سترہ سو سات میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرتا چلاگیا ۔ متحدہ ہندوستان میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ اس پرآشوب دورمیں جب انگریز نت نئی سامراجی پالیسیوں اور فتنہ انگیز سازشوں سے ملک کے چپے چپے پر قابض ہورہے تھے او رتمام ملک ہمالیہ سے لے کر راس کماری تک قتل ، غارت گری اور لوٹ مار کا جولان گاہ بناہواتھا، کہ ا سی اثناء میںجنوبی ہند کی ریاست میسو رمیں ضلع کولار کے بودی کوٹہ نامی مقام پر ایک عظیم المر تبت بچے نے 1722ء میں ولادت پائی۔ اس کانام ’’حیدرعلی‘‘ رکھا گیا اور والد کا نام فتح محمد ا ور والدہ کا نام بی بھی مجیدہ تھا۔ اس وقت حیدر علی کے والد شیخ فتح محمد صوبہ دار آعابد خان کے ماتحت منصب ِدوہزار پیادہ اور پانچ سو سوار مع فیل ونقارہ وعلم سے سرفرازتھے۔ اس لئے حیدرعلی کابچپن نہایت آرام و آسائش سے گزرا لیکن اچانک وقت اور قسمت نے کروٹ بدلی۔ حیدر علی کی عمر لگ بھگ پانچ سال کی ہوگی کہ یہاں صوبیداری کے لئے عبدالرسول خان بن عابد خان اور نواب طاہر محمد خان کے درمیان اقتدار کی زبردست جنگ چھڑ گئی۔حیدرعلی کے والد محمد عبدالرسول کے طرف دار تھے۔ اس لڑائی میںعبدالرسول خان کوشکست ہوگئی اور شیخ فتح محمداس لڑائی میں مارے گئے۔ اس وقت حیدرعلی کی والدہ دو کم سن بچوںحیدرعلی اور شہباز کے ساتھ بالاپور میںمقیم تھیں۔ وہاںکا حاکم فتح محمد کا شدید مخالف تھا۔ اس نے حیدرعلی کی والدہ سے ایک خطیر رقم کا مطالبہ بطور سرکاری قرضہ کیا۔ رقم کی عدم ادائیگی پر اس نے فتح محمدکے گھر کاتمام اثاثہ لوٹ لیا حتیٰ کہ کپڑے اور اناج تک نہ چھوڑا۔ غرض بہ مشکل ان گھمبیرحالات سے ان کو چھٹکارا ملا۔ حیدرعلی اور ان کی والدہ کوان کے ایک عزیز نے سر نگا پٹم بلالیا اور بچوں کی روایتی تعلیم فن سپہ گری، تیغ زنی، کمندا فگنی ، اسپ تازی اور تفنگ اندازہ وغیرہ اعلیٰ پیمانے پر کی گئی۔ وقت گزرتارہا اور اب حیدرعلی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ، وہ ایک بہترین فوجی افسر بن چکا تھا۔ اس کی برق دم شمشیر سے ہندوستان کی ایک نئی تاریخ رقم ہونے والی تھی۔وہ اپنے اعلیٰ کردار اورخوش نما عادات واطوار کی بناء پر عوام و خواص کا گردیدہ ہوگیا۔ اس وقت ریاست میسور کی باگ دوڑ دیوراج اور نند راج کے ہاتھوں میںتھی۔ ریاستی امور پر اس کا مکمل قبضہ تھا۔ نیزایک مصلحت کے تحت کرشنا راج کو برائے نام وہاں کا حاکم بنا رکھاتھاجس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھی۔ حیدرعلی راجہ میسور کی فوج میں ایک فوجی افسر کے عہدے پر تعینات تھا۔ چنانچہ ریاست کے علاقہ پائین گھاٹ میں شورش بپا ہوئی تو حیدرعلی نے اپنی قابلیت اور شجاعت سے اس کا قلع قمع کردیا۔ ان معرکوں میںحیدرعلی نے اپنے بہادرانہ جوہر دکھا ئے تو میسور کے وزیر نے ان کوڈنڈی گل کاگورنر بنادیا۔ مختلف شورشوں اور بغاوتوں سے نبردآزما ہوتا ہوا یہ سپوتِ ہند برتری پاکر میسور کی فوج کاسپہ سالار مقرر کیاگیا اور فتح حیدر بہاد ر کے اعزاز سے نوازاگیا۔ حیدرعلی کی قدم قدم پر کامرانی اور کامیابی نے آزمائشیں بھی بڑھادی تھیں۔ اس وقت انگریزوں کے ساتھ ایک بڑی طاقت مراٹھوں کی سراٹھارہی تھی۔ حیدرعلی نے ان کا مردانہ دار مقابلہ کیا اور ان کو جگہ جگہ شکست فاش دی۔ حیدرعلی کا عہد آزمائشوں واور سازشوں سے عبارت رہا۔ ایک طرف انگریز اور دوسری جانب مراٹھوں اور تیسری سمت نظام حیدر آباد کی دوغلی پالیسی نے حیدرعلی کو کبھی سکون کی سانس نہ لینے دی۔ حیدرعلی نے مصلحتاً میسور کے برائے نام پر راجہ کو ایک بڑی جاگیرد ے کر عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ حیدر ی تلوار کی جھنکار اب ریاست میسور سے نکل کر ایوان ایسٹ انڈیا کمپنی تک پہنچ گئی تھی، جس سے برطانوی خواب چکناچور ہورہے تھے۔ کتاب ’’نظام علی خان‘‘ کا مصنف لکھتاہے:
’’چونکہ اس زمانے میں کمپنی کو حیدرعلی کی روز افزوں قوت سے اندیشہ تھاا ور وہ آئے دن کرناٹک اور انگریز کمپنی کے علاقے پر حملہ کرتے رہتے تھے۔ اس بات سے کمپنی کو یہ لازم تھا کہ اس کاکوئی معقول بندوبست کرتی اور ساتھ ساتھ ہی اس امر کا انتظام بھی ضروری تھا کہ دکن کے ان رئیسوں کو قوت نہ فراہم کرے جن کے ساتھ متفق ہوکر حیدر علی خان اپنی قوت میں اضافہ کرسکتے تھے۔ ان امور کی پیش بینی کرتے ہوئے کمپنی نے بندگان عالی (نظام علی خان) کوحیدرعلی خان کے خلاف کھڑا کردیا‘‘۔
حیدرعلی کی اعلیٰ بصیرت سطوت اور حکمت نے دشمنان ملک ووطن کو ہرمحاذ پرما ت دی جس سے انگریز اور اس کے اتحادی بوکھلا اُٹھے تھے۔ مثلاًمنگلورکے محاصرے کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ یہاں حیدرعلی نے آٹھ ہزار چوبیس بندوقیں تیار کرکے آٹھ ہزار سپاہیوںکاایک دستہ اتحادی فوج سے لڑائی کے لئے بھیجا۔ جس وقت انگریزی سپہ سالار نے یہ دیکھا کہ بے شمارفوج اس کے مد مقابل آرہی ہے توہ قلعہ چھوڑ کر بھاگنے کی تیاری کرلے لگا۔ بالآخر حیدری جانباروں نے قلعے پر توپوں کے منہ کھول دئے۔اِ س سے برٹش فوج کے سورما نہایت ہی بے سراسیمگی کی حالات میں اپنا تمام سامان چھوڑ کر ممبئی بھاگ گئے۔ حیدر علی اور اس کے جانشین شیر میسور ٹیپو سلطان نے ہندوستان میںابھرتی ہوئی بغاوتیں اور انگریزی سیلاب کو روکنے کے لئے جن تدبیر اور جانفشانی کی مثالیں قائم کیں۔ مقامی مورخ ایسی تابندہ تاریخ رقم کرنے سے قاصر رہے۔ حیدرعلی کی شجاعت اور بہادری اعلیٰ نظم ونسق اوربے نظیر حکمت عملی کااعتراف بعض ایماندار مغربی تاریخ نگاروں نے کیاہے۔مدراس کے متعلق ایک معاہدے کے ضمن مین مشہور مورخ بورنگ اپنی تاریخ میں لکھتاہے:
