دہلی اردو اکادمی کے ماہنامہ ’’ایوان اردو‘‘ کے دسمبر ۲۰۱۳ء کے شمارہ میں ڈاکٹر رام داس نادارؔ صاحب کے مضمونْ کے جواب میں جناب رام پرکاش کپور گڑگائوں کا ایک مفصل ومدلل مضمون ’’ایوان اردو‘‘ دہلی کے ہی فروری ۲۰۱۴ء کے شمارہ میں’’اقبال اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے نادارؔ صاحب کے علمی فقدان‘ متعصبانہ فکر وسوچ‘ دروغ گوئی ‘ کج فہمی و ناقص رائے کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔اخلاق و شرافت کا تقاضہ یہ تھا کہ نادارؔ صاحب ‘ بیدار ہوکر‘ اردو اکاڈمی دہلی کے سرکاری رسالہ’’ ایوان اردو‘‘ میں چھپے اپنے مضمون میں ظاہر کی گئی اپنی آ را ء پر ‘نا قابل تردید جواب اور ثبوت و شواہد پڑھ کر نادم ہو جاتے اور اپنی علمی کم مائیگی پر افسوس کر کے معذرت طلب کرلیتے لیکن بد قسمتی سے رام(داس نادار)جی کو رام(پرکاش کپور) جی کے اظہر من شمس دلائل و حقائق سے بھی تسلی و تشفی نہ ہوئی کہ وہ دہلی سے فورا ممبئی پہنچ گئے اور ماہنامہ’’ تحریر نو‘‘ کے فروری ۲۰۱۴ء کے آخر میں ٗ تاخیر سے شائع ہونے والے شمارہ میں اپنا مضمون یامراسلہ دوبارہ چھپوانے پر کمر بستہ ہوگئے ۔اگر انہوں نے دونوں ماہناموں میں ہوبہو ایک ہی مضمون ایک ساتھ ہی بھیج دیا ہوتا تو اصل حقائق سے واقفیت ہو جانے پر اور اپنی غلط فہمیوں اور فقدانِ مطالعہ دور ہوتے ہی وہ دوسری جگہ سے اس کی اشاعت رکواسکتے تھے لیکن ایسا نہ کیا۔ رام داس نادار صاحب نے علامہ اقبال پرٗ ’’ایوان اردو‘‘ اور ’’ تحریر نو‘‘ میں جو الزامات لگائے ہیں یا جن خدشات کا ذکر کیا ہے، رام پرکاش کپور صاحب نے ان کی ایک ایک بات کا جواب مستند و معتبر تواریخی حوالوں اور حقائق سے بھر پور ڈھنگ سے دیا ہے ۔یہاں انہی کے الفاظ میں یہ چند اقتباسات دئے جاتے ہیںمفصل مضمون’’ ایوان اردو‘‘ فروری ۲۰۱۴ء صفحہ نمبر ۲۷ پر دیکھا جاسکتا ہے۔رام پرکاش کپور صاحب لکھتے ہیں۔
’’۔۔۔۔ان کا یہ موقف ایک نہایت گمراہ کن قسم کی غلط فہمی پر مبنی ہے اقبال ؔ کے بارے میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے میں پچھلے کئی سالوں سے اخباروں ْرسالوں میں اپنے مضامین ْمراسلات شائع کراتا رہا ہوںاور متعدد دانشوروں اور ادیبوں نے بھی اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوششیں کی ہیں ٗلیکن لگتا ہے کہ ڈاکٹر رام داس نادار صاحب جیسے لوگوں کی غلط فہمی ابھی تک قائم ہے۔‘‘
اس ضمن میں جو نوٹ کرنے والے دیگر نقاط ہیں وہ یوں ہیں۔
’’ ۱۔مسلم لیگ کے الہٰ آباد اجلاس کی تاریخ ۱۹۰۶ء ہے انہوں نے غلط لکھی ہے معلوم نہیں انہوں نے کہاں سے یہ تاریخ لی ہے۔علامہ اقبال نے الہٰ آباد میں مسلم لیگ کا خطبۂ صدارت ۱۹۳۰ ء میں دیا تھا‘‘(یعنی رام داس نادار صاحب چوبیس سال پیچھے چل رہے ہیں تعجب ہے اتنے سست رفتار ہیں؟)
