یم ِ خاب وُچھَن یم ِ خاب گرن
تمِ سوداگر چھِنہ زہن مران
(وہ جو خواب دیکھتے ہیں اور خوابوں کو تراشتے ہیں، وہ سوداگر لافانی ہوتے ہیں۔)
معتبر اور حقیقی شاعری اس وقت جنم لیتی ہے جب وہ انسانی روح کی گہرائیوں سے ٹھیک اسی طرح پھوٹ پڑے جس طرح ایک چشمہ زمین کی انتہائی گہرائیوںمیں سے پوری شدت کے ساتھ نکلتا ہے اور پھر اُبلتا ہی رہتا ہے۔تخلیقی فنکار کا نظریہ اگر یہ ہو کہ انسانی جسم اور اس کی خواہشات و میلانات ہی کُل کائنات ہیں،اور یہ کہ اگر انسان کیلئے کسی چیز کی اہمیت ہے وہ صرف دنیا اور حیاتِ ارضی کی ہے، ایسے اصولوں کے حامل فن کار کی شاعری کا گہرائیوں سے اُبھرنا محال ہے۔اس نظریہ کے حامل انسان بھی شاعر ی کرسکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں،مگر فانی جسم اور ناپائیدار دُنیا کی طرح اُن کی شاعری بھی عارضی اور وقتی ثابت ہوتی ہے،اور اپنے زمانے کے بعد زندہ نہیں رہتی ،کیونکہ اس شاعری کا مخرج مبنع ما بعدِزماں و مکاں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا،بھلا وہ آفاقی اور عالمگیر کیسے بن سکتی ہے،اور زماں و مکان کے حصار سے کیسے باہر نکل سکتی ہے۔اس طرح کے نظریۂ ادب کو کسی بھی باطنی شیٔ پر ایمان نہیں ہوتا اور وہ ظاہر کے ہی دام فریب میں گرفتار رہتا ہے۔اس کے برعکس وہ شاعری جو ایسے نظریۂ شعر پر مبنی ہو جو باطنی اور روحانی حقیقتوں پر یقین رکھتی ہو،اور جس کی رسائی کسی نہ کسی درجے پر زماں و مکاں کے حدود سے ماورائے حقیقت ا لحقایٔق تک ہو،ایسی شاعری لازماًزماں و مکاں کی حدبندیوں سے آزاد ہو کر ایک آفاقی اور ابدی شان حاصل کر لیتی ہے اور اپنے دور کے بعد بھی زندہ جاوید رہتی ہے۔ بیسویں صدی کے انگریزی کے سب سے اقبال مند شاعر ڈبلیو ۔ بی۔ یے ٹس رقمطرازہیں:
"No man can create, as did Shakespeare, Homer, Sophocles, who does not believe, with all his blood and nerve, that man's soul is immortal, for the evidence lies plain to all men that where that belief has declined, men have turned from creation to photography"
’’ کوئی بھی شخص اس طرح سے تخلیق نہیں کر سکتا جیسی کہ شیکسپیٔرؔ، ہومرؔ،سوفوکلیزؔنے کی، جو اپنے رَگ و پے کی گہرائیوںسے اس بات پر یقین نہ رکھتا ہو کہ انسان کی روح لافانی ہے، چونکہ یہ بات سار ے انسانوں پر روشن ہے کہ جہاں کہیں بھی اس یقین میں ضعف آگیا ،وہاںانسانوں نے تخلیق کے بدلے نقالی اور فوٹوگرافی اختیار کی۔‘‘
ہمارے شاعر نے کہا کہ جو فن انسانی جسم سے باہر نہ نکلے وہ محض حیوانی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے اور اپنے منبع کی طرح فانی ہوتا ہے ؎
۔چھوڑ یورپ کیلئے رقصِ بدن کے خم و پیچ
روح کے رقص میں ہے ضربِ کلیم ا للہ ہی
صلہ اُس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن
صلہ اس رقص کا درویشی و شاہنشاہی
جن فنکاروں کا فن جسمانی تسکین تک ہی محدود رہتا ہے،انکے متعلق ہمارا شاعر فرماتا ہے۔
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقا ماتِ بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
