سرینگر// ریاست کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے دانشوروں،کالم نویسوں،ماہرین تعلیم اور قلم کاروں کے علاوہ صحافیوں نے یک زبان میں کہا کہ تاریخ پر قلم کو جنبش دینے کے دوران انفرادی نظریہ اور خیالات کا غلبہ رہتا ہے۔ سرینگر میں فعال سیول سوسایٹی’’کشمیر سینٹر فار سوشیل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈئز‘‘ کی طرف سے سابق بیروکریٹ اور قلمکار خالد بشیر کی کتاب’’کشمیر۔۔بیانیہ کے پیچھے فسانہ بے نقاب‘‘ کا جائزہ لیا گیا،جس کے دوران معروف قلم کاروں،کالم نوسیوں،سیول سوسائٹی کارکنوں اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی۔اس موقعہ پر کتانب پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جسٹس(ر) بشیر احمد کرمانی نے کہا کہ انسانی تناظر میں یہ بہت مشکل ہے کہ تاریخ پر قلم اٹھانے کے دوران وہ غیر جانبدار رہ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ واقعات کا وہ بیانیہ ہوتا ہے،جو حکمرانوں کی سوچ ہوتی ہے۔جسٹس(ر) بشیر احمد کرمانی نے کہا کہ نیل مت پران میں جس تاریخ کی عکاسی کی گئی ہے،اگر وہ نہیں ہوتی تو پنڈت کلہن راج ترنگنی شاید نہیں لکھ سکتے،جبکہ انہوں نے کہا کہ کئی ہزار سال کی تاریخ جو انہوں نے تحریر کی ہے،وہ ذہنی عکاسی بھی ہوسکتی ہے۔صحافی ریاض مسرور نے کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تاریخ خاموش دماغ کا اظہار ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں میں اگر کوئی ڈوگرہ لوگوں کے حق میں بات کرتا ہے،تو اس کو سیکولرزم،جبکہ لداخ میں بدھ کی بات کریں تو اس کو آپسی روداری کا نام دیا جاتا ہے،تاہم جب کشمیر میں95فیصد مسلمانوں کے حق میں بات کی جاتی ہے،تو اس کو بنیاد پرستی کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ ریاض مسرور نے کہا کہ اس کتاب کو نامور تاریخ دان چتر لکھا زتشی کی طرف سے’’ خطرناک‘‘ قرار دینے سے ہی اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ یہ کتاب کس قدر اہمیت کی حامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بات غور طلب ہے کہ پنڈت کلہن نے راج ترنگنی کی 4ہزار سالہ تاریخ کس طرح صرف ایک سال میں مکمل کی۔ انہوں نے کہا کہ قائم شدہ حقائق کو سر نو حقیقت کا جامعہ پہنانا کسی چلینج سے کم نہیں ہے۔ ایک اور صحافی ہلال ساقی نے کتاب پر بولتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش یہ رہنی چاہے کہ فرقہ پرستی کا جواب فرقہ پرستی سے نہ دیا جائے۔انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موقر انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کیلئے ایک خبر کرنے کیلئے جب انہوں نے جموں میں پنڈت مہاجر کیمپوں کا دورہ کیا،تو کس طرح پنن کشمیر نے نصف درجن پنڈتوں کو جمع کر کے زبردستی احتجاج کرایا،اور ‘‘جب میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ پہلے سے جو فسانہ گھڑا ہوا ہے،وہی دہرایا‘‘۔ہلال ساقی نے کہا کہ تاہم پنڈت کشمیر آنے کیلئے بھی پر طول رہے تھے۔ معروف معالج ڈاکٹر الطاف نے پرمیشوری(پروینہ) کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح اس بین المذہبی شادی کو فرقہ پرستی کا چولہ اوڈھ دیا گیا،جبکہ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ برزہامہ میں جو تاریخ کے آثار نظر آئے،ان سے ان افسانوں کے غبارے سے ہوا نکلتی ہے،جو کشمیر کی تاریخ میں لکھا جاچکا ہے۔ ہر تعلیم پروفیسر حمیدہ نعیم نے تاریخ پر قلم اٹھانے کے دوران متوازی اپروچ اپنانے کی وکالت کی،جبکہ گوہر گیلانی نے کہا کہ مذکورہ کتاب میں پنڈتوں سے جو بیانیہ درج کیا گیا ہے وہ قابل بحث ہیں۔ اس تقریب میں ڈاکٹر جاوید اقبال،عبدالمجید زرگر،انجینئر محمد یوسف مجاہد،انجینئر انور عشائی،قرت العین ،شکیل قلندر اور سیول سوسائٹی کے دیگر لوگ بھی موجود تھے