۲۔ علامہ اقبال پر میری(رام پرکاش کپور) کی کتاب ’’کیا لوگ تھے‘‘میں میرا مضمون’’پاکستان علامہ اقبال کے دماغ کی اپج نہیں‘‘ جس میں‘ میں نے کافی تفصیل کے ساتھ علامہ اقبال کے بارے میں تقسیم ملک کے بعد شعوری طور پر پھیلائی گئی اور پھیلائی جارہی گمراہ کن غلط فہمیوں کے بارے میں لکھا ہے۔‘‘
رام پرکاش کپور کی مزید وضاحتوں سے چند اہم نقاط مندرجہ ذیل د رج کئے جاتے ہیں۔
۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو علامہ اقبال ؔنے آل انڈیا مسلم لیگ کے اؒلہ آباد سیشن میں ایک صدارتی خطبہ دیا جس کا مندرجہ ذیل اقتباس سب غلط فہمیوں کا منبع ہے ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے میری خواہش ہے کہ پنجابٗ صوبہ سرحدٗ بلوچستان کو ملاکر ایک ریاست بنا دیا جائے۔ہندوستان کے جسدسیاسی کے اندر رہتے ہوئے اگر مسلمانوں کو پورا موقع دیا گیا تو شمالی ہندوستان کے مسلمان بیرونی حملوں کے خلاف خواہ وہ سنگینوں سے کئے جائیں یاا فکار سے ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘(اس سارے تنازعے میں اقبالؔ کے ان آخری جملوں کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی جن میں ہندوستان کی حفاظت کی گارنٹی تھی)
اس خطبہ میں علامہ اقبال نے ایک آزاد ملک کی نہیں بلکہ انڈین فیڈریشن کے اندر ہی شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے صوبے کی وکالت کی تھی۔جسے کچھ لوگوں نے توڑ مروڑ کر پاکستان کا تصور مان لیا۔‘‘
یہاں یہ چند سطور بھی رام داس نادار کے لئے اطلاعا عرض ہیں کہ کئی سال قبل عالمی شہرت کے حامل اسلامی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے ممبئی میں ایک بہت بڑے اجتماع میں کہا تھا کہ پاکستان بنانے میں علامہ اقبالؔ یا محمد علی جناحؔ کا کردار یا رول نہیں ہے بلکہ اصل میں پاکستان کا قیام پنڈت نہروؔ کی کاوش و کوشش ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں تواریخی ثبوت و شواہد سے ثابت کیا کہ جب اوپر مذکورہ اسلامی فیڈریشن کی تجویز قد آور مسلمان رہنمائوں کی طرف سے پیش ہوئی تو سب سے پہلے پنڈت نہروؔ ہی اٹھ کر چلے گئے۔اس پروگرام کی ریکارڑنگ کئی بار PEACE ٹی وی پر دکھائی گئی اور وقتا فوقتا دکھائی جاتی ہے ۔جناب رام پرکاش کپور صاحب کا اس ضمن میں اور ایک حوالہ ملا حظ فرمایئے لکھتے ہیں کہ ’’۔۔۔۔۔ایڈورڑ تھامس نے اقبالؔ کے مشہور خطبات’’ تشکیل جدیدالہیاتِ اسلامیہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں پا کستان کا حامی قرار دیا تو علامہ اقبالؔ نے اسے ایک خط لکھ کر واضح کردیا تھا کہ ’’پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے، میری تجویز ایک مسلم صوبے کی ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور وہ ہندوستانی وفاق(ٖفیڈریشن) کا ایک حصہ ہو۔