رات کے ساڑے دس بج چکے ہیں ۔بجلی کے کھمبے پر لگے سفید بلب کی تُند و تیز روشنی میں مسافروں کا ہجوم صاف دکھائی دیتا ہے۔ویٹنگ روم کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ٹرین کی سریلی سیٹی سے اسٹیشن پر عجیب ہل چل نمودار ہوئی۔اناونسر کی میٹھی آواز کانوں میں گونجنے لگی۔ٹرین قریب پہنچ گئی۔ حسب معمول نیم برہنہ 16سالہ معصومہ، اپنے نازک میلے کچلے ہاتھوں میں پتھراُٹھا کرٹرین کی طرف ننگے پائوں زور سے دوڑی۔ پولیس والے چوکس تھے اور انہوں نے معصومہ کو ایسا کرنے سے باز رکھا ۔ معصومہ رُک گئی اپنے بائیں ہاتھ کو گندے لتھڑے بالوں میں گھسایا۔ پھر نکال کر انگلی کانوں میں ڈال دی۔ ایک پولیس والے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ایک طرف کردیا۔ کسی طرح اسے ٹرین نکل جانے تک مشغول رکھنا ضروری تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح چلا ئی، جس پر کسی نے اور بچوں کی طرح شرارت کرتے ہوئے تیز سُر یلی آواز میں رُونے لگی۔۔۔۔۔۔ خاموش ہوئی۔ٹرین نے سیٹی ماری او ر نکل گئی۔
معصومہ بڑ بڑانے لگی ۔ اوُں، نہوں، نانا ، مت کرو ،پھر رونے لگی ۔
آس پاس لوگ دیکھ رہے ہیں۔ کچھ باتیں کررہے ہیں۔
’’چھوڑو۔ چلو۔پاگل لڑکی‘‘۔ کسی نے ہنستے ہوے کہا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔ پاگلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’بیچاری ۔۔۔۔۔۔۔ ہا ں‘‘۔کسی عورت نے ہلکی آواز میںکہا۔
یہ معصومہ ہے!۔ ہاں معصومہ جان ۔۔۔۔۔ لکھنئو کے ایک گھر کی اکلوتی بیٹی۔ اس کی کہانی انوکھی اور کرب ناک ہے۔
ٹرین اپنے پورے شباب کے ساتھ سیاہ رات کو چیرتے ہوئے لکھنو سے چنڈھی گڈھ آرہی تھی۔ ستمبر کا موسم تھا۔ پنجاب کی سرحد میں داخل ہوتے ہی سواریوں نے ہلکی سی سردی محسوس کی۔ اندھیری رات میں ٹرین کی پٹ پٹ کی آ واز کچھ زیادہ ہی گونج رہی ہے۔ کچھ مسافر ٹرین کی آواز سے مدہوش ہو کر سوچکے ہیں۔
نصیر خان ابھی آنکھیں موندہی رہے ہیں لیکن اس کی بیوی ہاشمہ بیگم گہری نیند سوچکی ہے۔ معصومہ کی آنکھوں سے نیند جیسے غائب ہے۔ وہ ششیے کی کھڑ کی سے باہر دیکھ رہی ہے۔ باہر کی دُنیا کو رات کے اندھیرے میں لپٹی ہوئی تھی۔ آسمان پرکالے گہرے بادلوں کے سنگ ہلکے سفید رنگ کے کچھ ٹکڑے بھی چہل قدمی کر رہے ہیں۔ ٹرین نے رفتار اور زور سے پکڑی ۔ معصومہ نے معصوم آنکھوں سے باہر دیکھا تو اُسے آس پاس کے درخت کالے دیوئوں کی طرح ٹرین کے پیچھے بھاگتے نظرآئے۔ معصومہ جیسے ڈرسی گئی۔ جلدی اندر دیکھا اور اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔
ٹرین تقریباً خالی ہے ۔ دائیں طرف ایک ادھیڑ عمر کا شخص اور اس کی بیوی دونوں اونگھ رہے ہیں۔ سامنے والے برتھ پر اس کی ماں اور بابا نصیر خان ایک دوسرے سے سر ملا کر تقریباً سوچکے ہیں۔معصومہ سیٹ پر اکیلی ہے۔ آگے والی سیٹ پر بچے رو رہے ہیں اور ان کی ماںا نہیں چُپ کرانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ کچھ آدمی ہلکی سی گفتگو میں مشغول ہیں ۔پیچھے کوئی مسافر موبائل فون پر گانے سن رہا ہے، جس کی ہلکی سی آواز سے معصومہ لطف اندوز ہو رہی ہے۔
ٹرین نے سیٹی ماری اور پیہوں کی آواز میں گراوٹ سی محسوس ہونے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد ٹرین رُک گئی۔ روتے ہوئے بچوں والی ماں ٹرین سے اُتر نے لگی ۔باہر چائے اور سموسے بک رہے تھے، جن سے سوندھی سوندھی خوشبو اُٹھ رہی ہے۔ معصومہ سموسوں کو گھور رہی ہے۔ نہ جانے کون سا اسٹیشن ہے۔ نصیر خان بیدار ہوا۔
اس کی نظر باہر پڑی تو بیٹی سے کہا ’’سمو سہ کھائوں گی ‘‘۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔سر ہلاتے ہوئے معصومہ نے جواب دیا۔
باہر چند لڑکے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے معصومہ کو گھورنے لگے ۔نصیر خان نے کھڑکی سے ہی سموسے حاصل کیے ۔ ایک معصومہ کو دیا اور خود ایک کھانا شروع کیا۔
’’آپ کی امی جان سوگئی ہیں۔‘‘ معصومہ کے بغل میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
معصومہ ہلکے سے مسکرائی۔ ’’ہاں پا پا۔۔۔۔اور آپ بھی ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔،،
’ـــــــــــــــــ’وقت کیا ہوا؟‘‘ گھڑی دیکھتے ہوئے نصیر خان بھڑ بھڑایا۔
رات کے 11:30 بج چکے ہیں۔ باہر کافی شور و غل ہورہاہے، کچھ لڑکے چلارہے ہیں ۔ ایک طرف دو میلے کچلے لوگ ، جو غالباً میاں بیوی ہیں، جھگڑے میں مشغول ہے۔ چائے والا ٹرین میں ہر ایک سے چائے کی طلب پوچھتا ہے۔ ڈبے میں تقریباً خاموشی ہے۔ دراصل چند ہی لوگ اس میں موجود ہے۔
ٹرین دھیرے دھیرے پھسلنے لگی۔ نصیر خان نے اُٹھ کر بیگ سے دو کمبل نکالے۔ اسی دوران وہ دو لڑکے،جو ابھی تک باہر سے معصومہ کو گھوررہے تھے، ٹرین میں چڑھ گئے دونوں کی عمر یہی کچھ پچیس چھبیس سال کے آس پاس ہی ہوگی۔ ہاتھوں میں موبائل فون اور ایک کے کانوں میں ائیر فون ہے ۔ لمبے لمبے بالوں والے نے جسم پر فٹ کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ دوسرے نے قمیض اور معمولی سا پینٹ پہنا ہوا ہے۔ دونوں تعلیم یافتہ طالب علم جیسے نہیں لگ رہے ہیں۔ حالانکہ لمبے لمبے بالوں والے کی پیٹھ پر بیگ بھی باندھا ہوا ہے۔ ان کی حرکتیں کچھ ٹھیک نہیں رہی ہیں۔ آکر دونوں دائیں والی سیٹ پر بیٹھ گئے جہاں سے ابھی وہ اڈھیر عمر کے میاں بیوی اُتر گئے تھے۔ ٹرین دھیرے دھیرے تیز ہوتی جارہی ہے۔
’’بیٹا اُوپر والے برتھ پر سوجا۔۔ میں یہاں پر سو جائونگا ۔۔۔کمبل لیجئے ۔‘‘ ،نصیر خان نے اپنی بیوی پر کمبل ڈالتے ہوئے کہا۔
’’نا پا پا۔ میں اُوپر چڑھ نہیں سکتی ۔ آپ چڑھئے ۔ میں یہاں ہی مماکے سامنے سو جائو گی‘‘ ۔ معصومہ نے منع کرنے والے موڑ میں کہا۔
