حال ہی میں کورٹ بلوال جیل میں ایک قیدی کے جسمانی تشدد کی تصویر سوشل نیٹ ورک پر نمودار ہونے کے بعد سماج کے سنجیدہ فکر حلقوں اور ریاستی حقوق کمیشن کی جانب سے تشویش اور فکر مندی کا اظہار کے بعد یہ اُمید پیداہوئی تھی کہ حکام ایسے واقعات پر قدغن عائید کرکے قیدیوں کے حقوق کےحوالے سے بین الاقوامی وملکی قوانین کا احترام کرینگے، لیکن گزشتہ دنوں نئی دہلی کے تہاڑ جیل میں اٹھارہ کشمیری قیدیوں پر ہوئے جسمانی تشدد کے بعد یہ ساری امیدیں ٹوٹ کر رہ گئی ہیں۔ جیل کے انتہائی نگہداشت والے وارڑ میں مقید رکھے گئے ان قیدیوں، جن کے معاملات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ، کی بے تہاشہ مارپیٹ کرکے اُنہیں لہولہان کرنا کس قانون کا حصہ ہے، اسکا جواب دینا بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہے، وگرنہ یہ گورننس کے نئے طریقہ ٔ کار کا ایک حصہ تصور ہوگا، جو قانون اور سماجی ڈھانچے کو مہندم کرنے کا ایک سبب بن سکتا ہے۔ یہ واقع شاید کسی کو معلوم بھی نہ ہوتا اگر دہلی ہائی کورٹ میں ایک وکیل کی جانب سے اس حوالے سے مفاد عامہ کی عرضی دائر نہ کی جاتی ،جس پر مذکورہ عدالت نے سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے معاملے کو ’’ بہت سنجیدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی ، جس نے اپنی رپورٹ میں قیدیوں پر کئے گئے جسمانی تشدد کی تصدیق کی ہے، جسکے نتیجہ میں ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے معاملے کی ’’ سنجیدہ تفتیش‘‘ پر زرو دیتے ہوئے ائیمز کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ کو زخمی قیدیوں کا طبی معائینہ کرانے کےلئے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت دی ہے۔ ان قیدیوں کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں وہ اس بات کی مظہر ہیں کہ انکی مارپیٹ کرتے وقت کسی قسم کا پاس ولحاظ نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ زخموں کے نشان سر جیسے نازک حصے کے ساتھ جسم کے تمام حصوں پر نظر آرہے ہیں۔ کیا یہ جیل انتظامیہ کی انتقامی سوچ کا مظہر نہیں ہے؟۔ان تصاویر نے ہر سنجیدہ فکر شہری کو دہلا کے رکھ دیا، کہ اکیسویں صدی کے اس دور میں ، جب ہم تہذیب و ترقی کے ساتویں آسمان کو چھونے کے دعوے کر رہے ہیں، کیا ایسا ممکن ہوسکتا ہے؟۔ لیکن مذکورہ واقعہ کے سامنے آنے سے یہ بات نہ صرف ثابت ہوئی کہ ہمارے گردو پیش میں ایسا ہی ہو ہا ہے بلکہ یہ بھی عیاں ہوا ہے کہ جیلوں کے اندر حکام اس طر ز عمل کو معمول کا وطیرہ تصور کرنے لگے ہیں۔ یہ بات بتانے کی شاید ہی ضرورت ہو کہ کسی کے قید ہونے سے اسکے شہری اور بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے بلکہ آئین ہند کی مختلف دفعات کے تحت عام لوگوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ نظر بندوں، زیر سماعت قیدیوں اور سزا یافتہ افراد کو بھی میسر رہتے ہیں اور اس میں کسی قسم کا دست و برد حقوق انسانی کی پامالیوں میں شمار ہوتا ہے۔ قیدیوں کے حقوق کے حوالےسے بین الاقوامی کنوینشن اور اقوام متحدہ کی ہدایات بھی یہی ہیں۔ ان قوانین کے تحت اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ جیل خانہ جات میں قیدیوں کے سدھار اور بحالی پر توجہ مرکوز رہنی چاہئے نہ کہ سزا و تشدد کا وطیرہ اختیار کیا جائے۔ لیکن موجودہ معاملہ سامنے آنے کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ یہاں اُلٹی گنگابہتی ہے۔اگر چہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے متعدد مرتبہ اسی نوعیت کی شکایات پر سماعت کے دوران حکومتوں پر نہ صرف جیلوں کے اندر انسانی حقوق کے احترام کو ممکن بنانے پر زور دیا بلکہ اس حوالے سے پامالیوں کے مرتکب اہلکاروںکے خلا ف کاروائی کرنے پربھی زور دیاہے ۔ جبکہ ہائی کورٹوں کو بھی جیلوں کے صورتحال اور قیدیوں کے حالات پر نظر رکھنے کے لئے کہا ہے۔جموںو کشمیر میںمزاحمتی جماعتوں کی جانب سے آئے روز جیلوں کے اندر انکے قائدین اور کارکنوں کو ذہنی اور جسمانی تشدد سے گزارنے کے الزامات عائید کئے جاتے رہے ہیں ، لیکن حکومت کی جانب سے کبھی بھی ان کا سنجیدہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ریاستی حقو ق کمیشن نے کوٹ بلوال جیل میں پیش آئے واقعہ کا از خود نوٹس لیکر جیل خانہ جات کے حکام کو واقعہ کی تحقیقات کرکے ایک ماہ کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس پر کوئی کاروائی ہوئی یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ کیونکہ ماضی میں کمیشن کی گئی ایسی ہدایات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ تہاڑ جیل معاملے کا چونکہ دہلی ہائی کوٹ نے سنجیدہ نوٹس لیا ہے، لہٰذا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ خلاف قانون کاروائی کے مرتکبین کوقانون کٹہرے میں کھڑا کیا جائیگا۔ ریاست کی وزیراعلیٰ نے بھی مرکزی وزارت داخلہ سے رابطہ کیا ہے، جس پر انہوں واقع کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اگر حکومت موجودہ واقع میں ملوث افراد سے مواخذہ کرنے میں ناکام ہوگئی تو اس طرح قانونی اور آئینی ضمانتوں پرعام شہریوں کا اعتبار متزلزل ہونا یقینی ہے، جو کسی بھی صورت میں سود مند ثابت نہیں ہوسکتا۔