’’ ریاستی حکام کھلے عام مسلم کُش پالیسی میں شریک رہے۔ انہوں نے ریاست کی سرحد پر پاکستانی علا قوں سیالکوٹ اور گجرات کے مقام پر تین کلو میٹر آس پاس کے علاقوں کو اپنی تحو یل میں لے لیا ۔ اُس علاقے سے پہلے ہندؤں کو نکا لا گیا اور اسکے بعد مسلما نوں کا یاتو قتل عام کیا گیا یا انہیں پاکستان بھگا دیا گیا ۔ کئی دفعہ ڈوگرہ فوجی دستوں نے پاکستان کے علا قے میں داخل ہو کر کئی گاؤں کو تباہ کر دیا ۔ اکتو بر کے آغاز میں بر طانو ی مبصر نے ایسے ہی پاکستان طرف کے ایک گا ؤں میں سترہ سو مسلما ن مردوں ، عورتوں اور بچوں کی قتل ہوئی لا شوں کو دیکھا ۔۔۔‘‘
انگریز مصنف کرسٹو فر سنیڈین ریاستی حکو مت اور ڈوگرہ فورسز کے ملوث ہو نے کی ثبوٹ کے طور لکھتے ہیں ، ’’ اکتوبرکے آغاز سے 9 نو مبر کی تاریخ تک مسلما نوں کے قتل عام کے دس بڑے واقعات پیش آئے جن میں۲۰اکتو بر کو کٹھوعہ اور اکھنو ر پل کے قریب ، ۲۲اکتوبر کو سانبہ ، ۲۳اکتوبر کو ماؤگاؤں ، ۵ اور ۶نو مبر کو جموں شہر میں اور ۹ نو مبر کو سو چیت گھر کے نزدیک قتل عام کے واقعات شا مل ہیں ۔جن میں ستر ہزار مسلما نوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ ان سات قتل عام کے واقعات میں چار اُس وقت انجام دئے گئے جب ابھی مہاراجہ کی حکو مت قائم تھی اور مہاراجہ نے ابھی بھارت کے ساتھ الحا ق نہیں کیا تھا ۔ ان تمام واقعات میں قاتلوں کا تعلق ریاستی اور ڈوگرہ فو جیو ں سے تھا ۔ مسلمانوں کا وحشیانہ طور قتل عام کرنے کے ان واقعات کے ایک موقعہ پر ریاست کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آف انٹلیجنس اور بھارتی وزیر اعظم کے ہمرازنے جموں سے پنڈت جو اہر لال نہرو کو ایک خط روانہ کرتے ہوئے لکھا کہ فوج کے ڈوگرہ اور راجپوت بٹالین سے وابستہ سپاہی بلوائیوں کی طرح بستیوں کی بستیوں کو نذر آتش، عورتوں کو اغوا کرکے انکی عصمت دری کر رہے ہیں۔ مہاراجہ اور ارباب اقتدار کی جانب سے انہیں کھلی اجاز ت ملی ہو ئی ہے۔ ۔‘‘اس حو الے سے ریاست کے پہلے مسلمان انڈین سول سروس آفیسر قدرت اللہ شہاب اپنی سوانح میں لکھتے ہیں :
’’ پاکستان کے ساتھstandstill agreement طے ہو نے کے فوراً بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے فیصلہ کیا کہ صوبہ جموں سے تمام مسلم آبادی کا خا تمہ ہر حال میں کیا جائے گا ۔ اس کام کو انجام دینے کے لئے اُس نے کمانڈ اپنے ہاتھوں میں لے لی ۔ ریاستی فورسز ، پو لیس ، ڈوگرہ فوج اور جنو نی ہندو فرقہ پرست قوتوں کے جتھے مسلمانوں پر بھوکے شیر کے ما نند ٹوٹ پڑے۔۔‘‘
جموں و کشمیرکلچرل اکیڈمی کے سابق سیکرٹری اور مؤرخ خا لد بشیر کا جموں قتل عام پر ایک تفصیلی رپورٹ ہفت روزہ ’’کشمیر لائف‘‘ میں شائع ہوا ہے ۔ مصنف نے ازخود جموں صوبہ کے چند معتبر اشخاص جو 1947میں جموں میں مسلما نوں کے قتل عام کے چشم دید گواہ ہیںکے بیا نا ت ریکارڈ کئے ہیں ۔ جن سے مہاراجہ اور اسکی حکو مت کا مسلمانوں کے قتل عام میںملوث اور شریک ہو نا واضح ہو جاتا ہے۔ ان میں سے چند کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے ۔