’’اچھا ٹھیک ہے‘‘ سوجائو ۔ نصیر خان اُوپر چڑھ کر سوگئے۔ معصومہ نے پائوں پھیلاتے ہوئے سونے کی غرض سے کمبل اوڑھنا شروع کی۔ پاس بیٹھے جوان لڑکے ایک دوسرے کے سر سے سر ملاکے گانے سننے میں مشغول ہیں۔
معصومہ نے کمبل سے خود کو ڈھک لیا اور اپنا حسین معصوم چہرہ کمبل سے باہر ہی رکھا۔ سونے کی کوشش کرر ہی ہے۔ ٹرین میں پیچھے سے لگا تار ہلکا سا سنگیت جاری ہے۔ دو آدمی بولتے بولتے شاید تھک گئے ۔
پاس والے لڑکے سر ہلا کر دیکھنے لگے، جیسے وہ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کی نگاہ سیدھے معصومہ کے چہرے پرہے۔ معصومہ ان کی اور پائوں پھیلائے تھی۔ لڑکوں کے سیٹ کے اوپر بلب جل رہا ہے، جس کی ہلکی سی روشنی معصومہ کے چہرے کو چُھورہی ہے۔ دونوں لڑکے آپس میں کچھ کھسر پھسرکر رہے ہیں۔ معصومہ کا ذہن ان کی طرف ہے اور کان لگائے سن رہی ہے۔ ٹرین نے اپنی رفتا ر تیز کی۔ آگے سے دوسری ٹرین چُھو سے ایک طرف پیچھے نکل گئی، جس سے زور دار آوازیں کمپارٹمنٹ کے اندر داخل ہوئیں۔
معصومہ کی آنکھوں سے نیند جیسے غائب ہونے لگی۔ اندر مایوسی کی کونپلیں سی پھوٹنے لگیں۔ایک لڑکا دھیرے دھیرے کسی سے فون پر باتیںکررہا ہے۔ ’’ہیلو ۔۔۔۔ہاں۔۔۔ اگلے اسٹیشن پر تیار رہنا ۔۔۔۔بارہ نمبر ۔۔۔بیچ میں ‘بالکل اب پہنچنے والے ہیں ۔ ‘‘
معصومہ یہ سب سن رہی ہے لیکن وہ اپنی دُنیا میں کھو ئی ہے۔ ’’کل ڈاکڑ کے پاس جانا ہے۔ مماکو چک اپ کرانا ہے۔ اُس کے بعد ہم امرتسر جائینگے اور پھر گولڈن ٹمپل‘‘ معصومہ نے اپنی آنکھیں بندکرلیں۔
لڑکوں کی طرف سے کچھ اور آوازیں آنے لگی ں تو اس کا دھیان بھٹک کراُن کی طرف گیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا دونوں لڑکے اُسے گھور رہے ہیں ۔ ’’ان کو کیا ہوا‘‘…؟ وہ سوچنے لگی۔
’’سینا کچھ زیادہ اُبھرا نہیں ہے‘‘۔ایک لڑکے نے کہا۔
’’چھوٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔ پاگل ۔۔۔۔۔۔‘‘ لمبے بالوں والے نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
’’مگر چمکدار چہرہ ہے ،زلفیں کتنی اچھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو نٹوں کو چومنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
لمبے بالوں والے کو پکڑتے ہوئے دوسرا لڑکا مزے لیتے ہوئے کہہ رہا ہے۔
’’ابھی صبر کرو‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لمبے بالوں والے نے جواب دیا۔
ٹرین کی رفتا ر کم ہو گئی ۔ معصومہ کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ پائوں سمیٹ کر سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ اندھیری دھند میں جسے غرق ہوا۔ لیکن نظریں برابر اُسے تکتی ہیں۔ معصومہ نے باہر دیکھا ۔ ٹرین لہلہاتے میدان میں مچلی ہوئی چل رہی ہے۔ دور دور تک کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی۔ ٹرین کی رفتار کچھ سُست ہوئی تو اس کا دل دھڑکنے لگا۔ لڑکے لگاتار باتیں کررہے ہیں۔فون کی گھنٹی بج گئی ۔ لڑکے نے فون اُٹھایا۔
