سر سید احمد خان کی شخصیت کی طرح ان کا ذوق و شوق بھی عظیم اور ہمہ گیر تھا۔اُن کی برپا کردہ علی گڑھ تحریک بھی ایک ہمہ گیر تحریک تھی جس نے علمی ، ادبی، سماجی ، سیاسی اور مذہبی میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے ۔ یہ تحریک اپنے وقت کا تقاضا اور اس زمانے کی ایک اہم ضرورت تھی اور یہ تحریک بے مثال قربانی سے وجود میں آئی تھی۔
مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کی بربادی شروع ہوئی اور ۱۸۵۷ ء کی بغاوت و بربادی سرمایہ دارانہ اور سائنسی ایجادات پر مبنی تہذیب کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ تھی ۔ یہ بغاوت ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر شروع کی تھی۔ لیکن مسلمانوں کو اس کا موردِ الزام ٹھہرا یا گیا۔ مسلمان اس وقت نہ صرف معاشی، اقتصادی، تمدنی اور ادبی اعتبار سے گرنے لگے تھے بلکہ سیاسی طور پر بھی وہ بچھڑے ہوئے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی اس زبوں حالی کو تباہی سے بچانے کے لیے ان کے پورے معاشرے کی اصلاح کرنا لازمی سمجھا۔اس معاشرے کو غیر اسلامی اثرات اور توہمات نے بگاڑ دیا تھا۔ مسلکی اختلافات اور تعصب و تنگ نظری نے معاشرتی اور ملی اتحاد کو ختم کر دیا ہے۔ اُس وقت کی مروجہ تعلیم نے غور و فکر اور اجتہاد کی راہیں بند کر دی تھی۔ معاشرہ کی ان خرابیوں کی اصلاح تعلیم کی اشاعت اور اس کا احساس پیداکرنے سے ہی کی جا سکتی تھی۔ اس صورتحال کا سرسید کے قلب و ذہن پر کافی اثرات پڑے اور ان ک فکر ی و عملی زندگی میں ایک تلاطم بپا ہوا۔ اور سر سید کو ایک خاص انداز سے سوچنے پر مجبور کیا۔ اس سلسلے میں ان کی یہ تحریر تصویر کشی کرتی ہے کہ ’’ میں نے اس زمانے میں اپنی قوم کو نہایت خراب حالت میں دیکھا جن پر ٹھیک یہ مثل صادق آتی ہے۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
گئے دونوں جہاں کے کام سے ہم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
اس سلسلے میں ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش میں یوں خامہ فرسا ہیں:
’’ سر سید نے ۱۸۵۷ ء کی جنگ ِ آزادی کی ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ انھوں نے اس ہزیمت اہلِ ہند کی شکستگی ان کی عظیم جماعت کے مقابلے میں مٹھی بھر غیر ملک کی فتح کا مشاہدہ کیا ۔مسلمانوں کو اس کوشش کی جو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اسکو بھی دیکھا ۔وہ قوم جو کل اس ملک کی حاکم تھی اس کی ذلت و پستی بڑے بڑے خاندانوں اور گھرانوں کی ہلاکت اور انگریزوں کی شان و شوکت ( جو مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ کے ملبہ پر قائم ہو رہی تھی) نیز ان کی حکومت اور ساحرانہ تہذیب کے مناظر بھی دیکھے۔ اس کے علاوہ ملازمت ، رفاقت اور دوستی و تعارف کے ذریعہ ان کو انگریزوں سے طویل واستہ پڑا تھا۔ اور بہت قریب سے ان کی زندگی کے مطالعہ کا موقعہ ملا تھا۔ وہ ان کی ذہانت قوتِ عمل اور ان کے تمدن سے متاثر ہوئے۔ وہ ایک ذہین نہایت ذکی الحس سریع الانفعال اور درد مند قسم کے آدمی تھے۔ انھوں نے متوسط درجہ کی دینی تعلیم پائی تھی ۔ ان کا خیال تھا کہ ہم اس ہم رنگی حاکم قوم کی معاشرت و تمدن اختیار کرنے اور ان کے سا تھ بے تکلف رہنے سے مرعوبیت احساس کمتری اور احساس ِ غلامی دور ہو جائے گا جس میں مسلمان مبتلا ہیں۔‘‘
سر سید احمد خان کی ذات میں قدامت اور جدیدیت دونوں کا امتزاج موجود تھا۔ انھوں نے مسلمانوں کے روشن ماضی سے عظمت و رفعت کا تصور حاصل کیا۔ لیکن اس تصور میں رنگ آمیزی مغربی علوم سے کی ۔ چنانچہ ان کی شخصیت سے ایک ایسی تحریک پھوٹی جس نے اسلامیان ِ ہند کو اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس دلایا۔
علی گڑھ تحریک کی رہنمائی کرنے والے سر سید کے قلم سے رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند ، تبین کلام، مضامین تہذیب الاخلاق، خطبات احمدیہ اور تفسیر القرآن و مجموعہ لیکچرز جیسی تحریر یں سامنے آئیں ۔ اس تحریک سے قوم کو بے شمار فائدے حاصل ہوئے۔ اس نے نہ صرف نئے علوم کی طرف قوم کو متوجہ کیا ۔ بلکہ ہندوستانیوں کو مایوسی سے نکال کر زندگی کی جدوجہد میں شریک کیا۔ اپنی زبان و ادب کو بلند و بالا کرنے پر آمادہ و راغب کر دیا اور مسلمانانِ اُمت کے لیے علم کے میدان میں آگے بڑھ کر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ضروری قرار دیا۔ ان کو مہذب بنانے میں ان کو تعلیم سے آراستہ کروانے میں اور مسلمانوں کو جدید سائنسی علوم سے روشناس کروانے میں ایک ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں۔
