سرینگر//خود کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرنے پر زور دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کشمیر کے بغیر دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں لوگ خود کو اس قدر تکلیف پہنچاتے ہیں۔محبوبہ مفتی بزنس کنکلیوسے خطاب کررہی تھیں۔ تاجر برادری کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا’’کشمیری لوگ مہینوں احتجاج کرتے ہیں اور پھر نقصانات کیلئے معاوضے اور دیگر مطالبات کرتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا ’’بحیثیت عوام ہمیں اس بات کا تجزیہ کرنا ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں۔پہلے ہم احتجاج کرتے ہیں اور اس کے بعد کشکول لیکر پیسے مانگتے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا ’’ہم گرمائی موسم میں کسی بھی معاملے پراحتجاجی سلسلہ شروع کرتے ہیں اور کام کاج چھوڑ دیتے ہیں جس نے ہماری معیشت کو بری طرح تباہ کردیا ہے‘‘۔ وزیراعلیٰ نے2016ایجی ٹیشن کے دوران سکولوں کے نذر آتش کرنے پر بتایا ’’ہم نے اپنے سکولوں کو نہیں بخشا،ہمارے بچے کئی مہینوں تک گھروں میں تھے اور ہم نے سکولوں کو بھی جلایا‘‘۔ انہوں نے کہا ’’وادی کے لوگوں نے گزشتہ 30برسوں کے دوران خود کو تکلیف دیکر کیا حاصل کیا ،زمین کی ایک انچ بھی ہل نہیں سکی ہے۔ہمیں اس بارے میں سوچنا ہے۔ہر ایک کشمیری جواہر ٹنل کراس کرنے کے بعد سکون محسوس کرلیتا ہے ۔حتیٰ کہ وہ لڑکے جو یہاں سنگ بازی کرتے ہیں وہ جموں جاکر فلمیں دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ انہوں نے تاجر طبقے پر زور دیا کہ جب بھی کوئی اہم شخصیت کشمیر کے دورے پر آتی ہے تو ایسے اوقات پر کاروباری ادارے بند کرنے کی روایت پرغورو فکر کریں۔محبوبہ نے کہا’’جب بھی نئی دلی سے کوئی یہاں آتا ہے تو ہم اپنی دکانیں بند کردیتے ہیںاور بعد میں مالی امداد کیلئے انہی سے رجوع کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا’’حکومت کیلئے مرکز کے ساتھ معاملات اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ وہاں سے یہی جواب دیتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے لوگوں میں اس بات پر مباحثہ چل رہا ہے کہ جب کشمیری سیاحوں پر پتھر مارتے ہیں تو مرکزی حکومت انہیں کیوں رقومات فراہم کررہی ہے۔محبوبہ نے کہا ’’ وہ اس حقیقت سے پریشان ہیں کہ جب وہ یہاں آتے ہیں تو اُن پر پتھر کیوں پھینکے جاتے ہیں جبکہ وہ اتنی کثیر رقوم ہمیں دیتے ہیں ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس امرناتھ یاتریوں پر حملے کی وجہ سے سیاحوں کی آمد میں زبردست کمی واقع ہوئی ۔ قومی میڈیا چینلوں کو پٹھکارتے ہوئے محبوبہ نے کہا کہ الیٹرانک میڈیا چینل کشمیر سے ایسے لوگوں کو بلاتے ہیں جو ملک کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مزید نفرت کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا’’یہ لوگ نیشنل میڈیا پر ملک کے خلاف جو کچھ کہتے ہیں وہ ریاست کیلئے نقصان دہ ہے ۔ایسا ہی اُن لوگوں کی طرف سے بھی ہورہا ہے جنہیں دوسری طرف سے جواب دینے کیلئے لایا جاتا ہے۔ریٹائرڈ افسران کشمیریوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں جس سے دوریاں مزید بڑھ جاتی ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ایجی ٹیشن کے توسط سے کشمیر مسئلے کا حل چاہتے ہیں ان پر یہ باور کیا جائے کہ کشمیری عوام زبردست نقصان سے دوچار ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا ’’میں اس وقت تاجروں اور کاروباریوں کے چہروں پر جو مایوسی دیکھ رہی ہوں ،اُس سے میں بھی دل گرفتہ ہوں لیکن ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ وادی کا تاجر طبقہ صرف اس وجہ سے قرضوں کی معافی کا طلبگار ہے کیونکہ ہم نے انہیں ایجی ٹیشنوں کے ذریعے نقصان پہنچایا ہے۔ چوٹیاں کاٹنے کے حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہویت محبوبہ مفتی نے کہا کہ راجستھان میں سینکڑوں ایسے کیس رونما ہوئے جبکہ جموں میں بھی ایسے واقعات پیش آئے لیکن یہاں مختلف قسم کی توضیحات اس ہنگامے کے ساتھ جوڑ دی گئیں۔انہوں نے وزیر خزانہ حسیب درابو پر زور دیا کہ وہ ہنر مندوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں۔