’’ہاں۔۔ رُک جا تو۔۔۔ ٹھیک ۔۔۔۔ میں باہر آتا ہوں۔۔۔۔ ok ‘‘
لمبے بالوں والا لڑکا اُٹھ کر دروازے کی طرف گیا۔ معصومہ پیچھے بیٹھے لوگوں کی طرف دھیان دینے لگی۔ وہاں اسے کوئی آواز نہیں آئی، گانے کی آواز بھی بند ہوگئی۔ مایوس نگاہیںماں کے چہرے کو تکنے لگیں۔ وہ کمبل اوڑ ھی ہوئی ہلکے سے خراٹے ماررہی ہے۔ ٹرین نے زور سے سیٹی ماری اور تھوڑی دور پھسلتے ہوئے جا کررُک گئی۔ پیچھے کچھ لوگ اُٹھ کر اُتر نے لگے۔ آگے سے بھی کوئی مسا فربیدار ہو کر اپنے ساتھی کو جگا کر نیچے اُتر گیا۔ سٹیشن معمولی سا مگر ویران۔ باہر پٹری پر تین آدمی چھو ٹی سی کمبل کے نیچے سوئے ہوئے ہیں اور ایک نیم برہنہ عورت بیچ پر بیٹھی ہوئی ہے۔ گاڑی دھیرے دھیرے نکل گئی۔ ڈبے میں بالکل خاموشی چھاگئی۔۔ معصومہ نے اپنی دائیں طرف دیکھا۔مذید دو لڑکے ٹرین میں گھس گئے۔
’’ یہ کہاں سے ٹپک گئے۔ ۔۔۔ ‘‘ معصومہ نے سر دآہ چھوڑی ۔
کالے کالے چہرے ، شرابی مزاج ،گندی باتیں اور بگڑی حرکتیں کسی انہونی کا اشارہ کررہی ہیں ۔ ان میں بڑا تقریباً تیس سال کا اور دوسر ا بیس سال کا ہوگا۔ چاروں نے ایک ساتھ معصومہ کو تر چھی نظر روں سے دیکھا۔۔۔ ٹرین نے رفتار پکڑی ۔معصومہ کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ غور سے دیکھ رہی ہے کہ ان کے علاوہ ٹر ین میں کوئی ہے کہ نہیں ۔
’’کوئی نہیں ۔۔۔ماں ، بابا کے سوا کوئی اور نہیں ہے‘‘۔ وہ بڑبڑانے لگی۔
معصومہ سہم گئی۔ چاروں لڑکے آپس میں کچھ پلان بنار ہے ہیں۔ دو اُٹھ کرپیچھے کی طرف گئے اور ایک آگے کی طرف۔
سب سے بڑااپنی جگہ پر بیٹھا ہواہے ۔ تھو ڑی دیر کے بعد تینوں واپس آکرہلکی سی گفتگو میں مشغول ہوئے ۔
’’پہلے میں آپ دیکھتے رہیں ‘‘ سب سے بڑے نے تحکمکانہ انداز میں کہا اور
اپنی جگہ سے اُٹھ کر معصومہ کی سیٹ پر اس کے بغل میں بیٹھ گیا۔
’’ رانی کیا خاطر داری کروں۔‘‘ ہاتھ چہرے پر پھیرانے لگا۔
معصومہ خوف زدہ ہوئی۔ اس کا چہرہ لال ہوا۔ ’’پا پا ۔۔پاپا۔ پہ ۔مما‘‘
’’بس بس دھیرج رکھو یار۔۔۔۔۔۔۔ چلا کیوں رہی ہے‘‘ لڑکے نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
نصیر خان بیدار ہوا۔ ’’بیٹا بیٹا ۔۔۔۔ معصومہ ‘‘
’’پا پا ۔۔۔۔۔ ‘‘ روتے ہوئے معصومہ فریاد کرنے لگی۔
نصیر خان نیچے آگیا۔ دیکھا کہ غنڈہ معصومہ کو ستارہا ہے۔
’’ او۔۔پاگل کہیں کے ‘‘غنڈے کا گلا پکڑا۔
غنڈے نے اُٹھ کر نصیر خان کو لات ماری ۔ معصومہ رونے لگی۔ اسے اس بات کا احساس تھا کہ ڈبے میں ان غنڈوں کے علاوہ کوئی نہیں۔وہ زارو قطار رونے لگی ۔ نصیر خان، جو گر گئے تھے، دوبارہ جرأت مندی کے ساتھ اُٹھے۔ دوسرے دو لڑکوں آکر مارنے لگے ۔ نصیر خان زور زور سے چلانے لگاتو ہاشمی بیگم بیدار ہوئی۔ یہ ماجرا دیکھ کر بیٹی کو گلے لگاتے ہوئے چلانے لگی۔ ’’بچائو بچائو‘‘ ۔
