۱۷۰۷ء میں مغل حکمران اورنگ زیب کی موت کے بعد ان کے جانشین سلطنت کو وسعت دینے یا تحفظ بخشنے میں ناکام رہے۔ ان کی نااہلیتی کے نتیجے میں مغل سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے امکانات روشن ہوگئے۔ مغلوں کی حکومت فقط نام تک محدود تھی جب کہ عملی کام پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ ان حالات میں ملتِ اسلامیہ سیاسی پستی، معاشی بدحالی اور ذہنی غلامی کی شکار ہوگئی۔ مسلمانوں کو اس تاریک ماحول سے نکال باہر کرنے کے لیے جن شخصیتوں نے سعی کی ان میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا نام خاص طور پر قابل ِذکر ہے۔ وہ اُن عیوب اور کوتاہیوں سے بخوبی واقف تھے جو مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے ذمہ دار تھیں۔ لہٰذا انہوں نے ان تمام عیوب اور کوتاہیوں کو بے پردہ کرنے کی سعی کی اور مسلمانوں کے درمیان تمام اختلافات مٹاکر انہیں اتحاد اور اتفاق کا درس دیا تاکہ وہ ایک طاقت بن کر ابھریں۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے انتقال کے بعد ان کے فرزند شاہ عبدالعزیز صاحبؒ نے اپنے والد بزرگوار کی تحریک کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ انیسویں صدی میں مسلمانوں کی بہبودی اور بہتری کی خاطر جتنی بھی تحریکیں چلائی گئیں، وہ اپنے مقصد کو پوری طرح حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن سرسید تحریک نے بڑی حد تک ان مقاصد تک رسائی پانے میں کامرانی حاصل کی جو ملت اسلامیہ کی بہتری کے ضامن تھے۔ سرسید احمد خان اپنی واحد ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ بیک وقت مصلح ملت، سیاستدان، ادیب، مفکر اور دور اندیش دانشور تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انگریز ہمیشہ دوسری قوموں پر قابض ہونے کے لیے سب سے پہلے ان کے دماغ میں اُترنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں فتح یاب ہونے کے بعد وہ آرام کے ساتھ ان کی لگام کس لیتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ان کو شطرنج کی مہروں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ سرسید احمد خان نے انگریزوں کے طریقہ کار کو ذہن نشین کرکے بڑی کامیابی کے ساتھ انگریز کے دل و دماغ میں اُتر کر اپنی راہ بنالی اور مسلمانوں کو اُس عظیم بربادی سے بچانے کے لیے راہ ہموار کی جس کا اندیشہ عیاں تھا۔
ہندوستانی مسلمانوں کو ایک اور دھچکا اُس وقت لگا جب ۱۸۵۷ء میں غدر کے نتیجے میں انگریز بڑی حد تک ان سے ہر محاذ پر متحاربا ور منفر ہوگئے۔ دونوں کے درمیان اس قدر خلیج بڑھ گئی کہ مسلمان خود کو اپنے ہی گھر میں اجنبی سمجھے جانے لگے۔ ان پر ظلم وستم کے بے درد کوڑے برستے رہے۔
۱۸۵۷ء کے غدر کی ناکامی نے ملک کے طول ارض میں ہندوستانیوں کی زندگی کو اجیرن بنادیا۔ اب مابعد زمانہ میں ان کا مقابلہ ایک ایسی شاطر وطاقتور قوم سے تھا جو جدید علوم کی روشنی، صنعتی ٹیکنالوجی اور جنگی ساز و سامان سے لیس تھی۔ غدر کے نتیجے میں رونما ہونے والے مظالم ومصائب اگرچہ پوری قوم کو سہنے پڑے لیکن مسلمان خاص طور پر ان مظالم کی زد میں آگئے۔ کیونکہ مسلم علماء اور قائدین کی تقریروں نے مسلمانوں کے خون میں اُبال پیدا کیا اور وہ انگریزوں کی عملداری کے خلاف سراپا احتجاج بھی ہوئے مگران کے پاس کوئی اسکیم ہی نہ تھی جو تقاریر سے آگے مسلمانوں کے بپھرے جذبات کو عمل اور قوت کے سانچوں میں ڈھالتی۔ ان حالات کے پیش نظر انگریزوں کو اس بات کا یقین تھا کہ ہندوستان کے کونے کونے میں انگریزوں کے خلاف منافرت پھیلانے کے لیے مسلمان خاص طور پر ذمہ دار ہیں۔ لہٰذا انگریزوں نے مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کئے۔ قتل و غارت کی گرم بازاری میں مسلمانوں کا خون ارزاں ہوگیا۔ ان پر طرح طرح کی معاشی وسماجی پابندیاں لگائی گئیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ان کے لیے ملازمت کے دروازے بند کئے گئے۔ ان کے خلاف سخت ترین نفرت کا زہر پھیلایا گیا۔ حسد، انتقام اور نفرت کے ماحول نے مسلم معاشرہ کو زمین بوس کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ محلوں میں رہنے والے دانے دانے کے محتاج بنادئے گئے۔ مسلمان بُری طرح مایوسی اور ناامیدی کے بھنور میں غرقآب ہوگئے۔ وہ سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاشی یہاں تک کہ تہذیبی سطح پربھی کسمپرسی اور بے جہتی کے شکار ہوگئے۔ اس بے بسی اور بے کسی میں ملت کو مصیبت کے گرداب سے باہر نکالنے کے لیے وقت ایک ایسے رہنما کا تقاضا کرتا تھا جو کلمہ خوانوں کے لئے ابن مریم ثابت ہوتا۔ چنانچہ مجروح جذبات سے چھلنی لوگوں کے دل میں ولولہ، جوش، ہمت، خود شناسی اور خود اعتمادی پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ اس اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کی ذمہ داری قدرت نے سرسید احمد خان کے سر ڈال دی۔ سید احمد خود بھی حالات کے عتاب و عذاب کے شکار ہوگئے تھے۔ انہوں نے دل دہلانے والے مصائب اور مشکالت کا بچشمِ خود تماشا کیا تھا۔ وہ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ مظلوم، مجبور اور مقہور مسلمانوں کا پیٹ کھوکھلے نعروں اور خوابوں سے بھرا نہیں جاسکتا ہے بلکہ عملی اقدام اٹھانا وقت کا اہم ترین تقاضا تھا۔ ان کو اس بات کا گہرا شعورو احساس تھا کہ انگریز دوستی، چرب زبانی، نرم گفتاری اور عاجزی و انکساری کا لباس پہن کر واردِ ہند ہوئے اور فرصت کے ساتھ اپنی مزاجی ریشہ دوانیوں اور دشمنیوں میں مصروف ہوگئے۔ انہوں نے ملک پر قابض ہونے کے لیے نہ صرف ملک کی سیاسی فضا کو سمجھنے کا گہرا تجزیہ کیا بلکہ یہاں کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کے لیے اپنے ملازموں کو اُردو زبان سیکھنے سکھانے کا بندوبست بھی کیا ۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں لایا جانا اسی حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یوں ہر محاذپر اپنی تمام دور رس کاوشوں کو عملی جامہ پہناکر ہندوستان پر مکمل طور اپنا سیاسی قبضہ جمالیا۔ انگریزوں کی اسی حکمت عملی سے سبق سیکھ کر سرسید بھی مسلمانوں کو انگریزی علوم سے واقفیت حاصل کرنے کی تلقین کرتے تھے تاکہ وہ بھی ان کی تہذیب و تمدن اور ترقی سے متعلق جانکاری حاصل کرکے ان کے زور بازو کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہوجائیں اور پھر ان کے مقابلے میں کھڑا ہونے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کریں۔ سر سید نے ہرہر محاذ پر مسلمانوں کی بدترین حالت دیکھ کر اس بات کے قائل تھے کہ اس ملت کو انگریزوں کے خلاف جنگ کے لیے برانگیختہ کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔ البتہ بہتری اس بات میں ہے کہ مسلمانوں کی معاشی حالت کو انگریزی حکومت کے زیر سایہ ہی سدھارنے کی سعی کی جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان نفرت اور دشمنی کی دیوار کو مسمار کرنے پر زور دیا تاکہ دونوں کے درمیان سیاسی اور مذہبی کشاکش ختم ہوجائے۔ موصوف اسلام کو عیسائی مشنریوں کی گزند سے بچانے کے لیے بھی کوشاں رہے۔ سرسید اسلامی تعلیمات کو جدید علوم، سائنس، فلسفہ اور ٹیکنالوجی کی ترجمانی کے لائق ترتیب اور تشکیل دینے کے زبردست خواہشمند تھے تاکہ مسلمان جدید زمانے کی پیش رفت میں کسی اور قوم سے پیچھے نہ رہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو قدامت پرستی، توہم پرستی، بد اعتقادی اور بے بنیاد قصوں کہانیوں کی دنیا سے نکال باہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ چونکہ اُردو زبان مسلمانوں کا اوڑھنا بچھونا تھی،ا س لئے انہوں نے اپنی دوڑ اُردو کی مختصر دنیا تک ہی محدود کر رکھی تھی، لہٰذا وہ کنوئیں کے مینڈک بن کر خارجی دنیا کی تغیر و تبدل سے بے خبر اور ناآشنا تھے۔ ان حالات کے پیش نظر سرسید احمد خان نے جدید علوم اور سائنس کی اہم کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کروانے کی ٹھان لی تاکہ اُردو زبان کی وساطت سے امت مسلمہ یورپی دنیا کی سائنسی پیش رفت سے آگاہی پاکر اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی ترغیب پائیں۔ سرسید احمد خان کی کاوشوں اور کوششوں کا احاطہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی اپنی کتاب ’’جدید ہندوستان کے سیاسی اور سماجی افکار‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’وہ قدامت پسندی کے شدید مخالف تھے اور اس پر زور دیتے تھے کہ مسلمان ایسے تمام رسوم اور رواج بالکل ترک کردیں جس سے ان کی ترقی میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ انہیں ہر معاملے میں سائنٹفک طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور انہیں تقلید ترک کردینا چاہیے اور آزادانہ طریقے سے غور و فکر کرنا چاہیے، تب ہی وہ مہذب اور متمدن کہلائے جاسکتے ہیں۔ انہیں ایسے تمام مذہبی عقیدے ترک کردینے چاہئیں جن کا مذہبی بنیاد پر کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ یہ عقیدے ان کی تمدنی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ انہیں مذہبی توہمات سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ بچوں کو تعلیم دلانا مسلمانوں کا فریضہ خصوصی ہے کیونکہ کسی قسم کی بھی سچی اور صحیح ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ قوم کے افراد کی بڑی تعداد پڑھی لکھی نہ ہو۔ اس طرح سے عورتوں کی تعلیم کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ وہ مسلمانوں کی سماجی حالت سے حد درجہ بیزار تھے اور اسے بدلنا چاہتے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد برطانوی حکومت کی جابرانہ پالیسی کی وجہ سے مسلمانوں میں مردنی چھاگئی تھی۔ وہ اس صورت حال کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ افسردگی اور مردنی تب ہی دور ہوسکتی تھی کہ جب مسلمان ان کے تجویز کئے ہوئے سماجی سدھار کے پروگرام پر عامل ہوں‘‘۔
