کچھ عرصہ قبل وادی میں چوٹیاں کاٹنے کا جو پُر اسرار سلسلہ شروع ہوا تھا ،وہ اللہ اللہ کرکے تھم گیاہے۔چوٹی سے مراد سر کے سارے بال ہوتے ہیں۔سر کے بالوں کو جوڑ کر اوپر نیچے گرہ باندھ کر جب ترتیب سے لپیٹ لیا جاتا ہے اور اس سے جو شکل نمودار ہوتی ہے اُسے چوٹی کہتے ہیں۔کچھ تو چوٹی بنا کر دوکاندھوں کے درمیان لٹکا دیتے ہیں اور کچھ کھلے بالوں کو گولائی میں لپیٹ کر اس طرح باندھ لیتے ہیں جس کی شکل ایک ناگن جیسی بنتی ہے اور کچھ شوقیہ طور اپنے بالوں کو کاندھے پر کھلا بکھیر دیتے ہیں۔بہر حال بالوں کو جونسی صورت اور حالت ہویہ بال بھی پردے میں شامل ہیں۔بال کھلے ہوں یا چوٹی کی شکل میں ہوںصنف نازک کی حسانت ، عصمت،عفت، عظمت ،شان، نسوانی علامت، شناخت، پہچان، زینت ، ملکیت،اس کا پردہ،اس کا سرمایہ،اس کا فطری جمال،اس کے حسن وشباب کی زیب و زبیائش،اُس کا فخر اور میراث ہوتے ہیںاور یہ بال فطرت کی طرف سے بہترین عطیہ اور خوبصورت تحفہ ہوتے ہیں۔ایک بھر پور چوٹی بننے میں عمر کا ایک حصہ لگتا ہے اور اگر یہی چوٹی کٹ جائے تو دوبارہ اسی رنگ وروپ اُسی حالت کی چوٹی تیار ہونے تک بھی ایک اور عمر چائیے۔اس لئے یقیناً یہ ایک ناتلافی نقصان ہے۔چونکہ صنف نازک سر سے پاوں تک پردہ ہوتی ہے اور اس کے یہ بال بھی پردے کا حصہ ہوتے ہیں۔اس لئے بالوں کو غیر محرم کا دیکھنا ،ہاتھ لگانااورچھونا بھی گناہ ہے اور یہ صنف نازک کی عصمت پر گویا حملہ ہوتا ہے۔ اس طرح چوٹی کا ٹنا ایک غیر انسانی ،غیر اخلاقی،غیر شائستہ حرکت اور قابل مذمت فعل ہے۔
جہاں تک ریاست جموں و کشمیر میں چوٹی کاٹنے کا تعلق ہے اس چوٹی کاٹنے والے کا جنم کہیں راجستھان میں ہوا اور ہریانہ میں جوان ہو کر چوٹی کاٹنے کے فن میں پوری مہارت حاصل کرلی اور دوسری کسی بھی ریاست کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور وہ سیدھا ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوا۔ یہاں جموں میں ایک دو جگہ ہی دستک دی اور ضلع راجوری میں اچانک نمودار ہو کر چوٹی کاٹنے کی شروعات کی۔یہاںصرف چھ چوٹیاں ہی کیٹں اور دل برداشتہ ہو کر سر حدی ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈر اور سرنکوٹ میں وارد ہوا،وہاں دو چار چوٹیاں ہی کاٹیں اور واپسی کا راستہ اختیار کر کے سیدھا ضلع ڈوڈہ، بھدرواہ پہنچ گیا۔کیا مجال راستہ میں کسی اور ضلع یا جگہ کی کسی چوٹی کی طرف دیکھا بھی ہو، اُس کا اپنا ہی روڈ میپ بنا تھا۔خطہ چناب میں چند ایک چوٹیاں کا ٹنے پر اکتفا کیا اور اُس چوٹی چور نے جموں کے دوسرے اضلاع کارُخ کیے بغیر ہی وادی میں سب سے پہلے ضلع اسلام آباد (اننت ناگ )میں ہلکی سی دستک دے کر اپنا کام شروع کیا۔یہ عجیب سی بات اور انوکھا واقعہ ہے، یہاں راجوری اور پونچھ میں کسی کی چوٹی باتھ روم میں کٹی تو کسی کی بیڈ روم میں ،کسی کی باورچی خانہ میں اور کسی کی برآمدئے میں کٹ گئی۔