معروف سیاسی کارکن اور سنجیدہ فکرتجزیہ کار کرشن دیو سیٹھی کا کہنا ہے کہ ’’ سرینگر سے جموں واپس پہنچنے پر مہاراجہ اور اسکی انتظامیہ نے فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے میں کلیدی رول ادا کیا ۔ مہاراجہ نے آر ایس ایس کو جموں میںمضبوطہ کر نے کے لئے ذاتی طور اہم کام کیا ۔ گورنر چٹ رام چوپرا اور ڈی آئی جی پو لیس اُودے چاند اور ا نتظا میہ نے براہ راست قتل عام میںشرکت کی۔ مسلما نوں کے قتل عام کی سازش رچا نے اور منصوبہ کو منظم انداز سے نجام دینے کے لئے مہاراجہ اور اسکی نتظا میہ سہولت کار کا کام کر رہی تھی ۔ تشدد اور دنگوں کے دوران مہاراجہ نے کئی جگہوں کا دورہ کر کے فرقہ وارنہ تشدد کو ٹھنڈا کر کے بجا ئے اس میں مزید اشتعال پیدا کیا ۔ قاتلوں اور فسادیوں کی حو صلہ افزائی اعلانیہ کر رہا تھا ۔۔‘‘‘
معروف صحافی وید بھسین جو 1947میںپیش آئے سانحات کے عینی گواہ رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ’’ صوبہ جموں میں مسلما نوں کا قتل عام کر کے تناسب آبادی کو تبدیل کر نے کی پوری ذمہ داری حکو مت اور سرکاری انتظا میہ پر ہے ۔ ان خو فناک حا لات میںان دنو ںمیں نے طلباء لیڈر ہو نے کے ناطے ایک پمفلٹ ’’انسانیت کے نام ‘‘ شائع کروایا جس میں لو گوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ اور امن و امان کے ساتھ رہنے کی اپیل کی گئی تھی ۔گورنر چٹ رام چو پرا نے اس کی سخت نو ٹس لے کر مجھے اپنے پاس حا ضر ہو نے کا بلاوا بھیج دیا ۔ میری سخت سرزنش کر کے مجھے ایسا کر نے سے باز آنے اور بصورت دیگر گرفتار کر کے جیل بھیج دینے کی دھمکی دے دی۔ چو پرا نے مجھے کہا کہ ہندوں اور سکھو ں کو مسلما نو ں سے خطر ہ لاحق تھا اس لئے انہیں اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دی جا رہی ہے ۔ مہاراجہ کے آخری وزیراعظم مہر چند مہاجن نے ایک میٹنگ طلب کی جس میں مجھے بھی شرکت کے لئے کہا گیا ۔ میٹنگ کے دوران مہاجن نے جنگلی علاقہ جو مہاراجہ کے محل کے نیچے کی طرف واقع تھا کی طرف انگلی سے اشار ہ کیا جہاں گوجر مسلمانو ں کے لاشوں کے ڈھیر پڑے تھے جنہیں حا ل ہی گا جر مو لیو ں کی طر ح کا ٹا گیا تھا ہے ۔ ایسا کر کے اکثریت کو اقلیت میں بدل کر آبادی میں تنا سب تبدیل کیا جا سکتا ہے۔۔‘‘
کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر جی کے ریڈی جسے جمو ں و کشمیر سے نکا لا گیا تھا نے 28اکتو بر1947کو’’ سول اینڈ ملٹری گزیٹ ‘‘ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ’’ میں نے اپنی آنکھو ں سے ہتھیار بند بلوائیوں اور فوجی سپا ہیوں کو پاکستان کی طرف ہجرت کر نے والے نہتے مسلمانو ں پر گو لیا ں چلا تے ہوئے اور انکی لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ریاستی حکام اور فو جی آفیسروں کو مسلمان مہا جروں کی کانوائی پر بلوائیوں کو ٹوٹ پڑنے کا حکم دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ایک ہی رات میں تقریباً چوبیس گاؤں کو آگ لگا کر راکھ کی ڈھیر میں تبدیل ہو تے ہو ئے دیکھا ہے۔۔۔۔۔‘‘