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کی نئی نسل کو اتنا متاثر کیا جتنا کسی دوسری تحریک نے نہیں کیا تھا۔ سرسید احمد خان کی طاقتور شخصیت کے اثر کا ہندوستان کی اسلامی سوسائٹی میں دائرہ بہت وسیع ہے۔ انھوں نے ادب و زبان طریقِ فکر و اسالیب کو کم و بیش متاثر کیااور ایک ایسے ادبی و فکری دبستان کی بنیاد ڈالی جس کے اندر بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ اس نے ہندوستان کی اسلامی سوسائٹی میں اس تعلیمی اور اقتصادی خلا کو بڑی حد تک پُر کیا جو انگریزی اقتدار اور انقلابِ حکومت کے بعد پیدا ہو گیا تھا۔
غرض سر سید تحریک کی خدمات ، تاریخی ، سماجی اور ادبی ارتقاء کی راہ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ یہ تحریک ادب، سماج اور اصلاحِ تہذیب و تمدن کا بہترین ذریعہ بن گئی اور اس ادبی اور اصلاحی تحریک کو آگے لے جانے والوں کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ سید علی بلگرامی کے ادبی کارنامے اور شبلی ؔ کے علمی و ادبی شاہکار اور وہ علمی فضا جو ان علمی شخصیتوں کی وجہ سے معرضِ وجود میں آئی، سب اسی تحریک کی بدولت آئی۔
علی گڑھ تحریک نے اس دور میں بیداری کا آغاز کیاجس کی بدولت ادب کا زندگی سے رشتہ مستحکم ہو گیا اور اردو ادب کی نئی کلاسیکی عظمت حاصل ہوئی۔ صحت مند اور توانا اسالیب وجود میں آئے۔ نقالی و تقلید سے نجات حاصل ہوئی۔ پروفیسر احتشام حسین کے الفاظ میں یہ تحریک جس اصلاحی جذبۂ ترقی کے جوش اور عقلیت کو لے کر چلی وہ قائم نہ رہ سکا۔ یہ ولولے بسااوقات ظاہری چمک دمک ، ملازمتوں کے لیے جدوجہد اور انگریزوں کی رضا جوئی کے جذبے کے نیچے دب گئے۔
مسلمانوں کو بیدار کرنے اور اردو نثر میں نئی جان ڈالنے والا یہ محسن بالآخر۱۸۹۸ء میں ابدی نیند سو گیا۔
اردو نثر کو تصنع و فضول عبارت آرائی ، لفاظی اور مبالغہ آرائی سے نجات دلائی۔ اردو نثر ان کے احسان سے گرانبار ہے۔ سر سید کی بنیادی فکر میں فرقہ واریت کے لیے جگہ نہ تھی۔ اقبال نے ۱۹۰۵ء میں سر سید کی لوح تربت سے یہ صدا بجا طور سنی تھی۔
وانہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنے زبان
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشریہاں
علامہ اقبال سرسید کے بڑے مداح تھے۔ وہ سرسید کے کارناموں کے معترف تھے،انھیں ایک عظیم انسان سمجھتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے استاد میر حسن پنجاب میںسرسید کے زبردست حامی اور ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ پنجاب ہی وہ خطۂ ارض تھا جہاں سرسید کی تعلیمی تحریک کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اس سلسلے میں میر حسن نے ان کی خاص مدد کی ۔اس لئے اقبال بھی بچپن ہی سے ان کے عقیدت مند تھے۔
سید نذیر نیازی کو مخاطب کرکے ایک بار انھوں نے فرمایا:
ـ’’سرسید کی ذات بڑی ہمہ گیر تھی۔ افسوس ہے کہ مسلمانوںکو پھر ویسا کوئی رہنما نہیں ملا‘‘۔سرسید نے تہذیب الاخلاق نکالا، علی گڑھ کالج قائم کیا۔ مسائل ِ الٰہیات پر قلم اُٹھایاتو اس سے ان کا مدعایہ تھاکہ مسلمانوں کو اپنی وحدت کا شعور ہو۔ وہ ایک قوم ہے لہٰذا بحیثیت قوم انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ مغرب کے سیاسی، معاشی استیلا ، علوم و فنون میںان کے اجتہادات نے ہمارے لیے کیا مسائل پیدا کردیے ہیں۔ وہ اعتماد رکھیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور علم وحکمت کی جو رو انگریزی تسلط کے ساتھ آ گئی ہے۔ اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ، ہم اس سے استفادہ کر سکتے ہیں اور کر نا بھی چاہیے۔ اسلامی عقائد کو اِ س سے کوئی خطرہ نہیں ۔ علامہ اقبال کی شہرۂ آفاق نظم ـ’’ طلبۂ علی گڑھ‘‘ کے نام انھی خوشگوار یادوں کی انجمن سے آراستہ ہے:
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے خرد مندوں کا طرز کلام اور ہے
جذب حرم سے ہے فروغ ِ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے اُس کا نظام اور ہے