کاتولونیہ اور کشمیرکی سیاسی خواہشات بظاہر ایک جیسی ہیں۔ کشمیرکی غالب اکثریت بھارت کے اقتدار اعلی کو چیلنج کررتی رہی ہے اور کاتولونیہ سپین کی براہ راست حکمرانی پر پابہ شعلہ ہے۔کشمیر میں اُردو(سیاسی و مذہبی خواہشات کے اظہار کی زبان)، ثقافت، ادب، سیاست اور سماجی اقدار پر کئی عشروں سے یلغار جاری ہے اور کاتولونیہ کی زبان و ادب اور ثقافت کو بھی ہسپانوی کلچر کی جارحیت کا سامنا ہے۔ہمارے یہاں اعلیٰ نسبی کے نشے میں دُھت کشمیر کا سرمایہ دار طبقہ دوسرے مُنہ زور حلقوں کو ساتھ ملاکر ایک ضِد انقلاب سماجی جتھہ تشکیل دے چکا ہے جو موقع و محل کی مناسبت سے دلی کی پیالہ برداری کرتارہا ہے۔ کاتولونیہ کا بورژوا طبقہ بھی ماضی میں سپین نواز رہاہے جوکاتولونیہ کی آئینی خودمختاری کی بیخ کنی کرنے میں مصروف تھا۔ کاتولونیہ پر 1715میں سپین کے فرمانروا فلپ V نے قبضہ کرلیا جبکہ کشمیر پر سولہویں صدی میںمغل استعمار کا تسلط ہوا۔
1930کے آس پاس کاتولونیہ نے حق خودارادیت کی تحریک شروع کردی جسکے دوران کافی خون خرابہ ہوا ،اور ایک سال کے اندر محدود خودمختاری حاصل کرلی گئی، یہی وہ زمانہ ہے جب کشمیر میں بھی مزاحمت کے بیچ بوئے گئے۔کاتولونیہ نے اٹانومی کی قرارداددوبارہ 2005میں منظور کردی جبکہ کشمیر میں یہ قرارداد نیشنل کانفرنس نے محض خانہ پُری کیلئے 2001میں منظور کرلی ۔این سی کی قرارداد تو کوڈے دان کی زینت بنی تو عبداللہ خانوادے کی عیش کوشی پر کوئی اثر نہ پڑا لیکن کاتولونیہ کی قرارداد کو سپین کی حکومت نے 2010میں چیلنج کیا توکاتولونیہ کی مین سٹریم سڑکوں پر آگئی اوروہاں آزادی کی تحریک نئی شدت کے ساتھ برپا ہوگئی ۔ یہی و ہ سال ہے جب کشمیر میں بھی ہندمخالف احتجاجی تحریک کاپنرجنم ہوا۔
گزشتہ سات سال کے دوران کاتولونیہ اور کشمیر میں تحریک جاری رہی۔ پس منظر تو کم و بیش یکساں ہے ،فرق صرف اتنا ہے کہ کاتولونیہ میں یہ تحریک اسمبلی کے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر جاری رہی جبکہ کشمیرکی اسمبلی کو کشمیریوں کوہی زیر کرنے کی تجربہ گاہ کے طور استعمال کیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ کاتولونیہ کی مقامی حکومت نے ہی اکتوبر میں ریفرینڈم کی نگرانی کی اور سپین کی مرکزی حکومت نے مقامی صدرکارلیس پوگیمونٹ کو باغی اور ان کی انتطامیہ کو علیحدگی پسند قرار دیا۔اکتوبر کی رائے شماری میں 90 فی صدشہریوں نے سپین سے آزادی کے حق میں ووٹ دیا اور اس ووٹ کی توثیق باقاعدہ طور پر کاتولونیہ اسمبلی میں کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کاتولونیہ کے سپین نواز حلقوں نے آزادی کے خلاف دارالحکومت بارسیلونہ میں ریلیاں منعقد کیں، لیکن مقامی حکومت، سرکاری ادارے ،سماجی اشرافیہ اور عام لوگ ایک ہی صفحہ پرہیں۔ اہم پہلو یہ ہے کہ کاتولونیہ کے عوام کا مطالبۂ آزادی اس بات پر مبنی ہے کہ سپین کاتولونیہ سے ٹیکس اور قدرتی وسائل کی صورت میں اس سے زیادہ کمائی کرتا ہے جتنا وہ کاتولونیہ کو گرانٹس کی صورت میں دیتا ہے۔
اب مسلہ یہ ہے کہ اگر کاتولونیہ سپین کے ساتھ آئینی ناطے کو چینلج کرسکتا ہے تو کشمیر کیوں نہیں۔یہاں تو یہ کام بآسانی نام نہاد مین سٹریم گروہ کرسکتا تھا، لیکن وہ ایسا کرکے اپنے اقتدار پر لات کیوں مارے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے اقتدار کا منبہ عوام نہیں بلکہ مرکزی حکومت ہے۔دراصل کشمیر کی اقتداری سیاست 1947سے ہی نئی دلی کی تابع فرمان رہی ہے کیونکہ کشمیر کا الحاق ہی اسی اصول پر ہوا تھا کہ مقبول عام قیادت اقتدار کے عوض بھارتی اقتدارِ اعلیٰ پر مہرتوثیق ثبت کردے گی۔ تب سے ہی یہاں کی سیاست اور سیاسی و آئینی اداروں کی عوامی اعتباریت (Legitimacy)متنازعہ رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مقامی سیاست کا بیانیہ کبھی بھی حب الوطنی پر مبنی نہیں رہا بلکہ اس کا لب لباب ہی نئی دلی کی قربت اور نظریاتی لین دین کی بنیاد پر استوار ہوتا رہا ۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت اور حکومت کے ادارے ہمیں غیر لگتے ہیں اور غیر سے بھلا کیا توقعہ کی جاسکتی ہے۔ اس صورتحال کو علم سیاسیات میں Power Vaccum کہتے ہیں۔اور اب حالت یہ ہے کہ پوری قوم اسی پاور ویکیوم میںسیاسی نجات ڈھونڈ رہی ہے، جو ایک غیر فطری ہدف ہے، کیونکہ سیاسی جعل سازی کا تریاق سیاست بیزاری نہیں بلکہ شفاف اور نظریاتی سیاست ہی ہوتا ہے۔کیا ہم یہ کھوئی ہوئی سیاسی سپیس بحال کرسکتے ہیں؟ کیا متحدہ محاذ کا تجربہ نئے مقاصد کے ساتھ دوبارہ کیا جاسکتا ہے؟ یہ سوالات مشکل نہیں ہوتے اگر یہاں کا اہل اقتدار طبقہ ضمیر فروش نہ ہوتا ۔ سیاسی اور سیاسی اداروں کی عدم مقبولیت کے باعث ہی ہم نے 1996میں اسمبلی کو حرام شے قرار دے کر پھر ایک بار گھسے پٹے مہروں کو بالواسطہ طور اپنے سروں پر مسلط کیا ۔یہی نہیں بلکہ اس کے بعد وہ لوگ بھی عوامی ہمدردیاں اور حمایت بٹورتے رہے جو کشمیریوں کی آئینی اساس کو کھوکھلا کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔
ابھی معلوم نہیں کہ کاتولونیہ کے ریفرینڈم کی لاج رہتی ہے یا نہیں، لیکن کاتولونیہ سے کشمیر کو یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ وطن عزیز کے ادارے محترم ہوتے ہیں، اگر ان پر کرئیرسٹ ضمیرفروشوں نے قبضہ کرکے قوم کی عصمت بیچ کھانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے تو اداروں کی تطہیرایک اجتماعی فریضہ ہے۔
مزاحمت کی نمائندگی کرنے والے لیڈروں اور نوجوان رضاکاروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ عوامی انقلاب سے ایک توانائی خارج ہوتی ہے، اور اس توانائی کو اکثر اوقات جابر اقتدار اپنے حق میں موڑ لیتا ہے۔شکر ہے پن بجلی پیداوار، ٹیکس نظام اور آئین میں موجود بچی کھچی حفاظتی دیواروں کا دفاع بھی چند برسوں سے اب مزاحمتی بیانیہ بن گیا ہے، ورنہ کل تک اس بارے کوئی ایک آدھ سیمینار بھی منعقد کرتا تو اسکے ماتھے پر ایجنٹ کا لیبل خودبخود چسپاں ہوجاتا تھا۔آج مزاحمتی بیانیہ بھارتی آئین میں موجود بعض حفاظتی دیواروں کو ایستادہ رکھنے کی ضرورت پر مرتکز ہوگیا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قوم نے پے در پے انقلابات سے جو توانائی خارج کی تھی، وہ کس کے کام آئی۔ اس سے دلی والوں کا بھلا ہوا، طالع آزمااور ضِد انقلاب گروہ نے موج منائے یا عوام کوکوئی نظریاتی اور نفسیاتی راحت ملی؟ ایک بار پھر یہ انقلابی توانائی وَرژِن ہیت میں دستیاب ہے، اس توانائی کو سیاسی اور تعمیری پروجیکٹ میں لگانے کی ضرورت ہے۔
کاتولونیہ نے سپین کے ساتھ یونہی سینگ نہیںلڑائے، وہاں کے لوگ سیاسی طور پر متحد ہیں، اور جن لوگوں کے ساتھ ان کا اختلاف ہے ان کے ساتھ بھی کم سے کم مشترکہ پروگرام کے تحت سیاسی الائنس بنایا گیا ہے، اور مجموعی سیاست کی اساس یہی ہے کہ کاتولونیہ سپین کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہیں کرے گا۔ ریفرینڈم کے دوران کاتولونیہ میں ایک نعرہ بہت مشہور ہوا۔ "This is our nation. We decide" اس کا ترجمہ صاف ہے:یہ ملک ہمارا ہے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔ کاتولونیہ کے ریفرینڈم کا حوالہ دینے میں مزہ تو آتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کشمیرکبھی کاتولونیہ بن سکتا ہے؟
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