جب کہ نظریہ پاکستان میں ایک جداگانہ وفاق کی تجویز رکھی گئی ہے جو براہِ راست انگلستان سے مربوط ایک علا حدہ ریاست ہو۔میرا عقیدہ ہے کہ ہندوستان سے الگ پا کستا ن ٗنہ ہندوئوں نہ مسلمانوں اور نہ برطانوی سامراج کے لئے مفید ہو گا۔‘‘رام پرکاش کپور صاحب نے چند دیگر کاغذی شیروں اور نام نہاد اسکالروں کی بھی اس ضمن میں خوب خبر لی ہے۔جو اپنی گمراہ کن تحریروں سے لوگوں کے اذہان میں ٗ علامہ اقبال کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔مثلا مشہور کالم نگار اور صحافی جناب ظفر آغاؔ نے ۲۰ اگست ۲۰۰۳ء کے’’ راشٹریہ سہارا ‘‘دہلی میں اپنے تجزیہ بعنوان’’مسلمانوں نے وقت کی رفتار کو نہیں سمجھا‘‘ میںلکھا ہے ۔ ’’۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں ہندو فرقہ پرستی اس عروج پر پہنچی کہ ۱۹۴۰ ء میں لاہور کے سیشن میں علامہ اقبال ؔ کی صدارت میں مسلم لیگ نے ہندوستان کے بٹوارے کی مانگ کر ڈالی‘‘۔
ظاہر ہے کہ اتنے بڑے جانے مانے صحافی ظفر آغاؔ صاحب کو یہ بھی نہیں معلوم کہ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کا انتقال ۱۹۳۸ء میں یعنی اس سیشن سے دو سال پہلے ہو گیا تھا۔جنتا پارٹی حکومت کے دوران وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی نے بھی اردو گھر میں منعقد ایک تقریب کے موقع پر اقبالؔکا قومی ترانہ ٗ سارے جہاں سے اچھا‘‘ سننے کے بعد کہا تھا۔’’معلوم نہیں علامہ اقبالؔ آزادی کے بعد پاکستان کیوں چلے گئے تھے؟‘‘۔ یہ حال ہے بڑوں کی معلومات کا ۔کچھ سال پہلے مجھے ایک اور نہایت ہی مضحکہ خیز تحریر پڑھنے کا موقع ملا۔سہ ماہی ’’اندیشہ‘‘ بھاگلپور کے شمارہ ۱۰ جنوری تا جون ۲۰۰۳ ء جس کے ایڈیٹر ڈاکٹر ارشد رضاؔ ہیں، اس میں کسی جناب کھیم چند صاحب کی تحریر بعنوان’’ بحث کا دوسرا رخ ہے منٹوؔ ہندوستانی یا پاکستانی ‘‘ شائع ہوئی تھی۔ میں جناب کھیم چند صاحب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن ان کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ اردو ادب کے بارے میں ان کی معلومات کافی وسیع ہیں ۔انہوں نے آزادی کے پہلے کے اردو ادیبوں ٗ شاعروں کی قومیت( (Nationality کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے صرف ان کی دو باتوںکا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے لکھا ہے کہ’’ منٹوؔ امرتسر میں پیدا ہوا۔اس نے زیادہ تر تخلیقات اپنے دہلی اور بمبئی کے قیام کے دوران لکھیں۔آزادی کے بعد وہ لاہور ضرور گیالیکن موت سے پہلے کے چند سالوں میں اس کی کوئی قابل ذکر تخلیق سامنے نہیں آئی سوائے’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اور ’’ کھول دو‘‘ جیسے افسانوں کے’’ کھول دو‘‘ پر پاکستان میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔‘‘
