امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ چین کے بعد یہ سوال عالمی سیاسی محفلوں و مطبوعاتی دائروں میں پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اِس دورے کے بعدعالمی سیاست میں چین کے سفارتی وزن میں کچھ تغیر آیا ہے یا ابھی بھی امریکہ کی ہمہ جہت بالا دستی قائم ہے؟ اِس سوال کا جواب آساں نہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور چینی صدر زی جینگ پنگ کے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نرم لہجے سے صرفنظر دونوں ہی ممالک کے سوق الجیشی (سیاسی و فوجی) ماہرین ایک دوسرے کی سفارتی سر گرمیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے مستقبل کی پالسیوں کو ترتیب دے رہے ہیں۔ امریکہ آج کے عالمی نظام میں ایک سپر پاور ہے لیکن چین کے فوجی اور اقتصادی پھیلاؤ نے ایک نئی عالمی صورت حال کو جنم دیا ہے جس کا عالمی سطح پہ بغور جائزہ لیا جا رہا ہے اور امریکہ سمیت دوسری عالمی طاقتیں ایک نئی حقیقت سے نبٹنے کی تیاری میں مشغول نظر آتی ہیں۔ چین عالمی سیاست میں ایک ایسے مقام پہ پہنچا ہے جہاں اُس کی فوجی و اقتصادی طاقت کو نا دیدہ نہیں لیا جا سکتاہے۔چین کی تشکیل جدید اور بے پناہ پھیلاؤ کے باوجود چین اپنی طاقت کو منوانے میں احتیاط سے کام لے رہا ہے جس کی گوناگوں وجوہات ہیں جو آج کے مقالے میں مطرح رہیں گی لیکن اُس سے پہلے عالمی سیاست میں بدلاؤ کے پس منظر کو جانچنا ہو گا۔
جنگ جہانی دوم کے بعد امریکہ ایک سپر پاور کے روپ میں منظر عام پہ آیا۔اُس سے پہلے برطانیہ افرو ایشیائی ممالک پہ اپنے تسلط کے بل بوتے پہ ایک ایسی سلطنت کی تشکیل دے چکا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اُس پہ کبھی آفتاب طلوع نہیں ہوتالیکن جنگ جہانی دوم میں گر چہ برطانیہ نے امریکی کمک کے سہارے جرمنی کے خلاف جنگ جیت لی لیکن جنگی اخراجات نے برطانوی اقتصاد کو اِس حد تک ضعیف بنایا کہ وہ سلطنت جس پہ کبھی آفتاب طلوع نہیں ہوتا تھا یکے بعد دیگرے افرو ایشیائی ممالک میں اپنی نو آبادیاں کھونے سے ایک جزیرے میں سمٹ کے رہ گئی ۔برطانیہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے ایک جزیرہ ہے جس میں مسلسل بارشوں و سرد ہواؤں کے زیر اثر شاز و نادر ہی کھلے آفتاب کی شعاعیں پڑتی ہیں۔ جنگ جہانی دوم کے بعد امریکہ دنیا کا نیا چودھری بن گیالیکن ہر کمالے را زوال کے مصداق کم و بیش سات دَہائیوں کے بعد امریکی پسپائی کے آثار مشرق وسطی سے لے کے افغانستان تک مشہود ہیں گر چہ امریکہ ابھی بھی اپنی چودھراہٹ کو منوانے پہ تلا ہوا ہے ۔
عالمی سیاست میں جنگ جہانی دوم کے بعد کئی دہائیوں تک روس امریکہ کا حریف بنا رہا ۔جہاں امریکہ سرمایہ دارانہ بلاک کی وہی روس کمیونسٹ بلاک کی رہنمائی کر رہا تھا۔سرمایہ دارانہ بلاک میں مغربی یورپائی اور کمیونسٹ بلاک میں مشرقی یورپائی اور ایشائی مرکزی کے مسلم ممالک شامل تھے۔روس فوجی طاقت کے حساب سے امریکہ کے ہم پلہ تھا البتہ روس کو اقتصادی ضعف کھا گیا ثانیاََ افغانستا ن میں جنگی مہم جوئی جو نہ روس کو ساز گار آئی نہ ہی اُس سے پہلے برطانوی سامراج کو اور نہ ہی آج کل امریکہ کو گر چہ امریکہ کی ہٹ دھرمی قائم ہے۔روس کی پسپائی کے بعد امریکہ دنیا کا تک و تنہا سپر پاور بن گیا لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے چین چپ سادھے ہوئے نہ صرف اپنی فوجی طاقت کو پھیلانے میں لگا ہے بلکہ اپنی فوجی طاقت کو مضبوط سہارا دینے کیلئے اپنے اقتصاد کو وہ محکمی فراہم کرنے میں کامیاب ہوا ہے جس سے دیکھ کے دنیا حیران ہو رہی ہے۔
