شہبازکے پاگل پن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور وہ اپنے آپ میں گم ہوتا جارہاہے۔وہ زیادتر خلوت نشین ہی رہتا ہے ا ور اکثربڑبڑاتااور اپنے ساتھ خود کلامی میں مصروف رہتا ہے ۔اس کی مایوسی اور پریشان خیالی میںبھی دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی صحت بھی دن بہ دن بگڑ تی ہی جارہی ہے۔اس کے ہونٹوں پر ہمیشہ سجنے والی ہنسی اسے کب کے چھوڑ کر چلی گئی ہے اور جس کی جگہ ایک عجیب تھر تھراہٹ نے لے لی ہے ۔اس کی آنکھیں بھی اب آبدیدہ ہی رہتی ہیں،جن سے اس کا اندونی کرب اور بے کلی صاف جھلکتی ہے۔اس کے قریب بیٹھنے پر محسوس ہوتا ہے کہ اس کی دھڑکنیں کتنی تیز چلتی ہیں اور معمولی پتے کی حرکت سے بھی وہ دہل جاتاہے ۔وہ ذرا سی آ ٓواز سن کرچونک پڑتاہے۔ اس کا برتاو اور اس کی عادتیں بالکل بدل چکی ہیں۔یہ بدلاو ہر ایک کیلئے متعجب ہے۔یہ بدلاو ہی نہیں بلکہ اس کی غیر معمو لی شخصیت کے زوال کے ساتھ ساتھ اس خوشنماسماج کے چہرے پر ایک بدنما داغ بھی ہے۔
شہباز ایک خوبروجوان ہے جو پیشے سے استاد تھا ،استاد ہی نہیں بلکہ ایک لائق اور قابل استاد جو ہمیشہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنے کی فکر میں رہتا تھا ۔طلبہ کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ پیش آنا ،ان کی مشکلوں کو حل کرنا ،ان کے حوصلے بلند کرنااوروعظ و نصیحت کرنااس کی فطرت میں شامل تھا ۔اس کی لیاقت اور اس کے حسن اخلاق کا ہرایک معترف تھا۔اسی کا نتیجہ تھا کہ اکثر بچو ںکاوہ پسندیدہ استاد تھا ۔بچے اسے اپنا رول ماڈل مانتے تھے اور اس کی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے تھے۔اکثر بچے اپنی شکایتیں لے کر اسی کے پاس آیا کرتے تھے۔
مجھے اب بھی یاد ہے کہ ایک دن سکول میں کچھ طالبات نے انتظامیہ سے وابستہ ایک اہلکار کی شکایت شہبازسے کی کہ وہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے انہیں ستاتا ہے اور ڈانٹ ڈپٹ اور ہمدردی کی آڑ میں ان سے ناشائستہ سلوک کرتا ہے۔طالبات نے کچھ ایسے واقعات کا ذکر کیا جس سے بہر حال متعلقہ شخص کی نیئت اور اس کا کردار مشکوک ٹھہرتے تھے ۔شہباز نے متعلقہ اہلکار سے اس معاملے میں ہمدردانہ اور ناصحانہ لہجے میں بات کی اور اسے سمجھایا کہ ایسے واقعات سے اساتذہ کی ساری برادری مورد الزام ٹھہرتی ہے اور اس پیشے کا تقدس پائمال ہوجاتا ہے۔
اس واقعے کے کچھ دنوں بعد ہی میرا تبادلہ دوسری جگہ ہوگیا، اسلئے شہباز سے کبھی ملنے کا اتفاق نہیںہوا۔لیکن ایک دن میں ایک مریض کی عیادت کیلئے اسپتال گیا تو میں نے شہباز کو ماہر نفسیات ڈاکٹر کے کمرے کے باہر پریشان ،فکرمند اور آشفتہ حالت میں لوگوں کی بھیڑ میں دیکھا۔میں اس کے قریب گیا اور اس کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔جونہی اس نے مجھے دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسوں ابل پڑے اور وہ زار و قطار رونے لگااور روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔میں نے اسے دلاسا دیا اورتھوڑی دیر سستانے کے بعد پوچھاــ:
’’کیا بات ہے ؟بچوں کی طرح کیوں رو رہے ہواور یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘
شہباز نے مجھے سکول میں پیش آئے واقعہ کی یاد دلاتے ہوئے کہا ’’تجھے کیا خبر کہ تیرے نکلنے کے بعد میرے ساتھ کیا کیاگیا ۔اس منافق نے اپنی کالی کرتوت پر پردہ ڈالنے کے لئے اور ان لڑکیوں کو بدنام کرنے کے لئے انتہائی پست درجے کا ڈھونگ رچایا اور ہر سو یہ بات پھیلائی کہ وہ لڑکی جو روزانہ پریئرحال میں نماز ظہرادا کرنے جاتی تھی وہاں نماز پڑھنے نہیں بلکہ میرے ساتھ اپنے شباب کی کلیاں لٹانے کے لئے آتی ہے ‘‘۔
شہاز آنسوں بہاتے ہوئے کہہ رہا تھا’’میں بکھر گیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔اس معصوم لڑکی کے آنسوں ،اس کی چیخیںاور اس کی ہچکیاں میرے دل و دماغ کو جھنجوڑ رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کئی مہینے ہو چکے ہیںمگرمیں اس لڑکی کو اپنے دل و دماغ سے نہ نکال سکا۔میں نے لاکھ کو شش کی کہ یہ واقعہ میرا پیچھا چھوڑ دے مگر کچھ نہ ہو سکا۔۔۔۔۔۔میں شائد پاگل ہو جائوگا ۔۔۔ہاں پاگل ہوجائوگااور اسی حال میں مر جائو گا۔‘‘
رابطہ؛بومئی زینہ گیر،سوپور،9858493074