دوسری بات جو انہوں نے لکھی ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔لکھتے ہیں:’’ علامہ اقبالؔ کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے؟’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘لکھنے کے باوجود وہ نہروؔ کو انگوٹھا دکھا کر چلے گئے پا کستا ن۔کیا ہم انہیں ہندوستانی ثابت کر سکتے ہیںان کی مرضی کے خلاف؟ میں خوب جانتا ہوں وہ اندر سے خوش نہیں تھیٗ خوش تھا ہی کون؟‘‘
میں نے ایڈیٹر ’’ اندیشہ‘‘ کو اس سلسلے میں ایک خط لکھا تھا:’’ مجھے یہ مضمون پڑھ کر حیرانی بھی ہوئی اور افسوس بھی ۔کتنی عجیب بات ہے کہ آزادی کے بعد سے اتنا زیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد بھی’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ ’’ہمالہ‘‘ ’’ میرا وطن وہی ہے‘‘ اور ’’شوالہ‘‘ جیسی نظموں کے خالق محبِ وطن علامہ اقبال ؔکے بارے میں یہ غلط اور گمراہ کن غلط فہمی اب بھی قائم ہے۔جناب کھیم چند نے تو اسے ایک دلچسپ موڈ بھی دے دیاہے۔میں جناب کھیم چند صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ علامہ اقبالؔ ۱۹۳۸ء میں انتقال کر گئے تھے یعنی اس وقت جب پاکستان کے رومانی تصور نے کوئی ٹھوس شکل اختیار نہیں کی تھی۔اگر زندہ بھی ہوتے تو ہجرت کرنے کا سوال نہیں اٹھتا تھا کیوں کہ وہ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اوربعد میں انہوں نے لاہور میں رہائش اختیار کر لی تھی اور وہ دونوں شہر پاکستان میں ہی ہیں۔‘‘( ’’ ایوانِ اردو‘‘ دہلی فروری ۲۰۱۴ء صفحہ نمبر ۲۹)
آنجہانی تارا چرن رستوگی‘ ڈاکٹر رام داس نادارٗجناب کھیم چند جیسے حضرات ہی نہیں بلکہ انور شیخ‘ مختار ٹونکوی‘ ظفر آغا وغیرہ جیسے حضرات کے اذہان واعصاب پر ہمیشہ علامہ اقبالؔ چھائے رہتے ہیں کہ ۱۹۳۸ء سے قبل علامہؔ کی زندگی میں تو ٹھیک تھے،۱۹۳۸ء میں ان کے انتقال کے بعد بھی‘ ان کے ساتھ کیا کیا خرافات منسوب کی جاتی ہیں اور کیا کیا باتیں جوڈ دی جاتی ہیںجو حقیقت سے بہت بعید ہوتی ہیںلیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ رسائل وجرائد کے ایڈیٹر حضرات بھی بغیر سر پیر والی اس طرح کی بے ہودہ تحریروں کو نہ صرف من و عن چھاپتے ہیں، یہ دیکھے بغیر ہی کہ اس میں کس قدر واقعاتی اختلافات اورٗ تواریخی غلطیاں ہیں اور یہ کتنے ذاتی عنادو مذہبی تعصب‘فرقہ وارانہ منافرت‘علاقائی‘فکری اور مسلکی تضاد پر مبنی ہیںبلکہ بغیر کسی ذاتی رائے یا تبصرے کے ،اہتمام کے ساتھ چھاپتے بھی ہیں۔حالانکہ اس طرح کے مضامین و مراسلوں کے چہرے سے ہی ان کے پیچھے کار فرما اغراض و مقاصد جھلکتے ہوئے اچھی طرح سے نظر آجاتے ہیں۔
جناب رام پرکاش کپور صاحب لکھتے ہیں:علامہ اقبالؔ اپنے ہندوستانی ہونے پر ہمیشہ فخر کرتے رہے اور کھلے عام اس کا اعادہ کرتے رہے ؎
میں اصل خاص سومناتی !