یہاںکسی بھی چوٹی والی نے کسی کو نہیں دیکھا البتہ چوٹی کٹنے کے بعدبے ہوشی طاری ہوتی رہی۔ یہ دلسوز واقعہ پہلی بار یہاں رونما ہوا یہ سننے والے دیکھنے والے حیران و ششدر رہ گئے۔کسی نے چین کی سازش کہا کہ اُس نے ایک سبزرنگ کا عجیب ساکیڑاچوٹیاں کاٹنے کے لیے چھوڑا ہے۔کسی نے چوٹی خود بخود کٹ جانے کا اظہار خیال کیا اور کسی نے پُرا سرار طریقہ سے کٹنے پر یقین کر لیا۔اس طرح جتنے منہ اُتنی باتیں اوریہ آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔ضلع راجوری اور پونچھ میںنہ زیادہ چوٹیاں ہی کٹیں اور نہ اس واقعہ پر کوئی شور وغل‘ ہنگامہ اور نہ کوئی خاص چرچا ہی ہوا۔ وادی میںجنوبی کشمیر کے اضلاع میں آئے دن چوٹیاں کٹنے کے واقعات رونما ہوتے رہے۔کبھی کبھی دن بھر میں پانچ پانچ ،چھ چھ چوٹیاں کٹتی رہیںجن پر پُر جوش ہنگامہ آرائیاں ،شور و غل اور زور دار اجتجاجی مظاہرے ہوتے رہے۔انتظامیہ نے اپنی ناکامی وبے بسی کا اظہار کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑا۔ بعض جوشیلے نوجوانوں نے عام بے گناہ راہ گیروں،اجنبیوں کو اپنے غم و غصہ،بر ہمی اور عتاب کا نشانہ بنانا شروع کر کے اُن کا بے رحمی سے محض شک کے بنا پر اس قدررذدو کوب کیا کہ دو ایک کی موتیں بھی واقع ہوئیں اور دوسرے شدید زخمی حالت میں مختلف ہسپتالوں میں درد سے کراہتے رہے ۔
یہ عجیب سا معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ کہ جموں خطہ چوٹیاں کٹنے پر خاموش،نہ کوئی ہنگامہ ،نہ کوئی شور و غل اور نہ کوئی احتجاجی مظاہرہ ہی ہوا اور نہ ہی کسی چوٹی والی نے چوٹی کاٹنے والے کو دیکھا اور نہ کسی پر شک ہی کیا۔اس کے برعکس وادی میں اکثرجگہوں پر چوٹیاںکاٹنے والے کو دیکھا مگر وہ سامنے سے پُر اسرار طریقہ سے غائب ہوتے رہے۔ایک چوٹی والی نے یہاں تک کہا ہے کہ میں نے چوٹی چور کو پکڑا اور اس کے ہاتھ میں اپنے تیز دانت پیوست کئے مگر وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔کسی نے کہا میں نے اپنے کاندھوں پر اُس کے ہاتھ محسوس کئے۔جب دیکھاسامنے چوٹی پڑی تھی اور وہاں کوئی نہیں تھا۔یہ عجیب کھیل کھیلا جا رہا ہے۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔نوجوانوں کی ٹولیاں رات بھربستیوں میں حفاظتتی گشت لگاتیں مگر چوٹی بھوت دن کے اُجالے میں اپنا شیطانی کام کرجاتے کہ سب دیکھتے رہ جاتے ۔وزراء اور امراء اپنی مصروفیات اور مشغولیات میں مست و مگن رہے اور چوٹیاں کٹتی تھیں تو کٹتی رہیں مگران کی کرسیوں کی اپنی ٹانگیں حصار بند محلات میں داد ِ عیش دیتے رہے۔ادھر زمین دوز اور آسمان میں چھپے اسرارو رموزڈھونڈ نکا لنے وا الی پولیس بھی بے بس اور اپنی نا کامی کا انعام پہلے تین لاکھ اور پھرچھ لاکھ انعام دینے کی پیشکش کی۔یہ پولیس کی تاریخ میںپہلی بار ایک عجیب سی بات لگتی ہے جہاں پولیس نے چوٹی کاٹنے والوں کاسراغ دینے پر انعام کی پیشکش کیا۔