دین اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے ۔اس کے دوام ، اس کی ہمہ گیریت اورپورے ادیان عالم وافکارِجہاں پر اس کے غالب ہونے کی پیش گوئی عالم اسلام کے لئے سب سے بڑی بشارت ہے۔ رب کائنات کا ارشاد ہے: وہ ذات ہے کہ جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان عالم پر بلند اور غالب کرے۔( سورہ صف۔۔۔ ۹) اسلام سراسر ہدایت ہے اور ہدایت یافتہ انسانوں کے لئے خدا کا وضع کردہ نظامِ زندگی ہے ۔اس دین کو اپنی زندگی میں نافذ کر نے اور دنیا پر غالب کرنے کے لئے مسلمان کو دُرست عقائد واعمال صالح کے علاوہ ملت کے تئیںاتحادواتفاق ، اجتماعیت اور یگانگت کا بھر پور مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ اللہ تعالی اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: ترجمہ: اس لئے اسی دین پر قائم رہنا ہی کامیابی ہے اور یہی صحیح اور سیدھا راستہ ہے۔اس میں نفاق اور اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس دین میں بھا ئی چارہ، ملنساری،ہمدردی،محبت اور اخوت پر زور دیا گیاہے۔ باقی تمام مذاہب عالم اس طرح کی تعلیم و تربیت اور پیغام دینے سے عاری اور خالی ہیں۔ اور اگر کہیں انصاف،اخوت ،یک رنگی ،ملنساری ، الفت و محبت ، عزت ووقار، انسانیت کا درد ،لازوال کامیابی،روشنی اور سر بلندی ہے تو وہ اسی دین مبین میں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے بارے میںاقبال یوںکہتے ہیں ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
علامہ اقبال نے وسیع علمی و تاریخی مطالعے سے یہ اخذ کیا کہ اسلام ہی میں انسانی زندگی کے بنیادی مسائل کا حل ہے۔اقبال ملت کے رازدان ہیں۔انہو ںنے لگ بھگ پوری عمر افلاک علم کی سیر کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فاشزم،کمیونزم یا دور حاضر کے دوسرے ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے بلکہ صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے۔فرماتے ہیں:
’’ ــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــمیرے نزدیک فاشزم، کمیونزم یا حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔میرے عقیدے کی رُو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کے لئے ہر نقطئہ نگاہ سے موجب نجات ہو سکتی ہے ‘‘ ۔
اسلام رنگ ، نسل،قوم اور علاقائی تعصبات کو رد کرتا ہے۔اس کے نزدیک بنی نوع انسان سب برابر ہے۔نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے، نہ اسود اور احمر میں کوئی فرق ہے، نہ غلام اور بادشاہ میںکوئی موازنہ ہے اور نہ ہی امیر کو غریب پر کوئی ترجیح ہے۔اگر کسی کو فضیلت ہے تو وہ بس اس انسان کوہے جو تقویٰ شعار اور پرہیز گار ہو۔ اقبال نے اُمت مسلمہ کو جھنجھوڑنے کی بھر پور کوشش کر کے اسے اتحادو اتفاق پر قائم رہنے کی پر زور تلقین کی ۔ اپنی ایک نظم ’’ بزم انجم ‘‘ میں ایک دوسرے سے ربط باہمی کی استواری کے لئے تاروں کی مثال دی ؎
ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
ہمارے رہبرورہنما، صادق المصدوق ،پیغمبر آخرالزمان جناب رسول اللہ ﷺ نے اتحاد اور جماعت والی زندگی گذارنے اور جماعت کی اہمیت وافادیت اور فضیلت کو واضح کرکے انتشار وافتراق کے انجام بدسے خبردارکرکے فرمایا:’’ میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں ، جماعت بن کر رہنے کا ،سمع و طاعت کا، ہجرت کا اور جہاد فی سبیل اللہ کا۔۔ یقین رکھو جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے نکلا اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکامگر یہ کہ ( اس قلادے کو) دوبارہ لوٹائے اور جو شخص جاہلیت کی طرف دعوت دے ، وہ جہنم میں جھونکا جائے گا۔اگرچہ روزے رکھتا ہو، نمازیں پڑھتا ہواور اپنے آپ کو مسلمان تصور کرتا ہو! ‘ ( رواہ احمد و الترمذی۔ مشکوٰہ کتاب الامارہ و القضاء ص : ۳۲۱)
