امسال موسم سرما تادم تحریر خشک سالی کے گھیرے میں ہے ، ندی نالے اور دریا سوکھے پڑے ہیں، سرمائی امرض کا دور دورہ ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں میدانی علاقوں میں بارشیں اور بالائی خطوں میں تھوڑی بہت برف باری ہوئی مگر مجموعی طور خشک سالی کا سلسلہ ابھی ٹوٹنے کانام نہیں لے رہا۔ وادیٔ کشمیر میں چلہ ٔ کلان کی آمد میں ابھی تقریباً تین ہفتے سے زائد مدت کا وقفہ حائل ہے ۔ چلہ ٔ کلان ہر سال اپنے ساتھ کڑاکے کی سردیاں ضرور لاتا ہے مگر برف باری کی صورت میں یہ موسم خدائے مہربان کی طرف سے عوام کے لئے ایک عظیم ترین تحفہ اور کا رخانہ ٔ قدرت سے روشن مستقبل کی نوید اورضمانت بھی ہوتاہے ۔ تصویر کا یہ رُخ ہر اعتبار سے اطمینان بخش ہوتاہے مگر تصویر کا دوسرا رُخ عوام الناس کے دُکھوں اورپر یشانیوں پر دلالت کر تاہے ۔ یہ ایک عجیب گھورکھ دھندا ہے کہ دربار مو کے پس منظر میں سرما کا آغاز سے پہلے ہی وادی میں پوری ایڈمنسٹریشن جموں منتقل ہوجاتی ہے اور اس کے کل پرزے عام آدمی کی نظروں سے یکسر اوجھل رہتے ہیں ، اور وادی ایک شہر ناپُرساں کا روپ دھارن کر تی ہے جہاں لوگ کسمپرسی ، درد اور تکالیف کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں ۔ اس بار بھی حسب ِ دستور اسی روایت کا اعادہ ہوناطے ہے ۔ اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ سرما ئی مسائل ومصائب کے انبار تلے طرح طرح کے دُکھ اور تکلیفیں جھیلتے ہی جھیلتے ہیں مگرا س بار مہنگائی اور گراں بازاری کا بڑھتا ہوا بوجھ ان کے لئے ناقابل برداشت ثابت ہورہاہے ، ساگ سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں ، گیس اور تیل خاکی کی بلیک مارکیٹنگ عروج پر ہے ، کانگڑی کوئلہ سونے کے بھاؤ بک رہاہے، اشیاء ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کر کے ہر چیز منہ مانگے داموں بک رہی ہے اورستم یہ کہ غریبوں کی قوتِ خرید ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے ۔ ظاہر ہے جب انتظامیہ کا وجود ہفتہ وصولی تک محدود ہو تو گراں فروشوں کے وارے نیارے کیوں نہ ہوں ؟ اس پر مستزاد یہ کہ بجلی کا کٹوتی شیڈول بے یقینی اور بے اعتباری کا اشتہار بنا ہواہے۔ میٹر اور نان میٹر ڈعلا قوں میں ہمیشہ کی طرح بلا خلل پاور سپلائی محض دیوانے کی بڑ بنی ہوئی ہے۔ صارفین کے ساتھ بجلی کی آ نکھ مچو لیا ں تواتر کے ساتھ جا رہی ہیں بلکہ روز بروز بجلی کی سپلائی پو زیشن ماضی کے مقابلے میں بہت نا تسلی بخش ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ صورت حال اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ عوامی مشکلات کونظر انداز کر نا ارباب ِ اقتدار کی فطرت ثانیہ بنی ہے ۔ اُدھر محکمہ بجلی صارفین کے ایگریمنٹوں کو بالائے طا ق رکھ کران کے ہاتھ میںبھاری بجلی بلیں تھما نے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ اس پر اگرچہ صارفین کا پیما نہ ٔ صبر لبریز بھی ہومگر ان کی کوئی نہیںسنتا ۔ کشمیر میں خاص کر اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھ کر صارفین سے زیا دہ بجلی فیس طلب کر نا کسی لا ینحل معمہ سے کم نہیں ۔ یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ جاڑے میںوادی ٔ کشمیر شدید سردیوں کی لپیٹ میں ہو تی ہے ، یہاں زندگی کی رگ رگ پر پرٹھنڈ اور ٹھٹھراہٹ کا تعطل چھاجاتا ہے ۔ ان حا لا ت میں اگرچہ بجلی کی کھپت بڑ ھنا قدرتی امرہے مگر یہاں چونکہ اُلٹی گنگا بہنے کی رِ یت پائی جاتی ہے ،اس لئے سر ما میں سب سے پہلے پاور کی بے وفائی سے لوگوں کا پالا پڑتا ہے۔ ایک جانب تین چلّوں کی سختیا ں عوامی زندگیاں اجیرن بنا رہی ہوں، دوسری جانب بجلی بھی دغا دے جائے تو یہ صورت حال جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ثابت ہوتی ہے ۔ اس ضمن میں یہ امر واقع بھی چشم کشا ہونا چاہیے کہ سرکاری سطح پر بارہا یہ اعتراف ہوتا چلا آ رہا ہے کہ یہ وادی ٔ کشمیر ہے جہاں برس ہا برس سے جموں کے مقابلے میں عوام سے زیادہ بجلی فیس وصولی جاتی ہے ۔ بہرصورت یہ پہیلی نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ بجلی چوری کشمیر سے زیادہ باہرہورہی ہے، ہمارے یہاں اس مرض کی موجودگی کو مکمل طورخارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، مگر بجلی کا نا جا ئز استعمال روکنے کے بہانے عوام کواجتماعی سزا دی جائے، یہ بھی کوئی دانائی قرار نہیں پاتی ۔ الغرض ا رباب ِ اقتدار کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ پاور کرائسس کا مستقل بنیادوں پر علا ج ڈھو نڈنے سے گریز پائی کی روش کو ترک کریں ۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ مسئلے کا موثر علاج ڈھونڈنے کے سلسلے میں حکومت کو بلا تاخیر ایک منصوبہ بند ، موثر اور کا رگر حکمت عملی اپنا نے سے انقلاب انگیز نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ، بشرطیکہ یہ ووٹ بنک سیاست یا ایڈہاک ازم سے عبارت نہ ہو بلکہ مبنی بر خلوص وجذبہ ٔ حدمت خلق سے لگا کھاتی ہو ۔ اس سلسلے میں پہلاقدم یہ ہو کہ ریاست کے انتظا می صیغوں میں بد عنوانی کے پیپ اور کورپشن کے سرطان کا خاتمہ کیا جائے، تب جا کر یہ تو قع کی جا سکتی ہے کہ مہنگائی کا بھوت ہو، بجلی کی نامکتفی سپلائی پوزیشن ہو ، برقی رو کے ناجائزاستعمال کی بیمار ذہن روش ہو ، خزانۂ عامرہ کی بے دریغ لوٹ کھسوٹ ہو یا سرکاری محصولات کو ہتھیانے کا غیر اخلا قی گورکھ دھندا ہو ، ان تمام موذی امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پا ور سیکٹر کے حو الے سے اس تلخ حقیقت سے حکام نا بلد نہیں ہو سکتے کہ اس نظام میں بے ضابطگیاں دور کر نے میں انہوں نے ایک مرحلے پر زر کثیر خرچ کر کے میٹرو ں کی تنصیب کی مگر معاملہ’’مرض بڑ ھتا گیا جوں جوں دواکی‘ ‘ کے مصداق بجلی کی سپلائی پوزیشن پہلے کی طرح ابتر ہی رہی۔ پھر عوام سے زیادہ بجلی فیسیں وصول کی جاری ہیں مگر نتیجہ پھر وہی ڈاک کے تین پات، اس کے بعد بے دریغ کٹو تی شیڈول عوام کے گلے ڈالا گیا تاکہ بجلی کی کھپت میں کمی آئے مگر اصل مرض پھر بھی سالم و ثابوت ہی رہا۔ ایک مرحلے پر محکمہ بجلی کو پرائیوٹائز کرنے کی ہوائیاں بھی چلیں، وثوق و اعتماد سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ نسخہ درد کا درماں ہو گا یا محض دائرے کا سفر ثابت ہوگا ۔ ایک حلقے کا ماننا ہے کہ حکو مت کواپنے تما م ناکام تجر بات تر ک کر کے صارفین سے لو ڈ کے مطابق میٹر یا فلیٹ ریٹ میں سے ایک آ پشن پہ عمل درآ مد کروا نا چا ہیے اور پھر انہیں اس با ت کا سختی سے پابند بنا نا چا ہیے کہ وہ وقت پر بجلی فیس کی ادائیگی کریں۔ مختصر یہ کہ نہ صرف بجلی کی سپلائی پوزیشن میں فوری طور معقولیت لاکر کشمیری عوام کو راحت دلائی جائے بلکہ مہنگائی، منافع خوری ، کالابازاری ، ذخیرہ اندوزی ، عوام کی عدم شنوائی جیسی بیماریوں سے انہیں نجات دلائی جائے تاکہ وہ سکون وراحت کی سانس لے سکیں ۔ اگر حکومت کی طرف سے بنیادی نوعیت کے یہ عوام دوستانہ کام انجام پذیر ہوئے جو ویسے بھی اس کا فرض عین ہیں، تو یہ عوام کے لئے اربا ب ِ حل و عقد کی جانب سے آنے والے سال کا تحفہ شمارہو گا۔