’’کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا کہ اپنی نقل وحرکت سے جوصلح اس سے قبل عمل میںآئی ، میسور کے سردار نے اپنی سلیقہ شعاری اور اپنے بودے پن کا ثبوت دیا اور نادانی سے دغاباز محمدعلی پربھروسہ کیامگر حیدرعلی نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے محمدعلی کی فریب دہی کا پورا اندازہ کرلیاتھا‘‘۔
حیدرعلی کے لئے اس وقت جنگوں کی نوعیت اتنی اُلجھی ہوئی تھی کہ دوست اور دشمن کی تمیز کرنا دشوارتھا مگر اس جانبار ہند نے اپنی حسن فہم وفکر سے ہر محاذ کاسامنا کیا اور ان کو زیر کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ جنوبی ہند کی سرزمین کوبدامنی اور غارت گری سے نجات دلانے میںحیدرعلی نے جوکار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں، ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ انگریزوںکے گڑھ میںگھس کر ہی اس کی سرکوبی اور ملک کی ا ٓزادی ہی اس کا نصب العین تھا۔ خوش نصیبی سے اس کے ہونہار فرزند ٹیپو سلطان نے بھی اپنے وطن کی عزت وناموس پر جان دینا فخر سمجھا۔ جن حالات میں اور جس مشکل زمانے میں حیدرعلی اورٹیپو سلطان ملک کی آبرو بچانے میںمصروف تھے، وہ ان کے جو ش و جذبہ کا ہی نتیجہ تھا۔ ورنہ ہندوستان آویزشوں اور فتنوں کے پورے پورے نرغے میں پھنساتھا۔ اس نازک دور میں ہندوستان کی سلامتی کیلئے صف آرائی میںایک تابناک مثال ہے۔ سات دسمبر سترہ سو بیاسی کو ہندستان کی آزادی کا یہ عظیم جرنیل فرشتۂ اجل سے شکست کھا کر اپنے خالق حقیقی سے جاملا اور اپنے پیچھے ایک ایسا مرد مجاہد اپنا جانشین چھوڑ گیا جس پررہتی دنیا ئے انسانیت میںتک رشک کیا جاتارہے گا۔ حیدرعلی کی موت ہندوستان کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان اور صدمہ جانکاہ ثابت ہوئی۔ انگریزوں کے شل ہوتے حوصلے اور اُکھڑتے قدم پھر سے جمنے لگے۔ نواب حیدر علی کس ممتاز شخصیت کے مالک اور بے داغ کردار کے حامل تھے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتاہے کہ پونہ میںجو مراٹھے نانا فرنویس کے تحت انگریزوں سے لڑ رہے تھے اور باوجود فاتح ہونے کے حیدرعلی کی وفات کی خبر پا کر انہوں نے صلح نامہ ’’ سالبی‘‘ پر، جس کو وہ پہلے ٹھکرا چکے تھے، اب سراطاعت خم کرکے قبول کرلیا۔ حیدر علی کی وفات کے وقت انگریزوں کی ہندوستان میں جو حالت تھی ،وہ انگریزمو رخین کی زبانی سنئے۔ نامور مورخ سنکلیز لکھتاہے:
’’ہندستان میں انگریزوں کی حالت اس سے زیادہ خطرے میں کبھی نہیں تھی۔ بنگال پر ناگپور کاراجہ حملہ کرنے والاتھا۔ وسطی ہندوستان میں نانا فرنویس کے تحت مراٹھے انگریزوں سے ایک کامیاب جنگ میںمصروف تھے۔ جنوب میں انگریزی فوجیں جہازوں کی پناہ لئے ہوئے ساحل مدراس پر مقیم تھیں۔ معلوم تویہ ہورہاتھا کہ انگریز ملک میںکوئی دم کے مہمان ہیں۔‘‘
