Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
بین الاقوامی

فرانس میں مساجد دور ایوبی سے اسلامی برد باری کی علامت

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 8, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
دبئی// گذشتہ کچھ برسوں کے دوران جب مختلف عرب اور مسلمان ملکوں سے پناہ گزینوں کی مغربی دنیا کی طرف نقل مکانی شروع ہوئی، اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شکلیں بھی سامنے آئیں تو فرانس جیسے ممالک کے بارے میں اسلام سے متعلق سوچ بدلنے لگی۔ حالانکہ فرانس میں صلاح الدین ایوبی کے دور اسلام بھی تھا اور مساجد بھی تھیں۔ اللہ کا نام لینے والے بھی تھے اور اسلام کے علم بردار بھی رہتے تھے، مگر وہاں پر مساجد کو ہمیشہ اعتدال پسندی اور اسلامی حلم وبرد باری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔عالم اسلام برد باری اور الہام کا پیغام ہوا کرتا تھا۔ مغربی لٹریچر میں اسلام کو بدیسی وجدان اور جبلت سمجھا جاتا۔ فرانسیسی ادب میں ’مکہ‘ کشش، جذب اور حیران کرنے والی جگہوں کے معنوں استعمال ہوتا۔ فرانس میں مستشرقین کا کے لٹریچر کا ماخذ اسلامی ثقافت کے سوا اور کوئی چیز نا تھی۔ مستشرقین اسلامی سوسائٹی سے متاثر ہونے والا سب سے بڑا طبقہ سمجھا جاتا۔مصرکے نابلیوں کی مہم فہم دین اسلام میں اتنی ہی مدد کی جتنی کہ فراعنہ کے دور کی زبان کی الجھنیں سمجھنے میں مدد ملی۔فرانس میں مساجد پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس یورپی ملک میں صدیوں سے مساجد موجود تھیں مگر سنہ 2016ء￿  میں رجسٹرڈ مساجد کی تعداد 2200 تک جا پہنچی تھی۔ بہت سی چھوٹی مساجد جو رجسٹرڈ نہیں کی گئیں تھی ان کے علاوہ ہیں۔ مساجد کی تعمیر گذشتہ چند عشروں کے دوران بڑھی کیونکہ 1970ء￿  تک فرانس میں صرف ایک سو مساجد تھیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کی بلدیہ میں اسلامی کونسل کے چیئرمین اور مسجد الکبیر کے امام دلیل ابو بکر الجزائری کا کہنا ہے کہ فرانس میں دو سال کے دوران مساجد کی تعداد دوگنا ہوئی۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ فرانس میں ویران گرجا گھروں کو مساجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں پر 2500 مسلمانوں کے لیے صرف ایک مسجد ہے حالانکہ ہزاروں کی تعداد میں سالانہ کی بنیاد پر گرجا گھر خالی ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس میں مسجدیں آباد اور چرچ ویران ہو رہے ہیں۔ فرانس کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی تعداد 40 لاکھ سے 70 لاکھ کے درمیان ہے۔ تاہم حقیقی تعداد 55 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں سے 30 لاکھ سے زاید صوم وصلوا? کے پابند مسلمان ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کی اصل تعداد معلوم کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ملک کا قانون نسل یا مذہب کی بنیاد پر کسی طبقے کی مردم شماری کی اجازت نہیں آج کے دور میں فرانس میں سب سے بڑی مسجد پیرس کے قریب ایفری اسکوائر میں واقع ہے۔ اسی جگہ پر 1995ء￿  میں کیتھڈرل چرچ تعمیر کیا گیا۔ بیسویں صدی کا فرانس میں یہ واحد نیا چرچ ہے۔ بیسویں صدی ہی میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے فرانس میں آنا شروع کیا۔فرانس کی سب سے قدیم مساجد میں ’مسجد نور الاسلام‘ ہے جو سمندر کے عقب میں جزیرہ ریونیون کے شہرسان ڈونی میں 1905? میں تعمیر کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب فرانس میں مذہب اور سیاست کو الگ کرنے کی طویل کشمکش اپنے اختتام کو پہنچی اور فرانس میں سیاست کو مذہب سے آزاد کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں ہم اسے سیکولر قانون یا آج کے دور میں الحاد کا نام دیتے ہیں نافذ العمل ہوا۔ البتہ موجودہ فرانس کے علاقے الزاس اور موزیل اس وقت جرمنی کے زیرانتظام تھے۔ اس لیے ان پر سنہ 1905ء￿  کا فرانسیسی قانون لاگو نہیں ہوا۔