اس سے صاف پیغام ملا کہ عفت مآب ماں بہن بیٹی کی چوٹیاںکٹتی رہیں مگرچوٹی کاٹنے والے کبھی بھی پولیس کے جال میں نہیں آئیں گے۔شایدیہ سب جانتے ہیںکہ آسیہ اور نیلوفرً کے سانحہ پر اس وقت کے وزیرا علیٰ عمر عبداللہ نے بھی بے بس،مجبور ہو کر 20؍ لاکھ انعام دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اتنا بڑا انعام لینے والا کوئی بھی سامنے نہیںآیااور نہ ہی آسیہ نیلوفرکے قاتل کا کچھ پتہ ہی نہ چلا بلکہ ا س سارے واقعے کو پھر دوسری ہی کہانی کی شکل دی گئی ۔یوں عوام کو ایک عجیب و غریب صورت حال کا سامنا رہا ۔ کوئی کوئی چوٹی کاٹنے کے اس مکروہ عمل کو مرکزی انجنسیوں کی کارستانی بتاتا رہا تو کسی نے فورسز پر شک کی انگلی اٹھا ئی۔ ایک موقع پرمرکزی لیڈروں نے علحیدگی پسندوں پر شک کا پانسہ پھینکا ۔ بہرحال سب اپنی اپنی عقل کے گھوڑئے دوڑا تے رہے، یہاں تک کہ فارنسک لیبارٹری بھی نادیدہ ہاتھوں کے اس جرم کی کوئی پردہ نمائی نہ کرسکی ۔
یہاں یہ سوال اُبھر کر سب کے سامنے آ تارہا کہ چوٹی کاٹنے والے کو جموں کی چوٹی والیوں کے ساتھ اتنا لگاؤ،میلان،رغبت اور دلچسپی کیوں نہیں تھی؟ انہوں نے جموں صوبہ میں دس بیس چوٹیاں کاٹ کر تیزی سے بانہال پار کر کے وادی میں قدم رنجہ ہونا کیوں مناسب سمجھا ؟ وہاں چوٹیاں کاٹنے کا سلسلہ تیزی سے شروع کر کے لگ بھگ ایک سو پچاس کے قریب دل خراش واقعات کا ریکارڈ قائم کیا۔ انتظامیہ پکڑے توکس کو پکڑے؟کہاں پکڑے؟اور کیسے پکڑے ؟۔اس ضمن میں محل پر مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے ۔بہت سال پہلے دو پولیس والوں نے ایک چور کوعدالت میں پیش کرنے کیلئے لایا اور خود ایک ٹی سٹال میں چائے پینے لگے۔اتنے میںچور نے موقع غنیمت سمجھ کر پولیس والوں کے چنگل سے اپنے آپ کو نکال کر بھاگ گیا۔چور لوگوں کے ساتھ کھلے راستے پر دوڑنے لگا اور اُس کا تعاقب دو پولیس والے چور،چور کہتے دوڑ رہے تھے اور عجیب بات یہ کہ چور بھی دوڑتے دوڑتے چور،چور کہہ رہا تھا تاکہ اس کی شناخت چھپی رہے۔لوگ سب حیران وششدر دیکھ رہے تھے کہ آخر چور ہے کون؟کون بھاگا ہے؟کس کو پکڑیں؟یہاں تک کہ پولیس تھک ہار کر کھڑی ہو گئی اور مجرم چورچور پکارتے ہوئے سب کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ایسا لگتاہے چوٹی کاٹنے والے بھوت بھی یہی نسخہ آزما کر صاف بچ نکلتے ہیں ۔اس لئے یہ بات محال بنی رہی کہ اصل مجرم کو کبھی بھی پکڑا جاتا ، یہاں تک کہ وہ اپنا ٹارگٹ حاصل کر کے خود بخود میدان نہ چھوڑ دیتا ۔ شومی ٔ قسمت سے جتنی چوٹیاں کٹ چکی ہیں، اللہ ان خواتین کی آگے حفاظت فرمائے اور بال تارشوں کے برے عزائم خاک میں ملا دے ۔ ویسے یہ چوٹی کاٹنے کے اس انتہائی ضمیر کش عمل کو روکنے میں ناکامی پر حکومت اور انتظامیہ کی افادیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور کشمیری عوام کی اس بے بسی و کسمپرسی کی حالت پر باضمیر اور حسا س دل لوگوں کورحم پرور ترس آرہاہے۔
فون نمبر 9858201396