نواب حیدر علی نہایت دوراندیش اور وسیع النظر شخصیت کے حامل تھے۔ انہوںنے وقت کو بھانپ کر ہندوستان کی منشتر قوتوں کو یکجا کرنے کی بھر پور کوشش کیں۔ حیدرعلی کے کارناموں میں یقیناً سب سے بڑا اور نمایاں کا رنامہ یہ ہے کہ فتح منگلو ر کے بعد یہاں جہاز ات بنانے کاایک بڑا کارخانہ قائم کیا جو ہندستانی فوج کی ایک بڑی کامیابی تھی مگرمسلسل جنگوںمیں مصروفیت کی وجہ سے اس شعبے میں خاص ترقی نہیںہوپائی۔ تاہم حیدر علی کی وفات کے وقت ایک بڑا اور ساٹھ چھوٹے جہاز بحری فوج کی شکل میں تعینات تھے۔ حید ر علی کا قد چھ فٹ، رنگ گندمی، چہر ہ مرعوب کن ، جس سے درشتی ، چستی اور دانائی کے آثار چھلکتے تھے۔ لباس ہندوستانی سفیدململ یا منتزیب کا جس کی آستیں چست اور دامن فراخ تھا۔ حیدر علی کی طرز گفتگو نہایت شیریں اور نرم وملائم تھی۔
دو ران بات چیت انہیں سنجیدہ مذاق کی عادت تھی جس کی شہرت عرصہ تک میسور میں ضرب المثل رہی۔ مادری زبان فارسی تھی اور اس کے علاوہ جنوبی ہندکی مروجہ زبانوں دکنی ، اردو، کنٹری، تمل، مراٹھی اور تلنگی بھی بولتے تھے۔ علاوہ ازیں فرانسیسی زبان سے بھی معمولی واقفیت تھی۔ عدل وانصاف بھی نواب حیدرعلی کامثالی تھا۔ امیر غریب، سپاہی اور افسران سب برابرتھے۔ یہاں تک کہ ایک بار کسی جرم پر شہزادہ ٹیپو سلطان کو بھی حیدر علی نے اپنے ہاتھوںسے کوڑے لگائے تھے۔ الغرض سلاطین ہند ہی نہیں بلکہ سلاطین عالم میں ایسے حکمرانوں کی نظیر بہ مشکل ہی نظرآئے گی۔ کیا عجب ہے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد اہل ہند کو سنبھلنے اور ا نگریزی جبر و استبداد سے نجات دلانے کے لئے ایک سنہری موقع تھا کہ وہ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے متمتع ہوتے مگر یہ اہل ملک کی بد قسمتی رہی کہ انہوں نے فطرت کے اس عطیہ سے مستفید ہونے کے بجائے اپنے اپنے مفادات کو مقدم رکھا۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان شہیدایسے عظیم المرتبت اور بے لوث وطن پرست تاجداروں سے تاریخ عالم کے اوراق خالی خالی سے نظرآتے ہیں۔ انہوں نے چند سالہ دور میں حکومت میں جس پر ہر سوخطرات کے بادل منڈلاتے رہے، ہندوستان کو کیا دیا اور کیا دینا چاہا،یہ ایک مکمل اور جامع موضوع ہے جس کے مطالعہ کے بغیر ہندوستان کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ بلاشبہ ان بلند پایہ شخصیات کی قربانیوں اور جدوجہد نے برصغیر میںاس عالم گیر قوم (انگریز) کے خلاف 1947 ء تک نبرد آزما ہونے کاعزم اور جذبہ عطا کیا تھا، ہندوستان کی تاریخ آزادی میں حیدر علی اور ٹیپوسلطان کے نام سدا زندہ و جاویدرہیںگے۔