اس نقطۂ نظر سے اگر ہم ادبی تاریخ کا جایٔز ہ لیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ وہی فنکار زندہ رہتے ہیں،جن کے فن کے پیچھے کسی شعوری اور زیادہ تر لا شعوری سطح پر باطنی اور لافانی حقیقتوں پر ایمان کی قوت ہوتی ہے۔ہومرؔ،سوفوکلیزؔ،ورجلؔ، دانتےؔ،شیکسپیٔرؔ، ملٹنؔ،ورڈذورتھؔ، یے ٹسؔ، ایلیٹؔ، گویٔٹےؔ، رومیؔ،عرفیؔ،سعدیؔ، حافظؔؔ، ٹالسٹائےؔ، غالب، ؔ اقبالؔ، لل دیدؔ اور حضرت شیخُ العالمؒ اس قسم کے فن کاروںکی چند مثالیں ہیں۔ باقی اقسام کے علو م و فنون کی طرح اس قسم کے فن و ادب میں بھی نشیب وفرازہوتے ہیں۔ اس میں ایورسٹ جیسی چوٹیاں بھی نظر آتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے ٹیلے بھی مگر یہ بہرحال عظمت کی دلیل ہے کہ اگر ایک فن کار اس کارواں میں شامل ہو ، چاہے وہ اگلی صف میں ہو یا درمیانی صف میں یا پھر پچھلے صف میں۔ حیات عامر حسینی بلا شک و شُبہ اسی کارواں کا فرد ہے۔ چناںچہ اپنی شاعری کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں:
’’ میرے علائم عرب کے صحرا سے اُٹھ کر باقی تہذیبوں اور کشمیر کی تاریخ میں ، جو شاہِ ہمدانؒ کے دور سے شروع ہوتی ہے، اپنے رابطے تلاش کرتے ہیں۔ میرا مسئلہ انسان کی روحانی شناخت ہے جو تمام تہذیبوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا معنیٰ پالیتی ہے۔‘‘ حیات عامر حسینی کی شاعری شعوری اور غیر شعوری دونوں سطحوں پر روحانی منبع سے تعلق رکھتی ہے۔اس کا محور تاریکیوں میں نور کی تلاش ہے۔ وہ نور جو ظلمتوں سے نبرد آزما ہے۔وہ نور جس کا سرچشمہ کایٔنات کی سب سے بڑی حقیقت توحید ہے ۔ اللہ زمین وآسمان کا نور ہے ( النّور۔35 )
یہ وہ نور ہے جس کے منابع و مصادر اللہ کے برگزیدہ رسولؐ اور مملکت روحانی کی وہ عظیم شخصیتیںہیں جوباطنی حقیقتوں کے بلند پایہ شناسا ہیں۔وہ نور جس کا معلوم تاریخ میں ایک اہم سنگ میل خلیل اللہ ؑ ہیں۔ یہ نور ہمیشہ انسانی خون کے تیل سے جلا پاتا ہے ؎
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ، ابتداء ہے اسما عیل ؑ
اُوپر جو اقتباس نقل کیا گیا ہے اسکے تسلسل میں حیات عامر صاحب لکھتے ہیں:
’’ میرے وجود اور فن کی ساری تلاش رمزِ کایٔنات ، فخرِ موجورات ِ وجہہ تخلیق، ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ ؐ اور آپ ؐ کے ا ہلِ بیت طاہرین کی تخلیقی پرچھائیاں ہیں۔ میرے لئے ساری کایٔنات اسی ذاتِ مقدس کے ارد گرد گھوم کر ہی اپنے معنیٰ پالیتی ہے۔‘‘ حیات عامر کی شاعری کی ایک اہم رعنائی یہ ہے کہ اس میں اس نور کے علم بردار مردِ کامل کی تلاش اوراس کا بے تا با نہ انتظار رگوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ گذشتہ سطور میں جن دو اقسام کے شاعروں کا ذکر کیا گیا ، ان دونوں میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے شرطِ اوّل (Pre-condition ) یہ ہے کہ انسان کے اندر سب سے پہلے تخلیقی ملکہ موجود ہو مگر یہ استعداد انسان کے حد اختیار میں نہیں ہے۔اگر ہوتی تو سارے لوگ یا اکثریت شاعروں کی ہوتی۔حیات عامر صاحب فطری شاعر ہیں۔ اُن کی شاعری کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی چشمہ زمین کی اتھاہ گہرائیوں سے بے ساختہ اور بے اختیاری سے اُبل رہا ہو،اور شیریں ترنم کے ساتھ پانی کی ورشا کر رہا ہو۔