مسلمانوں کے تئیں انگریزوں کی نفرت، کدورت اور دشمنی کا ازالہ کرکے ایک خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی غرض سے سرسید احمد خان نے اپنی تحریر و تقریر سے کوہ کن کا کام لیا۔ اس سلسلے میں ان کا قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔ چنانچہ ان کی تخلیقات کے پس منظر میں ایک تعمیری سوچ کارفرما تھی۔ اور وہ مسلمانوں کی عظمت ِرفتہ کی بازیافت اور شاندار ماضی کے احیاء کے خواہاں تھے۔ ’’اسبابِ بغاوت ہند‘‘ لکھ کر سرسید نے نہ صرف مسلمانوں کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی بلکہ انگریزوں کو ہی بغاوت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ کتاب لکھ کر انہوں نے مسلمانوں کے تئیں نفرت کو دور کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ درون ِ خانہ مسلمانوں کے خالی جذبات اُبھارکر انہیں انگریزوں کے غیظ و غضب اور انتقام گیری کا ہدف بننے والے حضرات سے سر سید نے دلیل و تجزیہ کی شکل میں افہام وتفہیم کاراستہ کھول کر انہوںنے اپنی تحریرات اور تقاریر کے ذریعے ان لوگوں سے مکالمت ومخاطبت کا علمی تبادلہ ٔ خیال جو جذبات کی دنیا مست ومحو تھے انہیں بھی فراست اور دوراندیشی سے کام لینے کی مہذبانہ تاکیدیں کیں مگر بدلے میں ان کی مخالفتیں اور فتوے پائے ۔
"Loyal Mohamdens of India" (خیرخواہانِ مسلمانانِ ہند) دو زبانوں میں چھپنے والارسالہ تھا۔ ایک کالم میں عبارت اُردو میں ہوتی اور دوسرے کالم میں اس کا ترجمہ ہوتا ۔ اس رسالے کا بنیادی مقصد انگریزی سرکار کو مسلمانوں کی وفاداریوں کی طرف متوجہ کرنا تھا اور مسلمانوں پر لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت کرنا تھا۔ اس رسالے میں اُس عہد نامہ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جس کے مطابق پیغمبر اسلامﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ جو عہد و پیمان کیا تھا اس میں ان کی قوم کو تقریباً مسلمانوں ہی کے برابر حقوق دئے تھے۔ چند تحریروں میں عیسائیوں کو ’’نصاریٰ‘‘ لکھنے پر وہ برہم ہوگئے اور مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہراکر انہیں عبرتناک سزائیں دے دیں، کیونکہ یہودی حضرت عیسیٰؑ کو حقارت سے ’ناصری‘ کہتے تھے۔ انگریز اسی لفظ سے مشتق’’ نصاریٰ‘‘ کو بھی اپنی تذلیل سمجھنے لگے۔ اس معاملے کا حل نکالنے کے لیے سرسید احمد خان نے ’’تحقیق لفظ نصاریٰ‘‘ نام کا ایک رسالہ شائع کیا جس میں یہ بات ثابت کی گئی کہ پیغمبر اسلامﷺ کے پاک زمانے میں عیسائی خود کو ’’نصاریٰ‘‘ کہتے تھے۔ا س رسالے کی اشاعت سے انگریزوں پر حقیقت واضح ہوگئی اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف مظالم سے ہاتھ روک لیا۔ انگریزی قلم کار اور بیروکریٹ سرولیم میورنے اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ ‘‘ میں من گھڑت الزامات لگاکر پیغمبر اسلام حضرت نبی اکرمﷺ کی شانِ مبارک میں گستاخیاں کرکے نہ صرف مسلمانوں کو گہرا زخم دیا تھا بلکہ ان کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی بھی نامراد کوشش کی تھی۔ سرسید احمد خان نے اس کتاب کے جواب میں ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ لکھ کر نہ صرف مسلمانوں کو جذبات کی رو میں بہنے سے بچالیا بلکہ میورؔ کے الزامات کو حقایق کی بنیاد پر بے بنیاد اور جھوٹا ثابت کیا۔ یہ گویا پیغام تھا کہ جہل کا مقابلہ مسلمان علم سے کیا کریں ۔ سرسید احمد خان نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ رسالہ جاری کر کے مسلمانوں کو نئے علوم حاصل کرنے اور مذہب کو حقائق کی بنیاد پر سمجھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ احساسِ کمتری سے چھٹکارا پالیں۔ وہ مسلمانوں کو عالمی تہذیب کا حصہ بنانا چاہتے تھے تااینکہ دوسری قومیں ان کو حقارت سے نہ دیکھیں۔ یہ رسالہ یقینا ہندوستانی مسلمانوں کے سوچ و فکر میں تبدیلی لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوا۔ ’’تبئین الکلام‘‘ عنوان کے تحت سرسید احمد خان عیسائیوں کی مذہبی کتب تورات اور انجیل کی تفسیر لکھی ہے۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد مسلمانوں اور انگریزوں کو ایک دوسرے کے مذاہب میں پائی جانے والی یگانگت سے جانکاری دلانا تھا۔ علاوہ ازیں وہ ان پر یہ حقیقت ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ تینوں آسمانی صحیفوں توریت، انجیل اور قرآن کی تعلیمات کا ماخذایک ہے۔ مذکورہ تفسیر میں توریت کی عبادت کو اُردو اور انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں قرآنی آیات کا اُردو اور انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ سرسید کی یہ کوشش بھی آگ پر پانی ڈالنے میں کامیاب ہوگئی۔
سرسید احمد خان نے ’’آثار الصنادید‘‘ تحریر کر کے اپنی قوم اور تاریخ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس کتاب میں تاریخی عمارتوں، جگہوں، مسجدوں، شخصیتوں، فن کاروں، قلم کاروں، چشموں، محلوں اور حویلیوں سے متعلق نادر معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس کتاب کو لکھنے کا بنیادی مقصد اسلاف کے عظیم کارناموں کی جانکاری دے کر قوم کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی ایک علمی کوشش تھی۔ چنانچہ سرسید احمد خان اس بات سے حامی و قائل تھے کہ ہندوستان میں سر اٹھاکر جینے کے لیے مسلمانوں کو اپنے اندر قومی یکجہتی کا جذبہ پیدا کرنا ضروری اور لابودی ہے۔ یہ جذبہ نہ صرف انہیں حفاظت کی ضمانت فراہم کرے گا بلکہ شان و شوکت کے ساتھ جینے کا موقع بھی ان کودستیاب رکھے گا۔ انہوں نے ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ کو محض اس لیے قائم کیا تاکہ مغربی علوم اور ادبیات پر مبنی انگریزی کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کراکے اہل وطن کے علمی ذوق و شوق میں وسعت پیدا کی جائے۔ مرحوم نے اس سوسائٹی میں ہندو، مسلم اور انگریز تینوں قوموں سے ممبران کا انتخاب کیا تاکہ سوسائٹی کا کام مذہبی تعصبات اور تنگ نظریوں کی بھینٹ نہ چڑھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے چیف لائبریرین عشرت علی قریشی سرسید احمد خان کی جملہ کاوشوں کے مثبت نتائج پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’…… ضرورت تھی کسی عظیم رہبر کی جو ملتِ اسلامیہ ہند کی صحیح منزل کی طرف رہنمائی کرے، کسی مسیحا صفت انسان کی جو جان بلب معاشرہ کے عوارض کی تشخیص کرکے صحیح علاج کرے، کسی تجربہ کار اور ہوش مند ناخدا کی جو ذلت و رسوائی کے گرداب سے مسلمانوں کی کشتی نکال کر کنارے لگادے۔ قدرت نے سرسید کو اسی رہبری، اسی مسیحائی اور اسی ناخدائی کے لیے پیدا کیا تھا۔ ان کی تجدید میں تحریک نے نیم مردہ مسلم معاشرہ کو حیاتِ نو بخشی اور دورِ جدید کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے قابل بنایا‘‘۔
رابطہ :بیروہ، بڈگام کشمیر
موبائیل9419022648