سرینگر// جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بزرگ علیحدگی پسند رہنما و حریت (گ) چیئرمین سید علی گیلانی کے بیان جس میں انہوں نے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ منافقت گیلانی کی نمایاں خاصیت ہے۔ عمر عبداللہ نے سوالیہ انداز میں کہا کہ گیلانی نے پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بیان کہ ’آزادی کشمیر کے لئے آپشن نہیں ہے‘کے ردعمل میں خاموشی کیوں اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ جب فاروق عبداللہ کے والد (مرحوم شیخ محمد عبداللہ) کشمیر کے لئے جدوجہد کررہے تھے تو گیلانی اس وقت انتخابات لڑنے اور جنتا پارٹی کی معاونت کرنے میں مصروف تھے۔ حریت چیئرمین گیلانی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے فاروق عبداللہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے خودغرض اور اقتدار کے بھوکے عناصر نے ریاستی عوام کی مبنی برحق تحریک کے ہر تاریخی موڑ پر قوم کو دھوکہ دینے میں کبھی شرم محسوس نہیں کی ہے۔ تاہم اس بیان کے محض چند گھنٹے بعد فاروق عبداللہ کے صاحبزادے عمر عبداللہ نے مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے مسٹر گیلانی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ’کیا گیلانی مجھے پاکستانی وزیراعظم (شاہد خاقان عباسی)کے بیان جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آزادی کشمیر کے لئے آپشن نہیں ہے، پر اپنا تردیدی بیان دکھا سکتے ہیں۔ منافقت گیلانی کی نمایاں خاصیت ہے‘۔ انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا ’جب فاروق عبداللہ کے والد (مرحوم شیخ محمد عبداللہ) کشمیر کے لئے جدوجہد کررہے تھے تو گیلانی اس وقت انتخابات لڑنے اور جنتا پارٹی کی معاونت کرنے میں مصروف تھے‘۔ مسٹر گیلانی 15 برسوں تک جموں وکشمیر اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ عمر عبداللہ نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے بیان کہ کشمیریوں نے اٹانومی کے لئے قربانیاںنہیں دی ہیں، کے ردعمل میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے ’یہ تعجب کی بات ہے کہ علیحدگی پسند خیمہ نیشنل کانفرنس صدر کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کررہے ہیں، لیکن پاکستانی وزیر اعظم کے بیان پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں‘۔
گیلانی نے ڈاکٹر فاروق کو ہی ہدف تنقید کیوں بنایا:ساگر
سرینگر//وقت نے بار بار یہ بات ثابت کرکے دکھایا ہے کہ نیشنل کانفرنس ہی ریاستی عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے اور ہر نازک موڑ پر یہی جماعت اس مظلوم قوم کیلئے نجات دہندہ ثابت ہوئی ہے ، حالیہ ایام میں بھی ریاست کی خصوصی پوزیشن کیخلاف ہورہی سازشوں اور حملوں کیخلاف شیر کشمیر کی اس جماعت نے جو رول نبھایا وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔ ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے نوائے صبح کمپلیکس میں ایک اجلاس کے حاشیئے کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ پی ڈی پی سینئر نائب صدر سرتاج مدنی کی طرف سے نیشنل کانفرنس پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے علی محمد ساگر نے کہا کہ اپنی غلطیوں اور سکینڈلوں کو دوسروں کے سر تھوپنا پی ڈی پی کا پرانا شیوا رہاہے۔ قلم دوات والے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس کو صرف اپوزیشن میں ہی اٹانومی یاد آتی ہے، میں ان کو ذہن نشین کراﺅں کہ جب اٹانومی کا مسودہ تیار کیا گیا اور اسے ریاست کی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے پاس کروایا گیا اُس وقت نیشنل کانفرنس برسراقتدار تھی ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ایجنسیوں نے پی ڈی پی کی بنیاد ہمارے اٹانومی مطالبہ ہی کو سبوتاژ کرنے کیلئے ڈالی، زرکثیر خرچ کرکے اس جماعت کو کھڑا کیا گیا اور مفتی محمد سعید کے منہ میں ’سیلف رول‘ کا فریبی نعرہ ڈال دیاگیا۔ ساگر نے پی ڈی پی والے مسئلہ کشمیر کے بارے میں اپنے نظریہ اور اس کے ممکنہ حل کی صاف صاف وضاحت عوام کے سامنے کیوں نہیں کرتے؟ قلم دوات جماعت کا داغدار اور کشمیر دشمن ماضی یاد دلاتے ہوئے جنرل سکریٹری نے کہا کہ 1977میں جب مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے نئی دلی سے وعدے کے مطابق 1952کی پوزیشن بحال کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا تو اُس وقت اُن کی حکومت سے بحیثیت ریاستی کانگریس صدر اعتماد واپس لینے والا کوئی اور نہیں بلکہ پی ڈی پی کے مرحوم سرپرست مفتی محمد سعید ہی تھے۔ 1984کے علاوہ منتخبہ حکومتوں کو کس نے گروایا، 1990میںجگموہن کو یہاں لاکر کس نے قتل عام کروایا، یہ سب پی ڈی پی کی موجودہ ٹولی کو یاد رکھنا چاہئے۔ شرم کی ایک حد ہوتی ہے اور پی ڈی پی والوں نے تمام حدیں پار کردیں ہیں، ایک طرف سے یہ جماعت لوگوں کو سبز جھنڈے دکھا رہی ہے اور دوسرے جانب اُن کیساتھ حکمرانی کررہے ہیں جو ریاست کی خصوصی پوزیشن اور مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کے لئے اعلاناً جدوجہد کررہے ہیں۔ساگر نے کہاکہ اس وقت بھی پی ڈی پی مکمل طور پر سکینڈلوں اور کشمیر دشمن کاموں میں غرق ہوچکی ہے اور اس جماعت کے خودساختہ لیڈران اب عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے بے وزن، بے تُکی اور بے ہودہ بیان بازی کررہے ہیں۔ سید علی گیلانی کی طرف سے نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کیخلاف دیئے گئے بیان کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں جنرل سکریٹری نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو کچھ ڈاکٹر فاروق نے کہا وہی بیان پاکستان کے وزیر اعظم نے اس سے 3روز قبل دیا، لیکن اس پر سید علی گیلانی نے کوئی ردعمل پیش نہیں کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے تین روز قبل کہا کہ جموں وکشمیر کیلئے آزادی کوئی آپشن نہیں اور گیلانی نے لب کشائی نہیں کی ،جب ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے یہی بات کہی تو اچانک گیلانی نے بیانات جاری کردیئے۔ اگر گیلانی صاحب آج حق بیان کررہے ہیں توپاکستانی وزیرا عظم کے بیان پر حق بیانی کیوں نہیں کی گئی؟یہ دوغلی پالیسی کیوں؟یہ کون سی سیاست ہے؟ تنقید کرنا آسان ہے اور حقیقت کا سامنا کرنا مشکل ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دلدل سے قوم کو نکالنے کیلئے کوئی راستہ ڈھونڈنا ہے۔انہوں نے کہا کہ گیلان ایک مذہبی سکالر ہیں اور دیندار شخصیت مانے جاتے ہیں انہیں ہمیشہ سچی بات کہنی چاہئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب تک نہ وہ نیشنل کانفرنس اور اس کی لیڈرشپ کی مخالفت کرے تب تک انہیں کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ وہ شیر کشمیر کیخلا ف زہر افشائی کرتے رہتے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جب شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ اور نیشنل کانفرنس کی دیگر لیڈر شپ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بند تھے اُس وقت وہ خود انتخابی سیاست میں مصرف تھے اور آدھ درجن الیکشن لڑے۔ اس سے قبل ساگر نے پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں کے اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ اس موقعے پر پارٹی کے سینئر لیڈران چودھری محمد رمضان، مبارک گل اور ایڈوکیٹ شوکت احمد میر بھی موجود تھے۔