حضرت مولانا مولوی نور الدین ترالی ؒاسم با مسمیٰ یعنی فی الحقیقت دینی علوم وعمل کے روشن منار تھے۔چونکہ آپ کا تعلق بزرگان ِ دین کے خاندان سے تھا،یہی وجہ ہے کہ آ پ کا بچپن اورلڑکپن بزرگوںکی صحبت میں ہی گذرا جہاں آپ کوعلوم ظا ہری کے ساتھ ساتھ باطنی علو م پربھی دسترس حاصل ہوئی۔ میر واعظ کشمیر حضرت مولانا یوسف شاہ کشمیریؒکی وساطت سے آپ امر تسر میں سات سال حضرت مولاناعبد الکبیرؒ صاحب سے ابتدائی دینی علوم سے فیض یاب ہوئے۔ پھرسات سال دیو بند میں شیخ الحدیث حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒکی نگرانی میںحکیم الامت مو لاناقاری طیب صاحب ؒ اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒسے درس ِ حدیث مکمل کر دیا اور دیوبند کے دیگر چوٹی کے علماء کرام ؒ سے درس قرآن، درس ِ حدیث، قرأت، فقہ، عربی ادب وغیرہ علوم حاصل کئے۔اسی دوران مولانا مرحوم نے تھا نہ بھون جاکرحضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ؒ کے ہاں زانوئے ادب تہہ کر کے آپ کی باطنی شاگردی اختیا ر کر کے بہت سارے فیوضات حاصل کئے۔ دینی علوم کے حصول کے بعد وطن واپس تشریف لاکر سرینگر کے نصرت الاسلام عربی کالج میں بحیثیت استاد محترم تعینات ہوکر اشاعت ِ دین کی ابتداء کی ۔بعد میںاپنے ہی آبائی قصبہ ترال کے چندذی شعور، دین پسند اور صاحب ثروت افراد کے اصرار پر قصبہ ترال میں ایک دینی ادارہ ـ ـ ـ’’مدرسہ تعلیم الاسلام ترال ‘‘ کی بنیاد ڈا لی اور یہیں سے اشاعت ِدین کی شروعات کیں۔یہ ادارہ دو شعبوں پر مشتمل تھا : ایک شعبہ عربی اورینٹل کالج کہلاتاتھا جس میں کشمیر یونیو رسٹی کے تحت مولوی فاضل تک کی کلاسز پڑھائے جا رہے تھے اور دوسرا شعبہ مروجہ تعلیم کا تھا جس میں مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دینیات، تجوید اور اخلاقیات کی کتابیں بھی شامل نصاب تھیں ۔
آپ اشاعت دین کی غرض سے جہاں مدرسہ میں مسلم طلباء کی ہمہ جہت دینی تربیت دیتے رہے، وہیں پہ آپ مساجد میں عوام الناس کو دعوت دین کے ساتھ ساتھ درسِ قرآن ، درس ِ حدیث ، اسلامی تعلیمات ، طریقہ ٔ نماز ، آداب ِ مسجد، کلمہ کی جان کاری ، آدابِ زندگی، والدین کے حقوق ، حقوق اللہ،حقوق العبا د، بھائی چارہ، حلال و حرام کی تمیز ، تو حید پر کار بند رہنے کی تلقین اورشرکیات و بد عا ت سے پرہیز کرنے کے علا وہ دیگر اہم امو رات اور دینی مسائل کی جا نکاری کی ساتھ ساتھ مسنو ن کلما ت او ر د عائیں یاد کرانا اپنی پوری زندگی کا وظیفۂ عمل بنایا۔ اپنے موثر ودلنشین خطا بات میں جب بھی آپ کوئی حدیث بیان فرماتے تھے تواس کو باسند دہراتے دہراتے سا معین کو یاد بھی کراتے تھے ۔ مدرسہ میںایسے پرو گراموں کا انعقاد کر دیتے تھے جن کی بدولت طلبائے مدرسہ بہترین مقرر وسکالر بن گئے اورآج بھی ریاست بھر میں اسی فیض یابی کی برکت سے وعظ و تبلیغ کے ذریعے دین کی خدمت انجام دیتے ہیں۔