جماعت میں قوت، طاقت، غیرت ، شجاعت اور بلند ہمت جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔یکجہتی و یگانگت،اتفاق اور اتحاد میں خورشید مبین بن سکتے ہیں۔ابو المجاہد زاہدکا ارشاد بر حق ہے ؎
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروںسے کیا بات بنے
اقبال کے نزدیک اگر مسلمانوںنے اب بھی اجتماعیت اختیار نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب یہ بڑے پیمانے پر زوال کی شکار ہوگی۔ واضح رہے اسلام کا نصب العین اجتماعیت اور اتحاد ہے تاکہ مسلمان ایک مضبوط ملت کی صورت میں منصبِ خلافت و امامت پر فائز ہوںاور دنیا میں وحدت کی خوشبوئیں اور حیات اجتماعی کی خوبیاں پھیلائیں۔اس کے برعکس مغرب نے جو نظریۂ قومیت پیش کر تا ہے، اس میں انسانیت کے لئے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ،اس لئے ملت اسلامیہ کو ملی شعور اور دینی تشخص قائم رکھتے ہوئے اس کا توڑ کر نے کے لئے اتحادواتفاق توحید پر قائم رہناہوگا۔ حضرت محمدﷺ نے تمام امت کو پیغام توحید سے منور کرکے ایک ہی پرچم کے نیچے مجتمع کرکے اتحادواتفاق کا لا مثال اور پیغمبرانہ کردار ادا کیا جسے ہمیں اپنا نقش راہ بنانا ہوگا۔علامہ کے معجز نما اشعار میں قومیت اور وطنیت کے بجائے دین اور ملت ک دروس پیوستہ ہیں ۔ فرمایا ؎
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم جمعیت تیری!
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
دیںہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارہ
اقبال کی ہمیشہ یہی ایک کوشش رہی کہ ملت اسلامیہ اپنے مذہب کے حقائق سے پوری طرح آشنائی حاصل کرسکیں اور خودی کے اسرار سے واقف ہوکر ذہنی غلامی اور جھکڑ بندیوںسے مکمل چھٹکاراپائیں،تب جاکر ملت کا ہر فرد اپنی زندگی کی تعمیر کر سکتا ہے۔ ماہر اقبال جگن ناتھ آزاداس حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ اقبال نے ملت اسلامیان ہندکے دلوںمیں اسلام کا حقیقی تصور اجاگر کر کے مسلمانوں کی خودی کو بیدار کر نے کی سعی کی اور انہیں ذہنی غلامی سے نجات دلائی۔اقبال مرد مومن کی صفات کے گرویدہ تھے۔ان صفات کی اثر انگیزی سے وہ فرد کی زندگی کی تعمیروتہذیب کرنا چاہتے تھے کہ فرد کی خوبی سے حیات اجتماعی میںخوبیاں پیدا ہوں‘‘ ۔اس لئے اگر فرد کی خودی بیدار ہو جائے تو اس کامٹنا محال ہے بلکہ اس کاوجود مرنے کے بعد بھی رنگ لائے گا۔جب فرد اپنی تعمیر کرتا ہے تویہ جماعت کو مضبوط بنانے میںکارگر ثابت ہوتا ہے کیوںکہ فرد کے لئے پھر جماعت رحمت بن کر اس کی زندگی کو چار چاند لگاتی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ جماعت سے وابستہ افرادمیںاستحکام اور مضبوطی رونما ہوتی ہے ۔علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎
فرد را ربط جماعت رحمت است
جوہر او را کمال از ملت است
تا توانی با جماعت یار باش
رونق ہنگا مئہ احرار باش
ترجمہ:۔ فرد کے لئے جماعت رحمت ہے۔اس کی خوبیوں کو ملت ہی کے ذرئعے کمال حاصل ہوتا ہے۔جہاں تک ہو سکے جماعت کے ساتھ وابستہ رہواور آزاد لوگوں کے ہنگامے کی رونق بنے رہو۔ اقبال کی یہ سب سے بڑی تمنا اور آروزو تھی کہ مسلمان ایک اکائی ہو جائیں اور پوری دنیا پہ چھا جائیں۔مسلمان ایک جسم اور ایک جان کی حیثیت سے سارے عالم کو یہ پیغام سنائیںکہ ہم سب ایک ہی جسد واحد ہیں ، چاہے کوئی مشرق کا ہو یا مغرب کا،شمال کا ہو یاجنوب کا۔ فرمایا ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