غنڈے نے ہاشمی کو ایک چانٹا رسید کرتے ہوئے کہا ’’ پا غل عورت چُپ کر‘‘
نصیر خان بے قابو ہو کر چلانے لگا اور کچھ گندی گالیاں دینے لگا۔ بڑے غنڈے نے جیب سے پستول نکال کر نصیر خان کو ٹھنڈا کردیا۔جیب سے رومال نکال کر چہرے سے پسینہ صاف کرنے لگا۔
ادھردونوں ماں بیٹی نصیر خان کی طرف بھاگیں اور اُس سے لپٹ کر سر پیٹنے لگیں۔ نصیر خان تڑپ تڑپ کر دم توڑ بیٹھا۔ لڑکے زور زور سے ہنسنے لگے ۔
’’ لااب میری رانی کو ۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔بڑے غنڈے نے کہا۔
لمبے بالوں والے نے معصومہ کو گھسیٹے ہوے ماں سے الگ کردیا اور پیچھے لے گیا۔ ہاشمی پیچھے پیچھے دوڑی غنڈوں سے حجت کرنے لگی۔’’ میری بیٹی کو چھوڑو۔۔ہمیں خدا کے لئے بخش دو ‘‘
چھوٹے لڑکے نے اُسے بے دردی سے مارا۔اُ س کی ناک سے خون بہنے لگا۔ وہ چلاتی رہی ’’ بچائو ارے کوئی ہے‘‘
’’نہیں ہے‘‘ دوسر لڑکے نے جلدی میں جواب دیا۔
بڑے غنڈے نے ان دولڑکوں کو اشارہ کیا۔ انہوںنے ہاشمی کے کپڑے پھاڑے ۔ اس کے بال بکھر گئے اور وہ چلاتے چلاتے خاموش ہوگئی۔
’’ یہ سالی بے ہوش ہوئی‘‘
’’ چھوڑواسے ‘‘ بڑا غنڈاکہتے ہوئے پیچھے گیا۔ لمبے بالوں والے ، جس نے لڑکی کو پکڑ کے رکھا ہوا تھا، سے غصے میں کہا
’’اس کے کپڑے اتارو‘‘۔ معصومہ چلاتی رہی کسی نے ایک نہ سنی۔۔۔۔۔۔
’’ چپ کر حرام زادی۔۔۔ جلدی کرو ۔۔۔۔‘‘ ۔ لمبے بالوں والا چیخنے لگا۔
لمبے بالوں والے نے معصومہ کو سیٹ پر ڈھیرکیا ۔اس کا سر اپنے ہاتھوں میں لیا۔ منہ پر ہاتھ رہا۔’’ کھولو سالو‘‘ دونوں چھوٹے لڑکوں نے معصومہ کے بدن سے سارے کپڑے نوچ ڈالے۔ غنڈا معصومہ پر ٹوٹ پڑا۔ معصومہ مچھلی کی طرح تڑپتی رہی۔ آہ و زاری کرتی رہی مگر بد نصیب کی کون سنتا۔ وہاں کوئی اورتو تھا ہی نہیں۔ کچھ وقت کے بعد غنڈے نے فراغت محسوس کی۔ دوسرے کو جگہ دی۔ لمبے بالوں والے نے معصومہ کو چھوڑاتو معصومہ زور سے چلائی۔
ہاشمی کے ہوش واپس آگئے تو بیٹی کو چھڑانے کے لئے اُٹھ کھڑی ہوئی آئی ۔ بڑے غنڈے نے بے دردی سے اُسکی مار پیٹ کر نی شروع کردی۔ تینوں غنڈے آگے آئے اور ہاشمی کو اُٹھاکر چلتی ٹرین سے باہر پھینک دیا۔ چاروں نے رات بھر معصومہ کا بدن کو نوچ ڈالا۔ معصومہ بے ہوش پڑی رہی اور یہ چاروں درند ے حیوانیت کے وہ سارے دائو چلاتے رہے جس سے انسانیت شرم سے آب آب ہو رہی ہے۔
صبح کی پھیکی روشنی میں ٹرین منزل پر پہنچ گئی۔ ریلوے حکام نے معصومہ کو ہسپتال میں بھر تی کیا، جہاں اسے چند دنوں کے علاج ومعالجہ کے بعد پاگل قرار دیا گیا۔ اب یہ پچھلے ایک سال سے ریلوے اسٹیشن پر رات دن بیٹھی رہتی ہے اور ٹرین کو دیکھتے ہی دیوانوں کی طرح چلاتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور ہاتھوں میں پتھر اُٹھاکے……
���
ڈورو شاہ آباد، اننت ناگ، کشمیر
لیکچرر اردو ، ویمنز کالج سرینگر،
موبائل نمبر؛9797214572