مولانا مرحوم چونکہ قاریٔ قرآن بھی تھے اس لئے طلبائے مدرسہ کو تجو یداور قرأت کی ایسی تربیت سے سرفراز کیا گویا ان کو اپنی زبان دی اور یہ طلباء آج ریاست کے مختلف خانقاہوں اور مساجد کے امام وخطیب ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل طلباء جو آج کل بڑے بڑے ڈاکٹر، انجینرٔ، پولیس آفیسر یا مختلف عہدوں کے سربراہ ہیں یا ان خدمات سے ریٹا یر منٹ لے چکے ہیں اورکسی بھی مسجد میں امام یا خطیب کی عد م مو جو د گی ہوتو ان میں سے کوئی بھی فردیہ فریضہ ٔا مامت انجام دے سکتا ہے۔یہ صرف مو لانامرحوم کی تربیت اور اصلاح کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس کے برعکس دور ِ حاضر میں جتنے بھی مدارس میدان عمل میں کار فرما ہیں جن میں عالم ، حافظ اور قاری حضرات کام کر رہے ہیں ۔ افسوس کہ آج ہم میں اشاعت دین کے تئیں بے توجہی ہے ،اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے درمیان اب مولانا مرحوم جیسے علماء اور داعیان ِ دین عنقا ہیں اور بہ حیثیت مجوعی ہم میں خلوص کا فقدان ہے ۔ہم لوگ صرف پیسوں کے پیچھے پڑے ہیں اور اپنے اصل مقصد حیات سے غافل ہیں ؎
کافر بیدار دل پیش صنم
بہتر از مؤمن کہ خفت اندر حرم
مولانا نور صاحب مرحوم اکثر و بیشتر اسوہ ٔ حسنہ ؐپر وعظ فرما کر سامعین حضرات کو اسی اصول پر زند گی بسرکرنے کی تلقین فرما یاکرتے تھے اور خود مو لاناکا حال یہ تھا کہ اپنی نجی و سماجی زندگی میں آپ اسوہ طیبہؐ کے اصولوں پر کار بند رہنے کی حتی الامکان کوشش کرتے تھے۔راستے میںچلتے ہوئے ہر چھوٹے بڑ ے کو ’’السلام علیکم ‘‘ کہہ کر کچھ نہ کچھ نصیحت فرماتے تھے۔ اگر داڑھی نہ ہو تی تو بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑ ھ کر اس کے چہرے پر اپنا ہاتھ شفقت سے پھیر کر فرماتے کہ اب اس داڑھی کو نہ منڈوانا۔ماشا ء اللّٰہ کیسے ولی صفت تھے مولانا صاحب ! ہمیشہ ذکر اللّٰہ کی نصیحت فرماتے تھے ۔ کوئی فرد اگر آپ کے ہاں باطنی اصلاح وبیعت کے لئے آتا تو پہلے اس کا نام پوچھتے تھے ۔ اگر نام اسلامی ہوتا تو خوش ہو جاتے تھے ،اگرنام میں غیر اسلامی آمیزش ہوتی تو درستی فرماتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز ایک ماسٹرجی پہلی بار آ پ کے ہاں تشریف لائے ۔ مولانا نے ان سے نام پوچھا ، اس کاجواب سنا تو نام کی دُرستگی کی جانب متوجہ کیا ۔ وائے! کہاں سے لائیں ایسے ولی اللّٰہ کو جس کی ساری زندگی امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کرنے میں ، آخرت سنوارنے میںوقف رہی ہو اور زندگی کے ہر پہلو میں اسلامی اصلاح لانے مین گزرگئی ہو۔
دورِ حاضر میںہر طر ف و عظ و نصائح کا دور دورہ ہے۔ مساجد و ں خانقاہوں، درسگاہوں ، مدارس اور اجتماعات میں عوام الناس کو دین کا درس دیا جارہا ہے مگر عوام میں تربیت اور اصلاح کا فقدان ضرورپایا جاتا ہے، الا ما شاء اللّٰہ۔ کہاجاتا ہے ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
مولانا مرحوم کی ذات میں یہی دردِ دل رچا بسا تھا۔ اس لئے آپ کے دل سے گزر کر جوبات زبان تک آتی اس کے لفظ لفظ سے آہیں نکلتی تھیں جن سے قوم کا درد ٹپکتا تھا۔ آپ معرفت الٰہیہ اور تصور ِ آخرت پر زیادہ زور دیتے تھے ۔ آپ اکثر خطابات میں حب ِ دنیا ، جاہ پرستی کے خلاف بول کر جب علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر پڑھتے تھے ؎
اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو
آہ !اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