علامہ محمد اقبال مسلمانوں کی سر بلندی کے بے حد متمنی تھے ،یہاں تک کہ ان کو ایک ہی راستے پر لانے کی بھر پور سعی وکاوش کی لیکن آج کے مسلمان مسلکی منافرت اور اختلافات و تضادات لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں ، کلمہ خوانوں پر رنگ ونسل ، ذات پات اور فرقہ پرستی وشخصیت پرستی کا غلبہ ہے۔حالانکہ وقت وقت پر ایسے علمائے دین و مفکرین ومجددین ابھر کر ہمارے درمیان موجود رہے جو ہمہ وقت تعلیم وتربیت کے ذریعے جمعیت ،اخوت اور اتحادواتفاق کے پیغامات سے ملت کو نوازتے ر ہے اور ہمیشہ دامن ِدین کو مضبوطی سے تھام کر جمعیت مسلمانی بچانے کی حتی الوسع کوششیں کر تے رہے مگر زبردست جدوجہد کے باوجود ہم مسلمان نااتفاقی اور سر پھٹول میں لگے رہے کہ ہماری ہوا ہی اکھڑ کر رہی۔اقبال جمعیت دین کی حفاظت کے تئیں کی تلقین کر تے ہوئے ہمیں خبردار کر تے ہیں ؎
دامن ِ دیں ہاتھ سے چھوٹاتوجمعیت کہاں
اور جمعیت ہو ئی رخصت تو ملت بھی گئی
علامہ اقبال کی طرح ملت کے بکھرنے کا درد مولانا سید مودودی بھی شدت سے محسوس کرتے رہے۔دونوں اصحاب ِ فکر مسلمانوں کی جمعیت کا بکھرنا برداشت نہیں کرتے تھے۔ان شخصیات کی ہم خیالی اور وحدت فکر نے انہیں کمال درجے تک پہنچایا۔اقبال اور مودودی ہندوستانی مسلمانوں میںبالخصوص اورمسلمانان عالم میں بالعموم فکری تطہیر میں لگے رہے اور انہیں حقیقی زندگی کی صحیح ِمنزل سے روشناس کرانے اور اقامت دین کی دعوت دینے میں مصروف عمل رہے۔البتہ اقبال نے اقامت دین کے لئے مولانا مودودی سے قبل را ہیںہموار کر نے کا عَلم اٹھایاتھا۔ ایک محقق کے الفاظ میں ’’ علامہ اقبال نے تحریک اقامت دین کے قیام کے لئے مولانا مودودی سے قبل ہی زمین ہموار کرنا شروع کر دیا تھا اور ۱۹۲۷ء سے دونوں مل کر اس کام میں مصروف رہے تا آنکہ علامہ اقبال کا انتقال ہو گیااور اسی وجہ سے اقبال کے انتقال کے چند سال بعد ہی مولانا مودودی تحریک اقامت دین کی بنیاد رکھ سکے‘‘ دراصل تحریک اقامت دین کا نصب العین بھی اقامت دین ہی ہے اور اس کا بنیادی مقصد خدا پرستی، انسان دوستی اور آخرت پسندی ہے۔اقبال کی فکری سعی وکاوش کا محرک و مقصود بنی نوع انسان کی ہمدردی ہی کا جذبہ ہے جس کا سر چشمہ صرف اسلام ہے ۔ اقبال کی انسان دوستی اجتماعی شعور کا ہی مظہر ہے اوردراصل یہ اسلام کے اصول اور ضابطے ہیں جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود مقرر فرمایا ہے اور جو انہیں تسلیم کرے اور بجا لائے وہ مسلم ہے ۔ اقبال کی انسانی دوستی کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی لکھتے ہیں :
’’ چنانچہ اسلام خالص اصولی بنیاد پر ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک کتاب کے تحت تمام بنی آدم کی ایک ملی وحدت قائم کرنا چاہتا ہے، جس میں رنگ ،نسل،وطن ، رتبہ اور اثاثہ وغیرہ کی تنگ اور غیر فطری بنیا دوں پر کسی قسم کی تفریق و تمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔ہر شخص کی حیثیت صرف اس کے انفرادی عمل و کردار کے مطابق متعین ہوگی اور اس عمل و کردار کا معیار ہوگا۔خدمت خلق، یعنی ذاتی خوبیوں کا اعتباراسی وقت قائم ہو گا جب وہ اجتماعی فلاح میں معاون ہو ں ‘‘ ۔ اقبال کے نزدیک جدید انسان علم وعقل کی فراوانی کے ہوتے ہوئے بھی پریشان اور بدحال ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصول فطرت،طریق حکمت اور اتحاد کی نعمت سے بہت دور چلا گیا ہے۔