معروف سیاسی کارکن بلراج پوری اپنی آنکھوں دیکھی بیان کر تے ہوئے کہتے ہیں ۔’’ مسلما نو ں کا قتل عام مہاراجہ حکو مت کا ایک منظم منصوبہ تھا ۔ تشدد اور لوٹ مار میں سرکاری انتظا میہ کا ہاتھ با لکل عیا ں تھا ۔میں نے ریاسی سے ایک ٹیلی گرام بھیج کر مسلما نوں پر خو ف و خطر کے منڈلاتے بادل سے سرکار کو با خبر کر دیا ۔ بجا ئے یہ کہ سرکار کی جانب سے ان کی حفاظت کے لئے سیکورٹی دستے روانہ کئے جاتے فرقہ پرست ہندو پر مشتمل ایک جتھ دوسرے دن میرے پاس آپہنچا ۔ اس جتھے کے لیڈر نے آکر مجھ سے پو چھا کہ مسلما نوں کو کہا ں پر خطرہ لا حق ہے۔ میرے لئے یہ ایک عجیب صورتحا ل تھا کیونکہ انہی لو گوں کے خلاف میں نے سرکار کو ٹیلی گرام روانہ کیا تھا اور یہی لو گ مجھ سے کہاں پر مسلما نو ں کو خطرہ ہو نے کے بابت پو چھتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ سرکاری مشینری براہ راست قتل عام میں ملوث تھی ورنہ ان بلوائیوں کو ٹیلی گرام سے متعلق کیسے جا نکاری ہو تی ۔ ہری سنگھ نے مسلما نوں کے قتل عام پر کبھی لب کشائی نہیں کی اور نہ ہی اُن لو گوں کو ایکسپوذ کر نے کی بات کی جو اس بربریت کے ذمہ دار رہے ہوں ۔ کیونکہ مہاراجہ یہ جا نتا تھا کہ اسکے اپنے ہاتھ مسلما نو ں کے خو ن سے رنگے ہوئے ہیں ۔
رقص خو نین اور قتل عام
مسلما نوں کا قتل عام اور جلاؤ اور گھیراؤ کا سلسلہ سب سے پہلے صوبہ جموں کے ریاسی، ادھمپور ، کٹھوعہ اور چینانی جا گیر کے علاقوں میںشروع کر دیا گیا ۔ کمسن بچوں ، بزرگ مرد و خواتین میںکو ئی تمیز کئے بغیر وحشناک خو نین مناظر بر پا کر دئے گئے ۔ کئی دفعہ متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کر نے کا وعدہ کر کے انہیں سر راہ بے دردی سے قتل کر دیا گیا ۔موت کایہ ننگا ناچ کئی دنوں تک جاری رہا ۔ ریاسی کا قتل عام صوبہ جموں میں مسلما نوں کے قتل عام کاسب سے بڑا واقعہ ہے ۔ ریاسی قصبہ کی آٹھ ہزار مسلما نوں کی آبادی میں صرف ڈہائی سو لو گ بچ نکلنے میں کا میا ب ہو ئے ۔ ادھمپور ضلع ہندو بلوائیوں کی سفاکیت اور بربریت کی دوسری مثال ہے۔ فسادات میں بچ نکلنے والی خا تون اور سابق ممبر قانو ن ساز وزیر بیگم ایک درد ناک اور دل دہلانے والے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہے ’’ بچوں کو قتل کر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر چاول کے ساتھ پکایا گیا اور پھر یہی کھا نا قتل عام میں بچ نکلنے والے متاثرین کو کھا نے کے لئے پیش کیا گیا ۔ ان معصوم بچوں کی ننھی انگلیوں کے ٹکڑوں کو کھانے میں دیکھ کر خواتین حوش و ہواس کھو کر چیخ و پکار میں ڈھوب کر رہ گئیں۔ پنجابی اور اردو کے مشہور افسانہ نگار خالد حسین کے والد کو بلوائیوں نے پکڑ کر اپنی مددکے لئے ا للہ کو فریاد کر نے کے لئے کہا ۔ موصوف نے اپنے سینے کے ساتھ قران پاک کا نسخہ تھامے رکھا تھا ۔ اسے پہلے کہ یہ لو گ اسے قتل کرتے آپ نے بلند آواز میں اذان دے کر دہکتی آگ میں چھلانگ مار دی اور زندہ آگ میں جل کر رہ گیا ۔ چینانی جا گیر خو نین رقص کی ایک اور مثال ہے جہاں بائیس سو مسلما نوں کی آبادی میں صرف نو سو لو گ بچ نکنے میں کا میاب ہو ئے ۔ اسی طرح کٹھو عہ ضلع میں مسلما نوں کی کل آبادی تقریباً ۴۵۰۰۰؍ تھی۔ ۲۰ ؍اکتوبر 1947کو کٹھوعہ قصبہ کے نزدیک آٹھ ہزار مسلما نوں کو قتل کیا گیا ۔ جموں شہر میں صوبہ کے دوسرے علاقوں میں مسلما نو ں کے قتل عام کی خبریں جو ں جو ں پہنچتی تھی قصبہ کے مسلما نوں میں خو ف و خطر اتنا ہی بڑھ رہا تھا ۔ اکتوبر کے وسط تک جموں شہر میں مجمو عی طور امن و امان کے حا لا ت تھے اور شہر سے باہر ی علاقوں سے لوگ پاکستان کی طرف ہجرت کر نے کی غرض سے گروہوں میں نکل رہے تھے جن میں کچھ بدقسمت گروہ بیچ راستے ہندو بلوائیوں کے لوٹ مار شکار بنتے رہے ۔ خو ف اور دہشت کے بڑھتے ما حول نے جموں شہر کے مسلما نوں کو ہجرت کرنے کے لئے مجبو ر کر دیا ۔ ہندو و سکھ بلوائیوں نے مسلم علاقوں کو اپنے نرغے میں لے لیا ۔ مسلمان علاقوں میں پانی اور غذائی اجناس کی سپلائی کو روک دیا گیا ۔ مسلما نوں کا جموں شہر میں قتل عام کر نے کے لئے جھوٹی افواہ بازی کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ اسی خو ف و دہشت کے ما حو ل میں انتظا میہ نے جموں شہر میں کر فیو کے نفاذ کا اعلان کر دیا اور یہ کر فیو صرف مسلما نوں کے لئے تھا جب کہ بلوائی اپنی مرضی کے مطابق آزادانہ طور گھو م پھیر رہے تھے۔ ان خو فناک حالات میں شہر کے مسلمانوں کو پولیس لائن کے علاقے میں جمع ہو نے کے لئے کہا گیا تاکہ گا ڑیوں میں سوار کر کے انہیں پاکستان روانہ کیا جائے ۔ ۵ نو مبر کی صبح کو چا لیس سے پچاس گاڑیوں پر سوار ہزاروں لو گوں پر مشتمل قافلہ فوجی دستوں کی نگرانی میں پاکستان کے لئے روانہ کیا گیا ۔ لیکن بیچ راستہ یہ قافلہ بلوائیوں اور نگرانی پر معمور فوجی دستوں کی قتل وغارت کا نشانہ بن گیا ۔ خواتین کو اغوا زنی اور عصمت دری کا نشانہ بنا یا گیا ۔ گاڑیوں سے خون کے نشانات کو صاف کر کے واپس جموں روانہ کریا گیا تاکہ دوسرا قافلہ لاکر اسکے ساتھ بھی ایسا ہی سلو ک کیا جائے۔ پورے سانحہ کے دوراں ہزاروں خواتین کیعزت ریزی کی گئی اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین کو اغوا کر کے انہیں دوسرے شہروں اور ریاستوں میں لے جایا گیا ۔ بربریت اور ظلم وستم کے سینکڑوں واقعات ایسے ہیں جنہیں ضبط تحریر میںلانے کے لئے ہاتھ کانپ اٹھتے ہیں اور انسانی وجود سن ہو کر رہ جاتا ہے۔ صوبہ جموں میں مسلمانوں کے قتل عام اور جبری نقل مکانی کی سازش اور منصوبہ رچنے والے اپنے مذموم مقصد میں کا میاب رہے ۔ ان کے پیش نظر صوبہ میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لا نے کا پلان تھا، جسے انہوں حا صل بھی کر لیا ۔ قتل عام سے پہلے صوبہ میں مسلمان اکثریت میں تھے لیکن قتل عام کے بعد یہی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ 1961ء کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطا بق صوبہ جموں مرم شماری کے عمل کے دوران ۱۵۵ایسے گاؤں پائے گئے جو انسانی آبادی سے خا لی ویران اور سنسان پڑے تھے ۔ ان گاوں کی آبادی کا یا تو 47ء میں قتل عام کیا گیا یا تو وہ نقل مکانی کر کے پاکستان چلے گئے ہیں ۔ حکو مت کے پاس جموں قتل عام اور نقل مکانی کے حوالے سے کوئی ریکارڈ اور نہ ہی تفصلات مو جو د ہیں ۔ اتنے بڑے انسانی المیہ اور سانحہ کی سرکاری سطح پر آج تک کو ئی تحقیقات کر نے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تاکہ ملوثین کو کیفر کردا تک پہنچا ہا جائے اور یہانتک کہ لوٹ مار ، آتش زنی ، قتل عام اور اغوا زنی کے ان بھیانک واقعات کے خلاف کہیں بھی ایک ایف آئی آر تک درج کیا جا سکا ہے ۔ (ختم شد)
رابطہ [email protected]
�������