تو سرد آہ پر ایسی سردآہیں نچھاور کرتے تھے کہ سامعین حضرات کے لئے یہ زود اثر ثابت ہوتیں۔دراصل جو بھی بات دل سے خلوص کے جامے میں نکلتی ہے وہ ضرور اثر رکھتی ہے۔
مولانا مرحوم کے تربیت یافتہ علمائے دین نے بھی اس قرآنی مشن کو آگئے بڑھاتے ہوئے اسلامی مدارس کھولے جو آج وادی کے مشہور و معروف دارالعلوم اور مراکز ہدایت ہیں اورجن میں ہزاروں طلبائے علوم اسلامی قرآن و حد یث، حفظ و قرآ ن ، فقہ و ادب، علوم افتاء سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔ اللّٰہ میاں ان دارالعلوموں کے حسنات کو قبول فرمائے ا ور ان کی مدد فرما کر ان کے منتظمین ومعاونین سمیت طلباء وطالبات کو کو خیر دارین عطا فرمادے۔
مولانا مرحوم دیو بند سے ذہنی مناسبت رکھتے تھے اور مزاجاً عالم باعمل تھے۔ مسلک کے اعتبار سے موحد حنفی ہوتے ہوئے آپ کو کسی بھی مزاج یا مکتب فکر سے کوئی رنجش یا نفرت یاغبار نہ تھا ۔ آپ صرف اسلام اور مکمل طور اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لئے فکر مند رہاکرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا کو ہر مکتبۂ فکر کے دینی اجتماعات میں بحیثیت مہمان ِ خصوصی مد عوکیا جاتا تھا ۔ جہاں آپ شرکت کر کے کسی بھی مکتبۂ فکر کی وکالت کئے بغیر توحید ، رسالت ،آخرت کے بنیادی عقائد کے پہلو بہ پہلو معرفت ِ الٰہیہ کے جام لنڈھاتے تھے، تصور ِ آخرت سے لرزاں رہتے اور’’ موت نہ آئے تمہیں الا یہ کہ تم مسلم ہو‘‘ کا واضح اعلانِ حق کر تے اور دعوت اسلامی کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل روشنی ڈالتے اور امت مسلمہ کو اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑنے اور تفرقہ میں نہ پڑنے کی نصیحت وفہمائش لازماً کر دیتے تھے۔
آپ کے پاک و صاف دل کو زیادہ تر ملت اسلامیہ میں عمل کے فقدان کا احساس ڈستاتھا اور اسی درد وکرب کے علاج کے لئے آپ مرتے دم تک مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی صحیح تربیت میں ہمہ وقت لگے رہے ۔یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ مولانا مرحوم نے آخری سانس بھی مسجد شریف میں امت مسلمہ کے درستیٔ اعمال کی فکر میں خرچ کرتے ہوئے اپنے مولا کے بلاو ے پر لبیک کہا اور اس فرمانِ خداوندی پر عمل درآمدکو دم واپسیں تک بنایا کو اپنی متاعِ عزیزبنایا کہ : اس سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے ، عمل صالح کر ے اور اعلان کر کے کہے میں مسلمان ہوں ۔ اناللّہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ میاں آپ کو کروٹ کروٹ جنت کے ا علیٰ منازل ومدارج عطافرما ئے اور ان ا فرادکو بھی جنت نصیب فرمادے جنہوں نے مولانا مرحوم کواشاعت ِدین کی راہ میں قدمے ، سخنے، درمے مددکی ،خصو صاََ مرحوم کی شریک حیات کوجنہو ںنے مولاناکودیو بندمیںچودہ سال تک حصولِ تعلیم کے دوران ہرسختی کوبرداشت کرکے اشاعت دین میں مو لانا کے لئے قدم قدم مددگار ثابت ہوئیں ۔ اللّٰہ تعا لیٰ ہمیں مرحوم مولانا کے نقش قدم پر چلنے اور آپ کے چھوڑے ہوئے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمادے آمین
نوٹ : مضمو ن نگار فرزندمولانا مولوی نور الدین ترالی ؒ ہیں ۔
�����