۔ افسوس کہ ہماری نوخیز نسل اندھا دھند نسل مغربیت کے منفی اثرات قبول کر رہی ہے۔اس صورت حال کودیکھ کر بلا مبالغہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ ہم آنکھ بند کر کے یورپ اور مغرب کے نقش قدم پر چل کر ہم ماد پدر آزاد تہذیب کی لپٹ میں آچکے ہیں ۔اس تہذیب کی خفیف جھلک دیکھئے کہ ایک سروے کے مطابق امر یکہ میں ہر پانچ میں سے ایک عورت جنسی تشدد کی شکار ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ سماج میں غریبی کے سبب جنسی بے راہ روی پنپ رہی ہے لیکن یہ خلاف حقیقت بات ہے۔ سویڈن کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔اس ملک میں مادی خوش حالی ہونے کے باوجوددنیا بھر کے مقابلے میں جنسی زیادتیاں اور طلاق کی شرح وہاں اول نمبر پرہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام سویڈن میں عورتوں کی عصمت اور عفت تک کا سودا شو ق سے کر رہاہے۔
مغرب نے جب آزادیٔ نسواں کے نام پر عورت کو ذہنی طور یرغما ل کیا تو اس کے پاس صرف دو ہی راستے بچے تھے: یا تو اُلٹے پاؤں گھر کی چادیواری میں لوٹ آئے یا اپنی نسوانیت کو بے شرمی کا کفن پہناکر مرد کی ہوس رانی کا شکار بنے۔جس خاتون نے بھی آزدای ، لبرل ازم یا کچھ کر دکھانے کے فریب میں آکردوسرا راستہ اختیار کیا، اسے یہ راستہ ایک ایسے مقام تک لے گیا جہاں عورت اب ماں،بہن یا بیٹی نہیں رہی بلکہ جنسی کشش کا دعوت نامہ بن گئی۔ہمارے دانش گاہوں میں مخلوط نظام تعلیم اسی جدیدیت اور لبرل ازم کی دین ہے جس کی کوکھ سے ناسوروں کی وہ فصل کاٹی جارہی ہے کہ انسانیت شرمسار ہے۔یہ کس قدر حماقت آمیز بات ہے کہ پٹرول اور آگ کو ایک جگہ جمع کرکے یہ احمقانہ خیال رکھا جائے نہ آگ پٹرول کو بھڑکائے گی اور نہ پٹرول آگ کو شعلہ زَن کر ے گی۔ اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کی بات چھوڑیئے، یہاں تو گلزار پیر ، آسام رام اور گرمیت سنگھ جیسے درویش وباباؤں کو دیکھا گیا کہ وہ کیسے نفس کی آگ کو جنسی بھوک کے پٹرول سے سلگا نے کا دھندا دین دھرم کے نام سے چلارہے تھے ۔ اس حوالے سے عیسائی راہباؤں اور ہندو جوگنوں کی داستانیں دیکھئے تو اُلٹیاں آئیں گی ۔ جنسی زندگی انسانی فطرت کا لازمہ ہے جسے اسلام سمیت مختلف آسمانی مذاہب نے نکاح کی صورت میں نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ شادی بیاہ کے ذریعے فطرت کی پکار کوایک مہذب ،ذمہ دار نہ اور سماجی ومذہبی طور ایک بہترین شکل دی ہے لیکن ہم ہیں کہ Late marriage کی بدعت سے اپنے معاشرے کو اخلاقی طور کنگال کرچکے ہیں، نتیجہ یہ کہ سماجی برائیاں کو بھی بڑھاواملتا جارہا ہے ۔ دیارِ مغرب میں مردوزَن کوlive in relation جیسی جان لیوا جنسی وبا سے مغربی معاشرہ اتنی ساری مہلک بیماریوں کا مرکز بن گیا ہے کہ سن کر اور دیکھ کر شرم آتی ہے ۔ اور چیزوں کے علاوہ ایڈز اس بے ہودہ چلن کی خدائی سزا ہے۔ بہر حال علامہ اقبالؒ کی تھیوری آف کمپاس(theory of compass) کے مطابق خاندان ایک کمپاس کی طرح کام کرتا ہے جس میں جب تک گھر کے اندر کی سوئی(بیوی) ٹھیک مقام پر رہے گی تب تک باہر کی سوئی (شوہر) بھی اپنے دائرہ سے باہر نہیں جاسکے گا ۔اس کی دلیل حضرت محمد ؐ کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ اگر کسی مردنے کسی پرائے عورت کو بری نیت سے دیکھا تو اس نے اپنے ہی گھر کی طرف بدکاری کی راہ بنائی۔ اسلام واحد دین ہے جہاں اگر شوہر محبت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھے تو اس کے نام ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ کیاا س سے بڑھ کر تکریم ِ نسواں کی کوئی مثال ہوسکتی ہے؟اما شافعیؒ فرماتے ہیں کہ’’ پاک دامن رہو، تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔بدکاری قرض ہے، اگر تم نے اسے لیا تو ادائیگی تمہارے گھر والوں سے ہوگی‘‘۔
آج مادی ترقی میں انسان آگے جاتے جاتے اتنا ڈھیٹ ہوچکاہے کہ قانونِ فطرت کو بھی لتاڑا جارہا ہے۔ اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ مغرب ومشرق میں ہم جنس پرستی کو قانون کی سر پرستی حاصل ہے۔ اس کے زیر اثر ریشیوں اور سنتوں کا دیش کہلانے والے بھارت سے بھی اس کارِ بد کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں کیونکہ بالی وڈ اور ٹی وی چنلیں شہوات کی آگ بھڑکاکر عوام کو یہی سبق دیتی ہیں۔ قوم کی اس گئی گزری حالت کو بدلنے اور نوجوانوں کوفاحشات و منشیات کی قید سخت سے نوجوانوں کورہائی دلانے ضروری ہے کہ سماج کے اخلاقی تعمیر نو کا سلسلہ فوراً سے پیش تر شروع کیا جائے ۔ یہ کام اُس حکومت سے متوقع نہیں جو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہر شر کو قبولتی ہے اور ہر خیر کو دباتی ہے ، بلکہ یہ کام صرف عوامی سطح پر ہوسکتا ہے ۔ باشعور لوگ اگر اپنے اپنے دائرہ اثر میں اصلاح احوال کی نیت سے کشمیر کی نئی پود کو مغرب کی بھونڈی نقالی سے دلسوزی کے ساتھ روک دیں(البتہ جہاں علمی اور سائنسی میدانوں میں اہل مغرب نے اپنی کمند یں ڈالی ہیں، ا ن سے استفادے کی ترغیب بھی جوانوں کو دیں ) اورساتھ ہی ساتھ نوجوان نسل کو اپنے دین وتہذیب سے باخبر کرانے کی جست لگائیں تو اخلاقی انارکی کے سیلاب کو کچھ نہ کچھ روکا جاسکتا ہے ۔
فون نمبر9906763589