بی جے پی کی کشمیر پالیسی اب کھل کر سامنے آ رہی ہے اور اس میں سخت گیر عناصر کا نمایاں کردار بہت واضح طور سے ابھر کرسامنے آ رہا ہے ۔ ایک طرف کشمیریوں کی مزاحمتی قیادت کو نہ صرف NIAاور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے الجھانے کی کاروائیاں انجام دی جا رہی ہیں تو دوسری طرف سابقہ آئی بی سربراہ مسٹر دنیشور شرما کو مذاکرات کار مقرر کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے تئیں سنجیدگی کا بھی تاثر دیا جا رہا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ نئی دلی نے نہ صرف مذاکرات کیلئے اپنی مرضی کا وقت چنا ہے بلکہ کسی بھی طرح کے مذاکرات کے پہلے اس کی کوشش ہے کہ مذاحمتی قیادت کو جس قدر ممکن ہو اس حد تک دفاعی رخ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ نئی دلی کیلئے مذاکرات کے دوران نفسیاتی برتری قائم رکھنا ممکن ہو جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ نئی دلی نے کشمیریوں کو بلا شبہ مذاکرات کے حوالے سے مخمصہ میں ڈال دیا ہے ۔یہ واضح ہے کہ ایک طرف حریت قیادت کو مختلف بہانوں سے مشغول رکھا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف کانگریس اور بی جے پی کشمیر مسئلہ کے حل کے نام پر مذاکرات کے نام پر ایسی سیاست کر رہی ہیں جس کا انجام فی الحال یہی نظر آتا ہے کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوتے دکھا ئی دے رہے ہیں کیونکہ مزاحمتی قیادت کیلئے ایسی صورتحال پیدا کی گئی ہے کہ جہاں وہ مذاکرات کے نام پر وقت گذاری کا خطرہ مول نہیں لے سکتی اور لاکھ خامیوں کے باوجود مزاحمتی قیادت کی شرکت کے سوا ان مذاکرات سے کوئی با مقصد نتیجہ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر مذاحمتی قیادت مذاکرات کی میز پر نئی دلی کچھ مراعات دینا بھی چاہئے شائد نہیں دے سکتی جس کی غالب وجہ یہ ہے کہ مزاحمتی قیادت عوامی مزاحمت کی پیداوار ہے نہ کہ موجودہ مذاحمت قیادت کی پیداوار ہے۔ اگر 1989ء میں مسلح جد و جہد کے نتیجے میں عوامی شورش پیدا نہیں ہوئی ہوتی تو موجودہ مزاحمتی قیادت کا وجود کم از کم آج کی شکل میں نہیں ہوتا ۔ لہذا اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حریت یا کوئی اور حالات کی پیداوار ہیں اور حالات کے بدلتے ہوئے دھاروں نے نے ہی انہیںکسی خاص ڈگر پر چلنے کیلئے مجبور کیا ہے ۔ ایسے میں جب وہ خود ہی قربانیوں اور جذبات کے اکیلئے وارث ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کے ہرگز یہ ممکن نہیں کہ اپنے موقف سے انحراف کر سکیں۔ اگر چہ دنیشور شرما کی مذاکرات کار کے حوالے سے تقرری کا عمومی طور سے خیر مقدم کئے جانے کی امید تھی لیکن جسطرح کانگریس اور بی جے پی نے ایک دوسرے پر سیاسی برتری حاصل کرنے کیلئے پورے مذاکراتی عمل کو اکھاڑے کے طور استعمال کیا اس نے مذاکرات کار کے مشن کو اور بھی زیادہ مشکل بنا دیا ہے ۔ ساتھ ہی ان دونوں قومی سطح کی جماعتوں کے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ نے عام آدمی تک کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر وزیر اعظم تک خود ہی مذاکرات شروع ہونے سے پہلے اٹانومی کے مطالبے کوبھی علیحدگی پسندی سے تعبیر کریں تو ان مذاکرات کا ہونا اور نہ ہونا ایک ہی بات ہے ۔ نئی دلی جان بوجھ کر متضاد باتیں کر رہی ہے کبھی اٹانومی کو بھی جہاں نا قبول قرار دیا جاتا ہے وہاں اگلی سانس میں بلا شرط بات چیت کی بھی پیشکش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ دنیشور شرما کو اس بات کا مکمل اختیار ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فریقین کاانتخاب کریں ایسے میں نہ صرف حریت کیلئے مذاکرات قبول کرنے یا رد کرنے کے متعلق حتمی فیصلہ لینا اتنا آسان نہیں جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے ۔ یہ بات ہر کسی کو سمجھنی چاہئے کہ نئی دلی آخر مذاکرات میں کیوں مخلص ہو اور وہ لوگ جو دلی پر مذاکرات میں مخلص نہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں دراصل انتہائی اہم بنیادی نقطہ سے آنکھیں چرا رہے ہیں کہ مذاکراتی میز پر نئی دلی کا مقدمہ اتنا وزن دار اور طاقتور نہیں ہے جتنا کہ میڈیا اور دیگر ذرائع سے باور کرایا جا رہا ہے ۔ لہٰذا نئی دلی جو بھی سنجیدہ یا غیر سنجیدہ چالیں چلے گی اس میں حیرانگی اور ناراضگی کی کوئی معقول وجہ بظاہر نظر آتی۔ یہ حریت اور دیگر کشمیری نمائندوں کا کا م ہے کہ وہ نئی دلی کی ہر چال کا ممکنہ حد تک توڑ کرے ۔ آخر کشمیریوں کی قربانیوں کا حساب کتاب حریت اور دیگر جماعتوں سے ہی لیا جائے گا نہ کہ دلی سے ۔ اگر حریت اور دیگر لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ نئی دلی نے ایک غیر سیاسی اور کم رتبہ کی شخصیت کو مذاکرات کار نامزد کرکے اپنی غیر سنجیدگی کو ظاہر کیا ہے تو حریت کی قیادت بھی اسی طرز پر کسی مذاکرات کار کو مقرر کرکے گیند دلی کے کورٹ میں واپس دھکیل سکتی ہے اور ساتھ ہی دلی کے خفیہ عزائم کو بے نقاب کر سکتی ہے ۔ حریت سے بھی زیادہ مذاکرات کے حوالے سے مین اسٹریم لوگوں کا رول بنتا ہے۔ اگر حریت داخلی مجبوریوں اور حالات کی وجہ سے براہ راست مذاکرات میں شامل نہیں ہو سکتی تو مین اسٹریم جماعتوں پر لازم ہے کہ مزاحمتی جماعتوں کے رول کو مذاکرات کے نام پر گھٹانے کی دانستہ کوشش نہ کریں ۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی بذات خود اٹانومی کا مطالبہ کرنے والوں کو علیحدگی پسند کہہ کر پہلے ہی اپنے عزائم کا اظہار کر چکے ہیں تو پھر این سی اور پی ڈی پی مسلسل ہندوستانی آئین کے اندر مسلسل مسئلہ کے حل کی بھیک مانگ کر کیوں اصل مسئلہ کی اہمیت کو ختم کرنے کے در پے ہیں۔ اہل کشمیر نئی دلی کی چالوں اور سازشوں کو روکنے کے لئے تمام نظریں یہاں کی سیاسی جماعتوں پر لگائے بیٹھے ہیں۔ انہیں یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ آخر ان کے قیادت کے دعویدار وں کے پاس آخر کار کونسا روڑ میپ ہے جو کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے نئی دلی کو اپنے موقف میں نرمی لانے کیلئے مجبور کرے۔ کشمیری قیادت جسطرح مختلف خانوں میں بکھر کر رہ گئی ہے اور ہر ایک کا بھانت بھانت کی بولیاں بولنا نئی دلی کے کام کو آسان تر بنانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے ۔ اچھا رہتا اگر مین اسٹریم اور علیحدگی پسند اپنے گریبان میں جھانک کر کم از کم اتنا اندازہ لگاتے کہ ان کی حیثیت اور ان کی اوقات کیا ہیں اور یہ سمجھنے کو کوشش کرتے کہ نئی دلی کوفی الحال ان میں سے کسی کا بھی ذرہ بھر خوف نہیں ہے اور وہ بیشتر لوگوں کو اپنے مہروں کے طور استعمال کرنے کا سفر تیز رفتاری کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں عوام کا مایوس ہونا فطری بات ہے اور انہیں صرف ’’مایوسی کفر ہے‘‘کہہ کر جھوٹی تسلیاں دینا شائد کفر سے بھی بڑا کفر ہے ۔ بدلتے حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی میں معقول تبدیلی لانا اور پھر انتہائی نامساعد اور نا پسندیدہ حالات کو بھی اپنی منزل کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہی کامیاب قیادت کی خوبی ہوتی ہے۔ کشمیری قیادت کو متحد ہو کر دلی کی ہر چال اور ہر دائو کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ مذاکرات سے مسلسل انحراف کا سب سے زیادہ نقصان کشمیر ی قوم کو ہی ہوگا ۔ کم از کم ہندوستانی میڈیا کے اس منفی پروپگنڈہ جس میں ہر سچ بات بولنے والے کو پاکستانی دلال اور ناشائستہ القاب سے نوازا جاتا ہے کا بھانڈا چوراہے پر پھوڑ جاتا جس کا مقصد پورے ہندوستا ن اور باقی دنیا میں کشمیریوں کی جائز مزاحمتی تحریک کو چند لوگوں کی شرارت، پاکستا ن کی اعانت سے چلنے والی شورش اور مسلم انتہا پسند ی جیسے نام دیکر ہر سچی بات کہنے والے کا منہ بند کراناہے ۔ یہ صحیح ہے کہ نئی دلی نے از خود حریت اور دیگر مزاحمتی جماعتوں کے لئے مذاکرات کی حامی بھرنے کے فعل کو پہلے ہی سبوتاژ کر دیا ہے لیکن ہم پر لازمی ہے کہ آخر نئی دلی نے ایسا کیوں کیا اور یہ بات اب واضح ہے کہ ایک طرف مذاکرات کی دعوت دیکر تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہم مسئلہ کا پر امن حل چاہتے ہیں اور دوسری طرف NIAاور EDکے غلط استعمال کے ذریعہ اور اٹانومی کے معاملے کو اعلیٰ سطح پر یکسر مسترد کرکے ہندوستان کے سخت گیر عناصر کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم نے اپنی سخت گیر پالیسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے ۔ طاقت کا توازن ہر طرح سے نئی دلی کے حق میں ہے ایسے میں اہل کشمیر کو اپنا برحق مقدمہ صحیح انداز سے پیش کرکے نہ صرف ہندوستانی عوام کو دلی کے حکمرانو ں کے اصل عزائم سے باخبر کرنا ہوگا بلکہ اپنے لوگوں کے حوصلوں کو بھی بلند رکھنا ہوگا ۔ حالات کی سختیاں اور بھارت کی ہٹ دھرمی کا رونا رو کر نہ مین اسٹریم جماعتیں اور نہ ہی علیحدگی پسند اپنے لوگوں کے ارمانوں، حقوق اور مفادات کو نہ ہی 35-Aاور 370کی حفاظت کے نام پر اور نہ ہی مسلسل بات چیت کوفریب اور لا حاصل کہہ کر دفن کر سکتے ہیں ۔ نئی دلی نہ کبھی ماضی میں مسئلہ کے حل کے حوالے سے مخلص تھی اور نہ ہمیں کبھی یہ امید رکھنی چاہئے کہ وہ مستقبل میں کبھی خلوص کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ ہو سکتی ہے ۔ یہ سب کشمیری قیادت کاکام ہے کہ وہ ہوائوں کا رُخ بدلے اور مایوسیوں کے سایوں کو بہاروں کی امید میں تبدیل کرنے کیلئے اپنی جامع حکمت عملی ترتیب دے۔