مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما اپنے مشن کے اولین دورے پر سرینگر پہنچے ہیں اور آئندہ چھ روز کے دوران ریاست میں انکا مختلف سیاسی، سماجی اور تجارتی حلقوں سے تبادلہ خیال کرنے کا پروگرام ہے۔ مسٹر شرما ایک ایسے وقت پر کشمیر پہنچے ہیں جب وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر ویشو ہندو پریشد کے سربراہ پروتن توگڑیا تک دائیں بازو کی جماعتوں کے قائدین نے کشمیر مسئلہ کے حوالے سے اشتعال انگیز بیان بازیوں کا محاز کھول کر رکھا ہے۔ حالانکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی بھی تنازعہ کے حوالہ سے مفا ہمانہ راہیں تلاش کرنے کے لئے اشتعال اور انگیخت کو ایک طرف رکھنا اولین شرط ہوتی ہے، لیکن ایسا نظرنہیں آ رہا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ماحول میں پہلے سے موجود تنائو میں مزید اضافہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اور سب ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب مسٹر شرما کے مشن کے حوالے سے کلیدی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ہے جبکہ مزاحمتی خیمے نے اس عمل کی افادیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مسٹر شرما سے نہ ملنےکا اعلانیہ اظہا ربھی کیا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسٹر شرما کے تقرر کے فوراً بعد سے انکے مشن کے خطوط ،اہداف اور دائرہ کار کے حوالے سے لامتناہی بیان بازیوںکے بہ سبب کنفیوژن کی صورتحا ل پیدا ہوئی ، جسے واضح طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ دائیں بازو کو چھوڑ کر مرکز محور اور بائیں بازو خیمے کے علاوہ سول سوسائٹی اور تجارت پیشہ حلقہ کاغالب حصہ اس خیال سے متفق ہے کہ مزاحمتی خیمہ کو ایک طرف کرکے مذاکراتی سلسلہ سے حاصل ہونے والے نتائج نہ تو دیر پا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی نتیجہ خیز، کیونکہ گزشتہ ربع صدی سے ریاست کےا ند رجو حالات رہے ہیں اُس میں مزاحمتی جماعتوں کا ایک اہم رول رہا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اگر چہ یہ الزام بار بار لگایا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کی شہ پہ ہو رہا ہے لیکن اس سارے منظر نامے میں اُن حقائق کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اس مسئلے سے کن حوالوں سے جڑاہوا ہے۔ اس سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ کشمیر کے مسئلےکی بنیادیں برصغیر ہند کی تقسیم میں پیوست ہیں اور گزشتہ پون صدی کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 3مسلح جنگیں برپا ہوئیں، جو ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے اقتصادی حالات پر مسلسل منفی اثرات ڈالنے کا ایک اہم سبب بنے اور جسکا خمیازہ برصغیر کے غریب لوگوں کو اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا کشمیر حل کو لے کر اُن تمام زائویوں سے امکانات تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جو اس مسئلہ سے تاریخی طور جڑے ہوئے ہیں۔ اگر محض چند مخصوص خطوں یا طبقوں کے نمائندوں سے تبادلہ خیال کو ہی مشن کی اصل سمجھا جائے تو یہ حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا مذاکراتی عمل سے مثبت نتائج کے حصول کے لئے مزاحمتی خیمے اور پاکستان کے ساتھ بات چیت کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک اوراہم بات ، جس پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ ماضی میں کشمیر کے حوالے سے مذاکرات کی ایک بھر پور تاریخ رہی ہے اور انکے نتیجہ میں کئی رپورٹیں مرکزی حکومت کو پیش کی گئی تھیں مگر یہ بدقسمتی ہے کہ وہ حکومتی سیاست کی شکار ہو کر ٹھنڈے بستے کی نذر ہوگئیں۔مسٹر شرما اگر اپنے مذاکراتی عمل کو اُس سیاست سےالگ رکھ کر کوئی قابل عمل راستہ تلاش کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں ان رپورٹوں کو بھی خاطر میں لانا چاہئے، بھلے ہی وزیراعظم سے لے کر زیریں سطح تک کے بھاجپا قائیدین داخلی خود مختاری کی بحالی کے مطالبے کو آزادی کے مطالبہ کے مترادف جتلانے کے جتن کریں۔ داخلی خود مختاری اور الحاق ہند کے رشتہ کو جھٹلانا تاریخ سے ناواقفیت کی جاہلانہ دلیل کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ اسکی بنیادیں آئین ہندکو جموںوکشمیر کے آئین کے اندر پیوست ہیں۔ان تمام حالات کو مدنظر رکھ کر ہی مذاکراتی عمل کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ مسٹر شرما نے کہا ہے کہ انکے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے بلکہ وہ تمام امکانات کا جائزہ لینے میں سنجیدہ ہیں، لہٰذا جن ذاویوںکا ذکر ہوا ہے اُن ذاویوں کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہوگا۔ بے شک چھوٹے چھوٹے گروپ ان سے ملنے کےلئے بڑھ بڑھ کر سامنے آئینگے لیکن نظر اس امر پر رہنی چاہئے کہ وہ حلقے نظر انداز نہ ہوں جو زمینی سطح پر حالات میں تبدیلی لانے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ مین اسٹریم کے ساتھ ساتھ مزاحمتی خیمہ بھی خاطر خواہ سیاسی مکانیت کاحامل ہے لہٰذا اسےنظر انداز کرکے آگے بڑھنے کی اُمید رکھنا عبث ہوگا۔