آج کا انسان صرف فرقہ، قوم، وطن،نسل اور اپنی ذات کی تنگ حدود میںسوچتے ہیں۔اس وجہ سے عالمی سطح پر اخوت، انسان دوستی، حریت فکر اور مساوات وغیرہ جیسی حیات بخش قدریں سب زائل ہو گئی ہیں۔آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو موجودہ ملت کی زبوںحا لی پہ آہ وزاری کرتیاور پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے ہمارا گریباں پکڑکے پوچھتے: ارے ناہنجاروں یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ، کیا تم اللہ کی آیت کو بھول چکے ہو : اور سب مل جل کر اللہ کی رسی(قرآن) کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور اپنے آپ کو مختلف فرقوں میںتقسیم مت کرو۔ ( آل عمران ۱۰۳)
اس لئے حکیم الامت کے نزدیک جب تک مسلمان مختلف فرقوںسے آکر صرف ایک مضبوط جماعت نہ بن جائے اور جب تک قرآن حکیم و سنت رسول ﷺ کی تعلیم اور پیغام کو مل کر پیش نہ کیا جائے تب تک فرقہ پرستی کے گندے تالاب میں یہ ملت غوطہ زنی میں مبتلا رہے گی۔اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمان قوم مجبور ومقہور ومحکوم اور خلافت کی نعمت سے محروم رہے گی۔اس لئے جس طرح حضور ﷺ کے دور مبارک میں سبھی مسلمان ایک ہی پرچم ،ایک ہی نعرے اور ایک ہی قائد کے تحت مضبوط ارادوںاور پختہ عزموں کے ساتھ آگے بڑھتے گئے اور اسلامی بہار کی بنا ء ڈالی اسی طرح ہمیں بھی ایک ہی سایہ دار شجر طیبہ کے نیچے اکٹھے رہنا ہوگا تاکہ ہر یورش سے بچنا ہمارے لئے ممکن ہواور منزل مراد کا حصول آسان ہو۔اس ضمن میں فکر اقبال کے حوالے سے پروفیسر شفیق الرحمٰن ہاشمی لکھتے ہیں۔
’’ اسلام کی سر بلندی کے لئے مسلمانوں کا باہمی اتحاد نہایت ضروری ہے۔ اتحاد میںبڑی برکت ہو تی ہے۔مسلمانوں کے اتحاد کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ مسلمان اللہ تعا لیٰ کی رسی یعنی قرآن پاک کو مضبوطی سے تھام لیں۔فروعی اختلافات میں اپنی قوتیںصرف کرنے کی بجائے اپنی اصلاح کریں اور پھر اللہ کے دین کو دنیا میں غالب کرنے کی کو شش کریں۔مسلمانوںکے اتحاد میں برادریوں کے بندھن ، فرقہ پرستی اور رسم ورواج سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ایک دوسرے کو اپنا بھائی تصور کریں اور باہمی اتحاد کو اللہ تعالیٰ کا ایک حکم سمجھیں، شعو ب وقبائل اور رسوم کہن کی زنجیروںکو توڑ دیںتو وہ دنیا میں تو حید عام کرنے کے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ اسلام میں کسی کو فضیلت رنگ و نسل ، قبیلے اور خاندان پر موقوف نہیں ہے بلکہ خوف خدا اور عمل صالح پر ہے۔رنگ و نسل، فروعی اور مسلکی اختلافات کے احساس کو ختم کرنا چاہئے تاکہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب اور فساد پرست لوگ ناکام ونامراد ہوکے پسپا ہو جائیں ؎
بتان شعوب و قبائل کو توڑ
رسوم کہن کے سلاسل کو تو ڑ
یہی دین محکم یہی فتح باب
کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب
اقبال بڑی درد مندی کے ساتھ کہتے ہیں کہ بڑی بات ہوتی اگر مسلمان بھی ایک ہوتے ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اقبال ملت کی شیرازہ بندی چاہتے ہیں۔اُن کے نزدیک مسلمان ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو نے سے ہی اپنا دین وایمان بچاسکتے ہیں اور مقاصد اسلام کی تکمیل کر سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مساوات اور اخوت کا درس اور پیغام قدم قدم پردیا۔ 쬄�쬄쬄쬄쬄쬄