سرینگر // ریاست میںگزشتہ70برسوں سے بجلی کا شدید بحران ہے، پانی کے قردتی ذخائر موجود ہونے کے باوجود ان سے ریاست کو استفادہ دلانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی البتہ اس کا فائدہ این ایچ پی سی کو دلانے کیلئے نہ صرف دفعہ 370کی دھجیاں اڑائیں گئیں بلکہ دیگر قوانین کی بھی مٹی پلید کی گئی۔این ایچ پی سی بجلی پروجیکٹوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور سنا جا چکا ہے لیکن ریاست کی متواتر حکومتوں نے اس معاملے پر لوگوں کو صرف بیوقوف بنایا اور حقیقت کبھی بتائی نہیں۔حالانکہ موجودہ حکومت نے بھاجپا کیساتھ طے پائے گئے ایجنڈا آف الائنس میں بھی پاور پروجیکٹوں کی واپسی کا معاملہ ایک نکتہ کے طور پر رکھا ،لیکن عملاً کچھ نہیں ہوا ،نہ ہوگا۔اس بات کا پہلے ہی انکشاف ہوچکا ہے کہ این ایچ پی سی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان بجلی پروجیکٹوں کی تعمیر کے سلسلے میں کوئی بھی تحریری معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ صرف زبانی طور پر معاہدے طے پائے گئے اور ریاست کے پانی کو کھوٹے سکوں کے عوض فروخت کیا گیا۔این ایچ پی سی، مرکزی وزارت بجلی اور ریاستی سرکار کے پاس اس قسم کی کوئی بھی دستاویز موجود نہیں ہے جو قانونی اور آئینی طور پریہ ثابت کرے کہ بجلی پروجیکٹ قانونی طور پر این ایچ پی سی کو تعمیر کرنے کیلئے دئے گئے ہیں۔اس ضمن میں ریاستی عدلیہ اور آئی ٹی آئی کے ذریعے بھی این ایچ پی سی اور مرکزی وزارت بجلی اور ریاستی سرکار سے دستاویزات مانگے گئے تاہم دستاویزات این ایچ پی سی کے پاس ہیں نہ ہی مرکزی وزارت بجلی کے پاس موجود ہیں، ریاستی سرکار کے پاس بھی کوئی ایسا ثبوت نہیں جو یہ بتا دے کہ ریاست کے پاور پروجیکٹ این ایچ پی سی کو آئینی اور قانونی طور پر دئے گئے ہیں ۔قانونی ماہرین کے مطابق دفعہ 370، جسکی بدولت ریاست کو بھارت کی آئین میں خصوصی پوزیشن حاصل ہے،کی رو سے بیرون ریاست کا وہی شخص ریاست کی زمین حاصل کر کے اُس پر پروجیکٹ تعمیر کر سکتا ہے جسے کسی قانون کے تحت یہ زمین منتقل کی گئی ہو ۔ماہرین نے کہا کہ ریاست کی زمین پر پروجیکٹ تعمیر کرنے کیلئے بھارت کے صدر کا جموں وکشمیر کی سرکار کو تحریری طور پر آگاہ کرنا لازمی ہے جس کے بعد ہی ریاستی حکومت اُس زمین کو مہیا کرے گی اور جوزمین منتقل ہو گی وہ بھی صدر کے نام پر ہی ہو گی اور پھر صدر ریاست کا یہ جواز بنتا ہے کہ وہ یہ زمین اُس کمپنی اور ادرے کی تحویل میں دے جسے پروجیکٹ بنانا ہو گا ۔لیکن این ایچ پی سی نے اس عمل کو ریاست جموں وکشمیر میں بروئے کار نہیں لایا بلکہ این ایچ پی سی نے غیر قانونی طور پر یہاں اراضی حاصل کی اور اُس پر پروجیکٹ تعمیر کئے ۔ جموں وکشمیر سٹیٹ الیکٹر سٹی ایکٹ کی رو سے بھی این ایچ پی سی کے پروجیکٹ غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے ہیں۔اس قانون کے تحت کسی بھی بجلی پروجیکٹ پر کام شروع کرنے سے قبل ریاستی سرکار سے لائسنس لینا ضروری ہوتا ہے اور اُس کیلئے کمپنی کو ریاستی سرکار کو فیس بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ ریاستی سرکارپر یہ لازم ہے کہ وہ پروجیکٹ کیلئے زمین فراہم کرنے سے قبل اُس کمپنی اور فرد کا نام پبلک ڈومین میں رکھے کہ یہ کمپنی پروجیکٹ تعمیر کرنے جا رہی ہے اور اگر عوام کی جانب سے اُس پر کوئی اعتراض نہ کیا جائے تب وہ کمپنی بجلی پروجیکٹ لگانے کی اہل بن سکتی ہے ۔یہاں بھی وہی ہوا جو پہلے کیا گیا تھا۔ این ایچ پی سی نے نہ ہی سرکار سے کوئی لائسنس حاصل کی اور نہ ہی سرکار نے کبھی اُ سے لائسنس دیا یا پھر قواعد و ضوابط کے تحت لازم قرار دیئے گئے قواعد و ضوابط پر خود عمل کیا ۔سینئر سیول سوسائٹی رکن اور این ایچ پی سی معاملے کے ماہرشکیل قلندر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بجلی پروجیکٹوں کی واپسی کا مسئلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست کے قانون اور آئین کی رو سے اگر دیکھا جائے تو این ایچ پی سی غیر قانونی طور ان پروجیکٹوں پر قابض ہے ۔شکیل قلندر نے کہاکہ ہم نے آئی ٹی آئی قانون اور عدالت کے توسط سے تحریری معاہدے کو سامنے لانی کا مطالبہ کیا تھا لیکن ایسا کوئی بھی تحریری معاہدہ نہیں ہوا ہے جس کے تحت این ایچ پی سی کو بجلی پروجیکٹ بنانے کی اجازت دی گئی ہو۔انہوں نے کہا کہ جو بھی زمین غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر ہڑپ کی گئی ہے اُس کا اختیار ریاستی سرکار کو ہی ہے کہ وہ واپس لے ۔انہوں نے کہا کہ سرکار اور این ایچ پی سی کے درمیان فکسڈ میچ چل رہا ہے اور لوگوں کو بیوقوف بنا یا جا رہا ہے ۔انکا کہنا ہے کہ جب کوئی دستاویز ہی موجود نہیں تو پھر ہم کیسے مذکورہ کمپنی سے پروجیکٹ واپس کرنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1980کی دہائی میں تعمیر کئے گئے سلال پروجیکٹ کے بارے میں کہا گیا ہ 35برسوں کے بعد مذکورہ کمپنی پروجیکٹ واپس دینے کی پابند ہے لیکن ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے بلکہ آنکھیں بند کر کے مذکورہ کمپنی کو اراضی الاٹ کی گئی، اسے لائسنس کے بغیر ہی پروجیکٹ لگانے کی اجازت دی گئی اور صدر جمہوریہ کی جانب سے ریا ستی سرکار کو تحریری طور پر کبھی آگاہ نہیں کیا گیا۔