اُن کی زبان قدرتی طور پر شاعری کی زبان ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں اس لہجے کے بغیر بات کرنی ہی نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ طویل نظموں کا میدان آج کی کشمیری شاعری میں انہوں نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ طویل نظم دراصل شاعرانہ صلاحیت اور بیانیہ قدرت دونوںکا سخت امتحان ہوتی ہے۔مختصرنظم یا غِنائی نغمہ یا غزل وہ شاعر بھی لکھ سکتا ہے،جس کا شاعرانہ فیضان لمحاتی اور مستعجل ہوتاہے۔(اگرچہ فیضان کے بغیر اسکاکامیاب ہونا بھی محال ہے) مگر طویل نظموں کیلئے ورُود کا فیضان اور قوتِ بیان دونوںکے تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیات عامر حسینی بیشک طویل نظموں کیلئے موزوں طبیعت اور صلاحیتوںسے بہرو رہیں۔ روانی،سلاست ،برجستگی اور بہاو انکی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ یہ روانی اوربرجستگی انکی نعتوں میں سب سے زیادہ دلآویز اظہار اپا لیتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی آبشاروارفتہہوگیا ہے۔ ان کی تمام نظمیں مثلاً ’’رمزِ ہانکل‘‘ ، ’’ گہے گہے چھُم میہ پانہ باسان‘‘ ، ’’تنہ وقتا گو‘‘ ، ’’ویتھ‘‘ ، ’’ نوسفر‘‘ چابیوں کی طرح یا کھل جا سم سم کی طرح نا معلوم خزانوں کے دروازے کھول دیتی ہیں اور نقطہ ہائے انفصال(points of departure) بنتی ہیں، جن پر جست لگا کر شاعر کا تصور بے انتہا وسیع و عریض دنیاؤں کا احاطہ کرتاہے۔ کایٔنات ، انسان، تاریخ، کشمیر کی المناک صورتحال، انسان کی بربادی، تقدیر کے کھیل، وقت کے بدلتے رنگ و روپ، نامعلوم پریشانیاں‘ غرض سارے حادثات اشعار کا پیرہن اوڑھے ہوئے سامنے آتے ہیں۔ مگر ان اشعار کا مجموعی اثر ناامیدی پیدا نہیں کرتا بلکہ زندگی کے تئیں انسان کا یقین اور زیادہ مستحکم کرتا ہے۔ جس نور کے ساتھ حیات عامر کا تعلق ہے، اور جس سے اُن کی حمد و نعت منوّر ہوتی ہے، وہ نورظلمتوں میں بھی راہیںروشن کرتا ہے اور اُمیدوں کے چراغ جلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رجائیت کے لیَ ان کی شاعری میں کبھی مدہم نہیں ہو پاتی۔ یہ پیغام ملاحظہ فرمائیں۔
ِبیہِ بونین کھالونو و بامن
بِیِہ ویرن آنو نو یا وُن
بیہِ رقص کرن یِم نالہ گرزن
ِبیہِ جویہِ پھٹن، بیِہ ناگ اسن
بِیہِ و تھ وسہِ شہرس شہلاوان
بیِہِ ہر مکھ بالس سنگر پھولن
(پھر سے چناروں کی نئی کونپلیں پھوٹیں گی، بید کے درختوں کو پھر اک نیا جوبن ملے گا ، نالے پھر گرجتے ہوئے رقص کریں گے ، ندیاں پھرابلیں گی اور چشمے پھر مُسکرائیں گے، پھر سے جہلم شہرِ سرینگر سے راحت بکھیرتا ہوا گزرے گا، پھر ایک بار ہرموکھ کی چوٹیوں سے سحر نمودار ہوگی۔)
جبر کرتن خبر کاژا سیاہی
فنا چھُنہ روح آزادی گژھان زانہہ
( یہ سیاہی اور تاریکی کتنے ہی ظلم و جبر کرلے ،مگر آزادی کی روح کبھی فنا نہیں ہوتی۔)
وتھ چانن قطرن گہر بنن
وتھ چانین جویَن پوش پھلنی
کستوٗر بنِن پرتھ وا مَلُر
پرتھ گراے بنین اکھ قوسِ قزح
پرتھ ژھاے بنن اکھ پوشہِ شیہُل
ّّ( جہلم تیرے پانی کے قطرے موتی بن جائیں ،تیری موجوں سے پھول برسیں، تیرا ہواکاہر جھونکا بلبل اور ہر لہر قوسِ قُزح بن جائے، تیری ہر پرچھائیں پھولوں کی پرچھائیں ہو۔)
حیات عامر کشمیری شاعری کی ایک نئی، شیریںاور روح پرور آوازہے۔یہ ایک منفرد اسلوب کا آغازہے۔ مجھے اُمید واثق ہے کہ ان کی شاعری کو کشمیر میں اور کشمیر سے باہر کشمیری زبان کے شیدایئوں میں وہ پزیرائی ملے گی جس کی یہ بجا طور پر مستحق ہے۔
٭٭٭٭٭