جموں شہر اور مضافاتی علاقوں میں محکمہ جنگلات ، جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر متعلقہ حکام کی طرف سے غیر قانونی تجاوزات کے نام پر چلائی جارہی مہم جاری ہے اورگزشتہ دنوں شہر کے مضافاتی علاقے لکڑ منڈی میں گوجر طبقہ سے تعلق رکھنے والے کنبوں کے رہائشی مکان منہدم کردیئے گئے جس کے خلاف طبقہ متاثرہ لوگوں نے احتجاج بھی کیا ۔محکمہ جنگلات کی طرف سے انجام دی گئی اس کارروائی میں کئی کولہے منہدم کردیئے گئے جس کی وجہ سے متعدد کنبے بے گھرہوگئے ہیں۔ اس انہدامی کارروائی کے خلاف متاثرہ کنبوں نے اہل و عیال اور مال مویشی سمیت وزیر برائے جنگلات کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دیا اور یہ الزام عائد کیاکہ ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایاجارہے ۔ متاثرہ کنبوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس جگہ پر پچھلے 70برس سےمقیم ہیں اور انہیں ایک منصوبہ بند سازش کے تحت بے دخل کیاجارہاہے۔ناجائز تجاوزات کے خلاف انہدائی کارروائی کاجموں میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ماضی میں بھی اس طرح کی کئی کارروائیاں انجام دی گئیں اور خاص بات یہ ہے کہ ان کارروائیوں میں تیزی اس وقت آئی جب2014کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے جموںصوبہ سے 25نشستیں حاصل کرنے کے بعد پی ڈی پی کے ساتھ اتحادی حکومت قائم کی ۔ناجائز قبضوں اور تجاوزات کو ہٹانے پر کس کو اعتراض ہوسکتا ہے، لیکن یہ مہم ایک مخصوص فرقہ کے خلاف چلائی جارہی ہے جسکی شروعات موجودہ مخلوط سرکار میں ایسے لوگوں کے شامل ہونے سے ہوئی جو عمومی طور پر فرقہ پرستی کے داعی رہے ہیں اور اب تو اس طرح کی کارروائیاں بغیر کسی رکاوٹ کے انجام دی جارہی ہیں اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ہر ایک کارروائی میں نشانہ مخصوص طبقہ یا مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی بنتے ہیں اور قاسم نگر اور دیگر جگہوں پر غیر قانونی طور پربسائی گئی بستیوں تک کسی کی نظر نہیں جاتی اور نہ ہی ان غیر ریاستی افراد کو یہاںسے بے دخل کیاجاتاہے جنہوںنے قانون اورآئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے مکانات تعمیر کرلئے ہیں لیکن اسی ریاست کے شہریوں کو بے دخل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی جاتی ۔جانی پور ، سدھرا ، سنجواں ، بٹھنڈی جیسے علاقوں کو نہ صر ف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھاجارہاہے بلکہ ان علاقوں میںحالیہ عرصہ میں کئی کارروائیاں بھی انجام دے کر لوگوں کو بے گھر کیاگیاہے ۔کئی علاقوں میں تعمیرات پر ہی پابندی عائد کردی گئی ہے ،جس سے زمینیں خریدنے والوں کو نقصان کاسامناہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں شہرجہاں تشدد زدہ علاقوں سے آئے ہوئے غیر ملکیوں کامسکن بناہے وہیں90کی دہائی میں اور اس کے بعد کے حالات کی وجہ سے بڑی تعدا د میں ریاست کےمختلف علاقوں کے لوگ بھی اس خطہ میں منتقل ہوگئے اور انہوں نے زمینیں خرید کر چھوٹے چھوٹے مکانات تعمیر کئے مگر اب اس جائیداد کو تباہ کرکے انہیں بے دخل کیاجارہاہے ۔ پہلے تو اس طرح کی کسی بھی کارروائی سے اجتناب کیاجاناچاہئےتھا جس کے نتیجہ میں لوگ اجڑنے پر مجبور ہوں اور اگر حقیقی معنوں میں ناجائز تجاوزات مخالف کارروائی کی جانی ہے تو اس کا آغاز قاسم نگر اور اسی طرح سے آباد کی گئی منظم بستیوں سے ہوناچاہئے اور پھر بغیرمذہب و ملت سبھی کو نشانہ بنایاجائے ۔ لیکن ایسا نہیں کیا جار ہا ہے بلکہ اس مخصوص فرقہ کو نشانہ بنا کر اس سیاست کو آگے بڑھایا جار ہا ہے، جو ریاست کے اندر انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