آبا میرے لاتی و مناتی
ہے فلسفہ میرے آب و گل میں
پوشیدہ ہے رازہائے دل میں
یا پھر فرماتے ہیں ؎
مرا بینی کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادہ ر مزآشنائے روم وتبریز است(مجھے دیکھو کہ ہندوستان میںدوسرا کوئی ایسا نہیں دیکھو گے جو برہمن زادہ ہوتے ہوئے بھی روم وتبریز کا محرم اسرار ہے)
عالمی شہرت یافتہ ماہرِاقبال اور اردو زبان و ادب کے قد آور شاعر و نقاد و محقق اور فکرِ اقبا ل کو اپنے علم و آگہی کا محور بنانے والے آنجہانی جگن ناتھ آزادؔ کے بارے میں چند مسلم محققین کا ذاتی خیال ہے کہ کسی ایسے شخص کو ماہر اقبالیات قرار دینا مکمل طور پر تب تک ممکن ہی نہیں ہے جب تک نہ وہ اسلام کے بنیادی اورآفاقی فکرو فلسفے سے کلی طور پر واقف و با خبر نہ ہو۔اس تعصب اور تنگ نظر ی کے بارے میں کیا کہا جائے جو اسلام اور علامہ کے متعلق ’’اپنے آپ کو اسلام کی تنگ حدود میں محبوس کرلیا تھا‘‘ جیسی رائے رکھتا ہو؟۔ ا س طرح کی ذہنیت رکھنے والے لوگ اسلام اور علامہ اقبالؔ کے آفاقی فکر و فلسفے کو کیا سمجھ پائیں گے؟ اسلام اور علامہؔ کی بات تو دور کی ہیٗ یہ خود اپنے مذہب کے فکرو فلسفے کو سمجھنے سے عاری ہوتیہیں ۔ ڈاکٹر رام داس نادار صاحب کے ہاں یہ درست ہو تو ہو علامہ اقبالؔ ایک مسلمانِ صادق اور مومن ِکامل تھے، ان کے ہاں وطن پرستی، بت پرستی ہی کے مترادف ہے۔ اسلام میں ہر گناہ توبہ کے بعد قابل ِ معافی و درگزر ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالی کی وحدانیت و حاکمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کے سوا کسی اور کو معبود بنایا جاسکتا ہے اور نہ کسی کی پرستش وپوجا ہی کی جاسکتی ہے۔اس لئے ایک مسلمان پہلے مسلمان ہوتا ہے بعد میں اور کچھ۔اللہ کے سوا کسی کا پرست یا بھگت ہرگز نہیں۔اسلام میں رنگ ونسل،ذات پات،اونچ نیچ ِ،ادنی و اعلی کی کوئی تفریق نہیں ہے ،اگر کسی کو کسی پر فوقیت ہے تو وہ صرف اعمال کی وجہ سے ہے۔اولاد ِ آدم کو اللہ تعالی کا عیال اور زمین و آسمان کو ان کا ٹھکانہ قرار دیا گیا ہے۔نہ انسانوں کی ہی اور نہ زمین و آسمان کی ہی آپسی بندر بانٹ کا کوئی تصور ہے اور نہ ملوکیت ووطن پرستی اور کھوکھلی دیش بھگتی کا ہی۔
رام داس نادارؔ صاحب کو علامہ اقبالؔ کے امت مسلمہ کے ایک ہو جانے کی تمنا وآرزو پر سخت اعتراض ہے۔ ایک رام داس نادارؔ صاحب کو ہی کیوںدنیا بھر کے یہود ونصاریٰ کو مسلمانوں کی یکجہتی واتحاد و اتفاق پر دلی صدمہ اور قلق ہے ۔ حامیان ِ جنگ وجدل نے فلسطین سمیت مسلم خطوں میں کہاں کہاں مسلمانوں کا‘ قتل وغارت گری کا بازار گرم نہیں کر رکھا ہے مگر طرہ یہ کہ صیہونی طاقتیں اور ان کے معاون و مددگار‘ مظلوم مسلمانوں کو ہی دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور بدقسمتی یہ کہ آج کی تاریخ میں‘ علامہ اقبالؔ جیسا کوئی‘ شاعر اسلامٗ حکیم الامت، و قائد ر ملت بھی موجود نہیں۔ رہا سوال رام داس صاحب کی اس بات کا :’’کچھ لوگ جو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اقبالؔ نہ ہوتا تو جناح ؔ بھی نہ ہوتا‘‘ ڈاکٹر رام داس نادارؔ موتی نگری نے جو اپنے دل کی بات کو‘ کچھ لوگوں سے منسوب کیا ہے۔ اس طرح کے لوگ ہی کبھی گاندھی جی کو قتل کرواتے ہیں اور کبھی بی جے پی کے سرکردہ لیڈر ایل کے اڈوانی، اور جسونت سنگھ کو جناح ؔ کے متعلق مبنی بر صداقت اظہار رائے پر انہیں سیاسی بن باس بھیجتے ہیں اور ان کی خوب خبر لیتے ہیں۔رام داس نادارؔ صاحب کو علامہ اقبال ؔ کی اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ علامہ ’’سعودی عرب کی سر زمین کو وہ مقدس قرار دیتے تھے ان کیلئے وہ سر زمین جسے فرشتے بھی سلام کرتے ہیں‘‘ نادارؔ صاحب نوٹ کرلیں کہ علامہ اقبال ؔیا مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ کائنات میں رہنے والی جملہ مخلوق ِ خدا کے لئے سعودی عرب کی سر زمین مقدس ترین ہے کیونکہ وہاں بیت اللہ ہے جس کا ہندوئوں کے قدیم مقدس پستکوں میں بھی ذکر ملتا ہے۔تفصیل جاننے کے لئے ماہنامہ ’’رنگ‘‘ دھن باد کا شمارہ نمبر ۳۶؍ دیکھا جاسکتا ہے جس میں میرا مضمون بعنوانِ’’ تصوف اور ہندوستانی فلسفہ روحانیت‘‘ چھپا ہے جو جون ۲۰۱۱ء کے’’ آج کل‘‘دہلی میں چھپے ڈاکٹر نریش صاحب کے اسی عنوان سے چھپے مضمون کے جواب میں لکھا گیا ہے۔سر زمین حجاز اور مدینہ منورہ کے بارے میں ایک علامہ اقبالؔ ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کے دل میں ہوبہو ایسی ہی عقیدت مندی ہے ۔ چلئے رام داس نادار سے پوچھتے ہیں کہ ؔپنڈت کالکا پرشادؔ کے ان اشعار کے بارے میںآپ کیا رائے رکھتے ہیں ؎
گر شمس و قمر کو کوئی دامن میں چھپالے
اور دولت ِکونین کو مٹھی میں دبا لے
پھر کالکا پرشادؔ سے پوچھے کہ تو کیا لے
نعلینِ محمدﷺ کو وہ آنکھوں سے لگا لے
ہمدمؔ گوری پرشاد کے ان اشعار کے بارے میں کیا خیال ہے ؎
شوقِ پا بوسی لئے چل تو مدینے مجھ کو
زہے قسمت کہ بلایا ہے نبیﷺ نے مجھ کو
واپسی دم ہے مجھے ذکر نبیﷺ کرنے دو
دوستو موت کے آئے ہیں پسینے مجھ کو
کیوں دل خستہ صحرا ہجر میں بے تاب نہ ہو
ہو گئے ان کی زیارت کو مہینے مجھ کو
کیوں نہ ہو فخر یہ توقیر ہے کیا کم ہمدمؔ
بخش دی نعت کی جاگیر نبیﷺ نے مجھ کو
……………………………..
رابطہ صدرہ بل حضرت بل سری نگر (کشمیر)
Mob:-9419017246
E.mail:- [email protected]