۔ 9اپریل2017کو سرینگر بڈگام پارلیمانی حلقہ کے ضمنی چنائو کے دوران اوٹلی گام بیروہ کے فاروق احمد ڈار نامی جس نوجوان کو فوجی جیپ کے آگے باندھ کر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے انسانی تاریخ کا جو سیاہ باب رقم کیا گیا تھا، اُس میں ریاستی حکومت نے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے متاثرہ نوجوان کو 10لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کی سفارشات کو مسترد کرکےمزید اضافہ کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کے اس بدترین واقع، جس پر ملکی اور عالمی سطح پر حقوق انسانی کے گروپوں نے زبردست احتجاج کیا تھا، پر ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے از خود نوٹس لیکر متاثرہ نوجوان، جسے نفسیاتی طور پر پامال کرکےرکھ دیا گیاہے، کے زخموں پر مرہم رکھنے کےلئے معاوضہ کی سفارش کی تھی مگر ریاستی حکومت نے یہ کہکر کہ مذکورہ نوجوان نے سرکار سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی ہے ، کمیشن کی سفارشات کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرکے پھر اس بات کا اعادہ کیا ہےکہ اسکی نظروں میں کمیشن کی کوئی وقعت نہیں ہے۔حالانکہ متاثرہ نوجوان، جو اُس وقت پولنگ بوتھ سے اپنا ووٹ ڈال کر واپس آرہا تھا، کو انسانی ڈھال کے بطور استعمال کرنے والے فوج کے 53راشٹریہ رائفلز کے میجر لیتل گگوئی کی فوج اور فوجی سربراہ کی جانب سے عزت افزائی کئے جانے کے اقدام نے متاثرہ شخص کو کیا کم زخم دیئے تھے، جوحکومت یہ نیا زخم دینے کےلئے اُوتاولی ہوگئی۔ایمنسٹی انٹر نیشنل انڈیا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آکار پٹیل نے اس معاملے میں صاف طور کہا تھا کہ انسانی حقوق پامالیوں کے سلسلے میں زیر تحقیقات آفیسر کو اعزاز سے نوازنے سے لگتا ہے کہ فوج نہ صرف انسانی حقوق کی پامالیوں سےصرف نظر کررہی ہے بلکہ اصل میں ظالمانہ اور غیر انسانی حرکت کو دلیری سے تعبیر کررہی ہے ۔کم و بیش سبھی مین سٹریم او ر مزاحمتی جماعتوں نے بھی اسی طرح کا ردعمل دیا تھا جن کے نزدیک فوجی آفیسر کو اعزاز سے نوازنا فوج کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں اور بحالی امن کے نام پر وہ کچھ بھی کرگزر سکتے ہیں۔ وزارت دفاع کے اعلیٰ حکام نے نوجوان کو فوجی جیپ کے ساتھ باندھنے کومیجر کی حاضر دماغی سے تعبیر کیا تھااور اس پر انہیں سزا دینے کی بجائے شاباشی کامستحق قرار دے کر کہا کہ اس آفیسر نے اس طرح کا اقدام کرکےانسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچالیا تھا۔وزارت دفاع کے سینئر افسران نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ فوج میں مقصد حاصل کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ مذکورہ آفیسر نے دوسرا طریقہ اختیار کیا ہو لیکن اس سے مقصد مکمل طور پر حاصل ہوا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے وقت ،جب پہلے ہی نئی دہلی کشمیر بحران سے نمٹنے کیلئے طاقت کے بے دریغ استعمال پر مقامی اور عالمی سطح پر تنقید کا شکار ہے، ایسا اقدام کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی تھی؟۔ جہاں ملکی سطح پر سیاسی حلقوں او ر لیبرل سیول سوسائٹی سے وابستہ افراد حکومت کی اس پالیسی کو استحسان کی نظروں سے نہیں دیکھ رہے ہیں وہیں عالمی سطح پر بھی نہ صرف کئی ممالک نے کھل کر بھارت کو ہدف تنقید بنایا بلکہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی کشمیر کے اندر پامالی ٔ حقوق کو خطرناک قرار دیا۔ نیز کئی معتبر بین الااقوامی جرائد نے نئی دہلی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔کیا میجر گگوئی کو اعزاز سے نواز کر نئی دلّی میں بیٹھے ارباب بست و کشاد نے کشمیری عوام کو یہ واضح پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ ان کے نزدیک بحالی امن کا ہر طریقہ معتبر ہے ،چاہئے وہ انسانی حقوق کی صریح پامالیوں سے ہی عبارت کیوںنہ ہو۔اس پیش رفت کے نتیجہ میں کشمیری عوام کی نفسیات کو جوچوٹ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے کیا وہ ان پر یہ باور کرانے کی سعی تھی کہ زمینی سطح پر سرگرم فورسز اہلکاروں کی پشت پر پوری حکومت کھڑی ہے اور احتجاج پر آمادہ عوام کو زیر کرنے کیلئے انہیں نہ صرف ہر حربہ آزمانے کی مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ ان کی پیٹھ تھپتھپانے سے بھی گریز نہیں کیاجائے گا۔جمہوریت کی لہر پر سوار ہوکر بھارت عالمی سطح پر جس مرتبے او ر مقام کیلئے سرگردا ں ہے ،اُس کیلئے ایسی حرکات نہ صرف شرمناک ہیں بلکہ وقار کے مجروح ہونے کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔اب اگر عالمی سطح سے ذرا نیچے آکر مقامی سطح پر اس فیصلہ کے مضمرات پر غور کیاجائے تو اس میں کہیں فائدہ نظر نہیں آرہا ہے بلکہ اس کے صرف نقصانات ہی گنے جاسکتے ہیں۔عالمی سطح پر بھارت کی جمہوری شبیہ داغدار ہوتو ہو لیکن مقامی سطح پر اس طرح کی حرکات بیزاری کی لہر میں مزید شدت کا باعث بن جاتی ہیں ۔بھلے ہی اس فیصلہ کے ذریعے نام نہاد اجتماعی ضمیر کی تشفی ہوئی لیکن اس کے نتیجہ میں جوان اور عوام کے درمیان دوریاں بڑھ سکتی ہیں ۔ اب ریاستی حکومت نے جو فیصلہ لیا ہے، اُس نے ریاستی عوام کے اجتماعی ضمیر کو مجروح کر دیا ہے، کیونکہ یہ اُمید کی جارہی تھی کہ ایک عام شہری کی عزت نفس کو پہنچائے گئے زخموں کو مندمل کرنے کے لئے کوئی مثبت پیش رفت کی جائے گی،کیونکہ متاثرہ نوجوان کسی ملک مخالف سرگرمی میں ملوث نہیں تھا بلکہ اُس انتخابی عمل میںاپنا ووٹ ڈال کر آرہا تھا، جسے ساری دنیا میں کشمیر مسئلے کے حوالے سے ایک بڑی دلیل کے طو ر پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ریاستی حکومت نے انسانی حقوق کمیشن کے فیصلے پر عمل کرنے سےانکار کرکے اُن ساری یقین دہانیوںکو مسمار کر دیا ہے، جو یہ کمیشن قائم کرکے عوام کے اندر پیدا کی گئی تھیں۔