فرانس کے مایوت شہر میں کئی پرانی مساجد موجود ہیں۔سیکولر فرانس کے دور میں فرانس میں مساجد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ پیرس کی جامع مسجد الکبیر دراصل پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانس کے پرچم تلے لڑتے ہوئے ایک لاکھ مسلمان سپاہیوں کے قتل کی یاد گار ہے۔ یہ مسجد مراکش کے سلطان مولائی یوسف نے 1926ء￿  میں تعمیر کرائی اور اس کی تعمیر کی مکمل نگرانی کی۔ مسجد میں ایک اسپورٹس گراؤنڈ اور ایک بڑا حوض بھی بنایا گیا۔ فرانسیسی صدر یاک شیراک کے دور میں مسجد الکبیر الجزائری مسلمانوں کے حوالے کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ مسجد الجزائری مسلمانوں کو دینے کے پیچھے پیرس کی ایک خاص حکمت عملی کارفرما تھی۔ فرانس الجزائزی عوام کے غم وغصے کو کم کرنا چاہتا تھا۔ دیگر حربوں میں ایک حربہ فرانس کی مساجد کی نگرانی الجزائریوں کو دینا بھی شامل تھا۔فرانس کے علاقے بوزانسی میں ایک مسجد کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مسجد مشہور مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی کے دور میں 12 ویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔صلاح الدین ایوبی کے دور میں صلیبی جنگوں میں فرانس کے ’شامبانیا‘ کے ایک شخص ’پیرڈ انگلور‘ کا قصہ مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انگلو اگرچہ صلیبی جنگوں میں شامل رہا ہے مگر وہ حضرت عیسیٰ کی قبر کا قبضہ واپس لینے کی مہمات میں شامل نہیں تھا اور نہ ہی وہ ان مجرموں میں شامل رہا جن کے خلاف صلاح الدین ایوبی نے جنگ شروع کی تھی۔ تاہم اس کے باوجود ڈانگلور پکڑا گیا۔ اسے صلاح الدین ایوبی کے دربا میں پیش کیا گیا۔ ڈانگلور صلاح الدین ایوبی کی شخصیت اور ھیبت سے متاثر ہوا جب کہ سلطان ایوبی بھی ڈانگلور کی عظمت کے معترف ہوگئے۔ڈانگلور نے فدیہ ادا کرنے کی شرط پر رہائی کی اپیل کی تو صلاح الدین ایوبی نے اس کی شرط پر رہا کردیا۔ وہ واپس فرانس گیا اور اپنی جائیداد بیچ کر فدیہ کا انتظام کرکے واپس القدس لوٹا۔ راستے میں ڈکوؤں کا بھی مقابلہ کیا تاہم ڈاکوؤں کو شکست دے کر وہ صلاح الدین ایوبی کیدربار میں پہنچ گیا۔ صلاح الدین ایوبی اس کے وعدہ ایفاء￿  کرنے پرحیران تھے۔ انہوں نے فدیہ کا سارا مال واپس کرتے ہوئے اسے کہا کہ وہ اپنے علاقے میں اللہ کی عبادت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کی خاطر ایک مسجد تعمیر کرے۔ڈانگلور واپس گیا اور اس نے وعدے کے مطابق ایک مسجد تعمیر کی۔ یہ مسجد صلاح الدین ایوبی کیدور کی یاد گار سمجھی جاتی ہے تاہم اس حوالے سے بعض مختلف روایات بھی ملتی ہیں۔ ڈانگلور کی تعمیر کردہ مسجد میں نماز ادا نہیں کی گئی۔فرانس میں 42 ہزار گرجا گھر ہیں۔ ان میں 40 ہزار گرجا گھر ریاست کے کنٹرول میں ہیں۔ ان میں دو ہزار چرچ کیھتولیک کے پاس ہیں۔ گویا مسلمانوں کی مساجد ان کے گرجا گھروں سے زیادہ ہیں۔
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ملک بھر میں عیدالاضحیٰ جوش و خروش سے منائی گئی
برصغیر
جامع مسجد میں نماز عید کی اجازت نہ دئے جانے پر دکھ ہے، حکومت کو عوام پر بھروسہ کرنا چاہئے:وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ
تازہ ترین
جموں وکشمیر میں عید الالضحیٰ کی تقریب سعید مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی
تازہ ترین
تاج محل سے امن کی دعا، شاہی جامع مسجد میں ادا کی گئی نماز عیدالاضحیٰ
تازہ ترین

Related

بین الاقوامی

الزامات اور دھمکیوں کا تبادلہ ٹرمپ اور مسک کی دوستی دشمنی میں بدل گئی

June 6, 2025
بین الاقوامی

نیتن یاہو کے خلاف فیصلہ دینے والی 4 خواتین ججوں پر پابندیاں عائد

June 6, 2025
بین الاقوامی

عرب ممالک میںفلسطین کےلئے دعائیں

June 6, 2025
بین الاقوامی

بمباری کے بیچ عید نماز ۔11 فلسطینی جاں بحق اور متعدد زخمی

June 6, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?