روس نے خالص کارل مارکس کی اقتصادی اصلاحوں کو بروئے کار لاکے اقتصادی میدان میں مات کھائی جبکہ چین نے اپنی پیشرفت کیلئے ایک درمیانی راستہ چنا جس میں اڑیم سمتھ کی سرمایہ کارانہ اصلاحات کے ساتھ ساتھ کارل مارکس کے کمیونسٹ نظریے کو بھی پنپنے دیا گیا یعنی سرمایہ دارانہ اور کمیونزم نظام میں جو اصلاحات چین کو مناسب لگیں اُنہیں اپنایا گیا اور جہاں بھی منفی پہلو نظر آیا اُسے رد کیا گیا۔کہا جا سکتا ہے کہ اقتصادی میدان میں سرمایہ کاری کو وسعت دی گئی جبکہ سیاسی میدان میں مارکس کے نظریے کو فروغ ملا چناچہ چین میں ابھی بھی کمیونسٹ پارٹی کی بالا دستی قائم ہے اور اِس پارٹی کے بغیر کسی اور حزب کے وجود کا امکاں نہیں حالانکہ اِس سے چین پہ واحد حزبی ڈکٹیٹری کے الزامات بھی لگ رہے ہیں لیکن چین اِن الزامات سے بے نیاز اپنی راہ چل رہا ہے۔
چین کو اپنی بر آمدات کیلئے نئے بازار چاہیں ۔سامراجی دور میں یورپی بر آمدات کیلئے اُن کے تسلط کے تحت افرو ایشیائی و لاطینی امریکائی ممالک بازار فراہم کرتے تھے ثانیاََ یورپی ممالک نے راس امید او سوئز کنال جیسی سمندری راہروں سے یورپ سے اپنی بر آمدات کو بازاروں تک جلد سے جلد پہنچانے کی راہ فراہم کر لی تھی اور اِنہی راہروں سے تحت سلطہ ممالک سے خام مال درآمد ہوتا تھا۔سامراج اپنی بازی سمیٹ گیا ہے اور آج کی دنیا میں فوجی دھونس و طاقت کے بل بوتے پہ نہیں بلکہ سرمایہ لگا کے تجارتی بالا دستی کی راہیں کھلی ہیں ۔پسماندہ ممالک حتّی ترقی پذیر ممالک کو بھی اقتصادی پیشرفت کیلئے سرمایہ چاہیے اور چین کے پاس سرمایے کی کمی نہیں ۔چین سرمایہ فراہم کرنے کیلئے تیار ہے لیکن عالمی اقتصاد کا نیا کھلاڑی زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے ساتھ جوڑنے میں سرمایہ کاری کی تاک لگائے بیٹھا ہے۔ 65ایسے ممالک کی فہرست تیار کی گئی ہے جو چین کے ساتھ ایک بیلٹ روڑ میں جڑنے کو تیار ہیں ۔اِن تجارتی راہروں میں کہیں سڑک ہے تو کہیں ریل اور جہاں زمینی راستے ختم ہوتے ہیں وہاں آبی راہروں سے کام لیا جائے گا۔ سڑک و ریل کے علاوہ تیز ترین مواصلاتی رابطے اور انرجی پائپ لائنزبھی چینی سرمایہ کاری میں شامل ہیں۔یہ رابطے چینی بر آمدات اور در آمدات کو فروغ دینے کیلئے قائم کئے جا رہیں ہیں۔چین کی یہ وسیع سرمایہ کاری اُس کے مستقبل کو مضبوط ترین تحفظات فراہم کرنے کیلئے کی جا رہی ہے۔چین کا سرمایہ آساں تریں شرطوں پہ فراہم کیا جا رہاہے۔یہ ظاہری صورت ہے لیکن سرمایہ فراہم کرنے اور مراعات مانگنے میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔
چین کی بے پناہ ترقی سے کئی ممالک خوفزدہ ہیں جن میں جاپان،اسٹریلیاو بھارت کا نام لیا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے چین کے بڑھتے ہوئے اقدامات پہ روک لگانے کیلئے اِن ملکوں کی پیٹھ امریکہ بہادر ٹھونک رہا ہے لیکن حالیہ دنوں میں ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ نئی عالمی حقیقتوں کو سمجھتے ہوئے چین کے ساتھ سودا طے کرنے میں لگا ہوا ہے۔عالمی سوداگری میں امریکہ پرانا کھلاڑی ہے اور ابھی بھی عالمی اقتصاد پہ امریکہ کی بالا دستی بنی ہوئی ہے۔جہاں یہ صیح ہے وہی یہ بھی صیح ہے کہ چین و امریکہ کی دو طرفہ بر آمدات و در آمدات کا اگر جائزہ لیا جائے تو چین امریکہ پہ بھاری پڑرہا ہے یعنی چین کی امریکہ کو بر آمدات امریکہ سے در آمدات سے کہیں زیادہ ہیں چناچہ دو طرفہ تجارت میں چین کا پلہ بھاری ہے ۔اِس عیاں حقیقت کے باوجود عالمی تجارت پہ ڈالر کی چھاپ ہے اور چین عالمی اقتصاد کے توازن کو بگاڑے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ عالمی اقتصادی توازن سے اُسکے اپنے تحفظات جڑے ہیں۔
چین کی اعتدال پسند سیاست کو امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی مہینوں میں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور جہاں ٹرمپ روس کے ساتھ تعلقات کی استواری پہ زور دے رہے تھے وہی وہ اُبھرتے ہوئے چین سے خطرے کا احساس کرتے ہوئے نگرانی کا اظہار بھی کر رہے تھے ۔وائٹ ہاوس میں ٹرمپ کی ٹیم میںایسے بھی اہلکار تھے جو چین کو چالبازی کا لیبل دے رہے تھے جو میٹھا لہجہ اپنائے اپنے حقیقی ارادوں کو چھپا رہا ہے۔ ایسے اہلکاروں میں سٹیو بینن و سبسٹین گورکھا کا شمار کیا جا سکتا ہے جو ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی مہینوں میں کاخ سفید کے پالیسی ساز اداروں میں اہم عہدوں پہ فائز تھے ۔ یہ دونوں شخص دائیں بازو کی انتہا پسند سیاست کے حامی ہیں ۔اُن کا ماننا تھا کہ چین کی شاطرانہ سیاست نے امریکہ سیاست کے اعلی اہلکاروں جن میں وہ امریکی صدور کو بھی شامل کرتے تھے غفلت میں مبتلا کر دیا ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ اپنی صدارت کی ابتدا میں ایسے ہی مشیروں کے خواہاں تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ٹرمپ بھی دائیں بازو کے انتہا پسند خیمے سے تعلق رکھتے تھے لیکن کاخ سفید میں چند ہی مہینے گذارنے کے بعد وہ عالمی سیاست کی حقیقتوں سے آگاہ ہو گئے اور اُنہیں نہ صرف اپنا لب و لہجہ بدلنا پڑا بلکہ اُ نہیں اِن دونوں کو کاخ سفید کے اہم عہدوں سے فارغ کرنا پڑا۔
چینی مطبوعات میں حالیہ مہینوں میں جو مقالات پڑھنے کو مل رہے ہیں اُن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ چین کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتا جس سے وہ موجودہ عالمی نظام پہ بھاری پڑے ۔ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے چینی مطبوعات میں وہی کچھ چھپتا ہے جس پہ کمیونسٹ پارٹی کی مہر ہو۔گلوبل ٹائمز چین کا خارجی مطبوعاتی ترجمان ہے اور جو کچھ بھی اِس اخبار میں چھپتا ہے وہ در اصل چین کی خارجی پالیسی کا آئینہ ہوتا ہے۔ چین کی خارجی پالیسی میں ایک اعتدالی کیفیت نمایاں ہے ۔جہاں چین حتّی المکاں اپنے تحفظات کا نگہباں ہے وہی ٹکراؤ کی سیاست سے کتراتا بھی ہے۔ چین نے موجودہ عالمی اقتصادی نظام سے کافی فوائد بھی حاصل کئے ہیں ۔عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنازیشن :(WTOسے 2001ء میں جڑ جانے کے بعد چینی بر آمدات میں بے پناہ اضافہ ہوا اور چینی اقتصاد میں خارجی سرمایہ کاری بھی ہوئی کیونکہ صنعتی فروغ کی کا فی گنجائش تھی اور چین میں مزدوری کی شرع بھی کافی کم تھی ۔ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چین میں کھلی اقتصادی پالیسی کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور ایسے میں چین کی صنعتی ترقی میں ساجھے دار بنے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ چین کے دوراں چین نے اپنی ساجھے داری کی پالیسی پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ کی ٹیم کے ساتھ ایسے سودے طے کئے جن کا تاثر امریکی صدر پہ اتنا مثبت رہا کہ اُنہوں نے چینی صدر اور چین کی تعریفوں کے پل باندھے ۔اِسے خالص سفارتی نزاکتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے الفاظ میں شمار نہیں کیا جا سکتا بلکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسی امریکہ فسٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے چین نے امریکی بازاروں میں خرید کی ایک خاصی لمبی لسٹ بھی پیش کی جن میں 300بوئنگ طیاروں کی فہرست بھی شامل ہے ۔چین امریکہ کی پیش رفت ٹیکنو لوجی میں بھی دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے۔چین کی شاپنگ لسٹ سے امریکی صنعت کو فروغ حاصل ہو گا اور روزگار فراہم کرنے کے امکانات بھی بڑھیں گے ۔ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ صنعت کی وسعت کے طلبگار بھی ہیں اور روزگار فراہم کرنے کے وعدہ بند بھی اور ایسے میں چین کی شاپنگ لسٹ معاون ثابت ہو سکتی ہے۔دیکھا جائے تو جتنا سرمایہ چین کے پاس ہے سرمایے کی وہ سطح کسی اور ملک کو میسر نہیں لہذا چین کی امریکہ کے ساتھ اقتصادی ساجھے داری چین کے تئیں امریکی رویے میں ایک مثبت تبدیلی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔
امریکی رویے میں چین کی نسبت مثبت رخ کو ایک ایسی صورت حال سے تعبیر دینا جہاں امریکہ ایک اُبھرتی ہوئی طاقت سے غافل ہو جائے ایک حقیقت پسند تجزیہ نہیں ہو سکتالہذا جاپان،اسٹریلیا اور بھارت پہ امریکی دست شفقت بنا رہے گا تاکہ چین اپنے پرَ اِس حد تک نہ پھیلا سکے جہاں امریکہ مفادات کو زک پہنچنے کا احتمال ہو ۔جنوبی چینی سمندر کو چین اپنا سمندر مانتا ہے بدون شرکت غیرے اور یہ صورت حال نہ ہی امریکہ کو قابل قبول ہے نہ ہی بحر منجمند کے ساحل پہ رہنے والے کئی دوسرے ممالک کو لہذا یہ ایک نزاع کا باعث بنا ہوا ہے ۔پاکستان میں گوادر کی بندگاہ سے چین کے بحر ہند کی جانب بڑھتے ہوئے قدم نہ ہی بھارت کیلئے خوش آئیند ہیں نہ ہی امریکہ کے لئے اور بحر منجمند سے بحر ہند تک چین کے بڑھتے ہوئے قدم دو اہم سمندروں پہ اُس کی پہنچ کو وسعت دینے کی کڑی مانا جا رہا ہے ۔اِس کے باوجود چین عالمی سیاست میں سرعت سے بدلاؤ کا خواہاں نہیں بلکہ وہ ایک ایسی پالیسی پہ عمل پیرا ہے جہاں بدلاؤ حالات و سکنات کے اثر سے خودبخود ایسی دھیمی رفتار سے آئے کہ اِسے ایک قدرتی بدلاؤ کا عنواں دیا جائے۔
Feedback on<[email protected]>